مہنگائی میں کمی کے حکومتی دعوے اور عوامی حقائق … تحریر :عمران ظہور غازی

جناب وزیراعظم قوم کو مہنگائی کم ہونے کی نوید تو سنا رہے ہیں لیکن یہ نہیں بتا رہے کہ اس کمی کے اثرات عام آدمی کو کیوں نہیں حاصل ہو پارہے۔ اشیائے ضرورت کی قیمتیں اپنی جگہ برقرار ہیں وہ کسی طرح کم نہیں ہو پار رہیں لیکن سرکاری اعداد وشمار میں مہنگائی کی کمی کا ڈھنڈورا پیٹا جارہا ہے۔ مہنگائی کی کمی کے اثرات اگر عام آدمی کو نہیں ملتے یا پہنچتے تو اس کا مطلب کیا سمجھا جائے،کیا واقعۃً مہنگائی میں کمی ہوئی ہے یا یہ صرف الفاظ کا گورکھ دھندا اور پراپیگنڈہ ہے جو عوام کو متاثر کرنے کیلئے کیا جارہا ہے؟ کیا عوام کواس پراپیگنڈے سے متاثر کیا جا سکتا ہے اور اس پر کیا عوام یقین کر سکتی ہے ہر گز نہیں کیونکہ عوام تو مشکلات اور پریشانی کا شکار ہے اور ان کی پریشانیوں میں کمی نہیں ہو رہی دوسرا یہ کہ عوام سچائی سے واقف ہی نہیں بلکہ سچائی کے زیادہ قریب اورحقیقت سے ذیادہ واقف ہیں۔ ایسا نہیں کہ مہنگائی کم ہو رہی ہواور عوام کو اس کی کانوں کان خبر نہ ہو، خفیہ طور پر مہنگائی میں کمی کے پرسوں اور اعلانات پر عوام کی اکثریت اسے مذاق سے زیادہ نہیں سمجھتی ہے۔
سٹاک ایکسچینج اوپر جارہی ہے ضرور جا رہی ہو گی۔ اس کے اوپرجانے سے معیشت کتنی بہتر ہو ئی اس کا کوئی پیمانہ نہیں جو اس کا ادراک کر سکے ہے اور بتا سکے لیکن یہ پورا سچ بھی نہیں ہے۔ ایسے دعوے ہر حکومت اپنے دور حکومت میں کرتی رہتی ہے، ہر دور میں حکومتی دعوؤں کی حد تک توملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوتا ہے لیکن عملاً سفر آہستہ آہستہ طے ہوتا رہتا ہے اورعوام کی زندگی ان دعوؤں کے برعکس اس سے بھی آہستہ تر چل رہی ہوتی ہے اور عوام یہ سوچنے میں حقائق بجانب ہوتے ہیں کہ حکومتی اقدامات اور دعوے اپنے اثرات کیوں نہیں دکھا پارہے اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں کمی ہو رہی ہے اور نہ معاشی بوجھ کم ہو رہا ہے۔
شرح سود میں 2فیصد کمی ضرور ہوئی ہے اور کسی حد تک بہتری کی امیدپیدا ہو رہی ہے لیکن پاکستان اب بھی خطے کے تمام ممالک میں شرح سود میں سب سے اوپر ہے بھارت اور نیپال میں شرح سود 6.5سری لنکا میں 8.25اور بنگلہ دیش میں 10فیصد ہے شرح سود میں کمی کا براہ راست تعلق مہنگائی میں اضافے کی شرح یعنی افراط زر سے ہے ماہرین معیشت کے مطابق افراط زر کی شرح سنگل ڈیجٹ میں آنے کے بعد شرح سود کو بھی سنگل ڈیجٹ میں آنا چاہیے،کاروباری طبقہ شرح سود میں 5فیصد سے زائد کمی کی توقع کر رہا تھاجو پوری نہیں ہوا بلند ترین شرح سود نے نجی طبقے کیلئے قرضوں کا حصول مشکل بنا دیاہے شرح سود میں کمی سے معاشرے کی مڈل کلاس کو بھی ریلیف ملنے کی توقع کی جا سکتی ہے شرح سود میں کمی سے جہاں دولت کا ارتکاز ختم ہو سکے گا وہیں پر بینکوں میں سرمایہ رکھنے والوں کو اپنا سرمایہ مارکیٹ میں لانا پڑے گا البتہ ایک پریشانی ضرور ہے کہ یہ سرمایہ ملک سے باہر نہ چلا جائے کیو نکہ پیسہ باہرلے جانے سے روکنے کا کوئی موثر نظام موجود نہیں ہے شرح سود میں کمی کے ساتھ عام بزنس مین اور عام آدمی کو ریلیف تبھی ملے گاجب کاروبار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔کاروباری طبقے کو تو اس سے فائدہ ہو گا لیکن یہ فائدہ عام آدمی کو بھی منتقل ہو سکے گا؟سوالیہ نشان ہے۔
سوشل میڈیا کے ذریعے عوام تک معلومات کی رسائی کے نتیجے میں جہاں عوام کا اعتماد سرکاری وپرائیویٹ میڈیاپر کم ہوا ہے وہیں پر معلومات کیلئے سوشل میڈیا پر انحصار اور اعتماد بھی بڑھ گیاہے۔سرکاری میڈیا ہو یا ریگولر میڈیا، عوام اس کی خبروں پر اب کم ہی انحصار کرتے ہیں اور یہ سلسلہ روز بروز بڑھ رہا ہے عوامی اعتمادحکومتوں اور اداروں کو طاقت فراہم کرتا ہے لیکن اگر اعتماد باقی نہ رہے تواس سے زیادہ خرابی کوئی نہیں،اعتماد ہی حکومتوں اور اداروں کا اصل سرمایہ ہوتا ہے اعتماد باقی رہنا چاہیے۔لیکن اعتماد الفاظ کے گورکھ دھندے اورجھوٹے پراپیگنڈے سے حاصل نہیں ہوتا۔اعتماد کیلئے صدق اور سچائی بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔
اگر حکومتی دعوے کچھ اور ہوں اور حقائق کچھ اور کہ رہے ہوں اور عوام اس سے واقف ہوں تو حیلوں بہانوں کے نتیجے میں کچھ خاص لوگوں کو تو مطمئن کیا جا سکتا ہے مگر عوام کی اکژیت کو نہیں۔ حکومتی دعوؤں اور اقدامات میں مطابقت ہو نی چاہئیے اشرافیہ کی مراعات وسہولیات کے ضمن میں معیشت پر بوجھ ڈالنے والے اخراجات کے خاتمے کا اعلان کرے معاشی پالیسیوں کا تسلسل برقرار رکھنے کے ساتھ بجت اور کفایت شعاری پر توجہ کی ضرورت ہے نیز مزید قرض لینے سے گریز کیا جائے مہنگی بجلی منصوبوں سے جان چھڑانا،سستے اور متبادل پراجیکٹس سے بجلی کی پیداوارکے آغاز سے ملک کے کئی دوسرے مسائل کے حل کی جانب پیش قدمی ہو سکتی ہے اقتصادی و ترقیاتی ایجنڈے پر قومی اتفاق رائے کے ساتھ سرکاری ادارے بزنس فرینڈلی رویہ اپنائیں اشرافیہ کا حاکمانہ کردار تبدیل کر کے مشاورت اور معاونت میں تبدیل کیا جائے،مراعات کے خاتمے اور21ویں صدی کے تقاضوں کی روشنی کے مطابق جیت بنا پرہی عوامی اعتماد جیت کر حالات بہتر ہو سکتے ہیں۔
اپنی ساکھ بہتر کرنے کیلئے حکومت یہ راستہ اختیار کر سکتی ہے لیکن یہ مکمل راستہ نہیں کیونکہ جب ایک بار عوامی اعتماد کو ٹھیس پہنچتی ہے تو اس کی بحالی اوربہتری کیلئے کتنے جتن کرنے پڑتے ہیں اس کا اندازہ لگانا آسان نہیں۔