پارلیمنٹ کا عام یا مشترکہ اجلاس بلا کر لاپتہ افراد کے مسئلے کو حل کیا جائے ،سپریم کورٹ


اسلام آباد(صباح نیوز)سپریم کورٹ آف پاکستان کے آئینی بینچ نے لاپتہ افراد کو سب سے اہم ترین کیس قراردیتے ہوئے ریمارکس دیئے ہیں کہ پارلیمنٹ کا عام یا مشترکہ اجلاس بلا کر مسئلے کو حل کریں۔ لاپتہ افراد کے مسئلہ کا حل یہ ہے تمام شراکت دار سر جوڑ کے بیٹھیں، غور کریں کہ لاپتا افراد کا مسئلہ کیوں پیدا ہوتا ہے۔اگر پارلیمنٹ سپریم ہے توثابت بھی کرے۔ کیا ہم اُس اتھارٹی کوہدایت دیں جو پارلیمنٹ کے ماتحت ہے۔ جبکہ آئینی بینچ نے لاپتہ افراد کیس میں اٹارنی جنرل آف پاکستان، وزارت داخلہ و دیگر فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے تمام متعلقہ اداروں سے رپورٹس طلب کر لیں۔جبکہ دوران سماعت آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدیں خان نے کہا ہے کہ ہم لاپتا افراد کیس میں حل کی طرف جانا چاہتے ہیں، ہم رپورٹس اور اعدادوشمار ہی نہیں چاہتے، ہم نے صییح جگہ پر پہنچنا ہے۔ جبکہ دوران سماعت، جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے ہیں کہ میری نظر میں لاپتا افراد کا کیس آئینی بینچ میں موجود سب سے اہم ترین کیس ہے، لاپتا افراد کے کیسزپانچوں ہائی کورٹس مگر معاملہ حل نہیں ہورہا،کیا ہم پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے کاحکم دیں، لوگوں کی زندگی کامسئلہ ہے، ہزاروں لوگ لاپتا ہے،کیا ہم یہ کیس ہی چلاتے رہیں، یہاں اعتزاز احسن لطیف کھوسہ جیسے سیاستدان کھڑے ہیں، اس مسئلہ کا حل پارلیمنٹ نے نکالنا ہے۔لوگوں کو دوست بنانا ہے دشمن نہیں بنانا، لوگوں کواٹھا کردشمن بنارہے ہیں۔

سرکار ہوگی ماں کے جیسی، ماں توبچے کوگود میں لیتی ہے یہاں پر ماں بچوں کے ساتھ کیا کررہی ہے بتائیں۔لاپتا افراد واپس آنے پر کچھ نہیں بتاتے، لاپتا افراد واپس آنے پر کہتے ہیں شمالی علاقہ جات میں آرام کے لیے اورسیر کرنے کے لیئے گئے تھے، سیاستدانوں نے یہ مسئلہ حل کرنا ہے۔جبکہ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ ثابت کرے کہ وہ سپریم ہے۔ جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر،جسٹس سید حسن اظہررضوی اور جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس نعیم اخترافغان پر مشتمل 6رکنی آئینی بینچ نے خوشدل خان ملک، اعتزازاحسن ، آمنہ مسعود جنجوعہ اورثقلین مہدی کی جانب سے لاپتہ افرادکے معاملہ پر دائر 4درخواستوں پر سماعت کی۔ دوران سماعت جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ یہ آئین بینچ کاسب سے اہم ترین کیس ہے۔ عدالتی معاون فیصل صدیقی ایڈووکیٹ کاکہنا تھا کہ جب تک لاپتہ افرادکامسئلہ حل نہیں ہوتا اس وقت ملک میں بنیاد ی انسانی حقوق محفوظ نہیں۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل ملک جاوید اقبال وینس نے دلائل میں کہا کہ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں گزشتہ لاپتا افرادکے معاملہ پرتفصیلی بات ہوئی ہے، کابینہ نے ذیلی کمیٹی بنا دی ہے جو اپنی سفارشات کابینہ کو پیش کرے گی، حکومت لاپتا افراد کا معاملہ حتمی طور پر حل کرنا چاہتی ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ سرکار ہوگی ماں کے جیسی، ماں توبچے کوگود میں لیتی ہے یہاں پر ماں بچوں کے ساتھ کیا کررہی ہے بتائیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ لاپتا افراد کا معاملہ بیان بازی سے حل نہیں ہوگا۔ جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ لاپتا افراد کمیشن نے اب تک کتنی ریکوریاں کی ہیں۔جسٹس حسن اظہر رضوری نے کہا کہ کیا کوئی لاپتا افراد کمیشن کے پاس ڈیٹا ہے کس نے افراد کو لاپتا کیا، جو لاپتا لوگ واپس آئے کیا انہوں نے بتایاانہیں کون اٹھا کر لے کر گیا، کتنے افراد لاپتہ ہوئے اور کتنے واپس آئے۔ اس پر سیکرٹر ی لاپتہ افراد کمشین نے بتایا کہ کل 10504افراد لاپتہ ہوئے ہیں۔ جن میں ساڑھے چاریا پانچ ہزارافراد ریکور ہوئے ہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ لاپتا افراد واپس آنے پر کچھ نہیں بتاتے، لاپتا افراد واپس آنے پر کہتے ہیں شمالی علاقہ جات میں آرام کے لیے اورسیر کرنے کے لیئے گئے تھے، سیاستدانوں نے یہ مسئلہ حل کرنا ہے۔اعتزازاحسن کے وکیل سردار محمد لطیف خان کھوسہ کا کہنا تھا کہ ملک میں ڈیپ اسٹیٹ بن گئی ہے۔اس پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے سردار لطیف کھوسہ کو بات کرنے سے روکتے ہوئے کہا کہ کھوسہ صاحب !عدالت میں سیاسی بیان نہ دیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ پارلیمنٹ کا عام یا مشترکہ اجلاس بلا ئیں ، مسئلے کو حل سیاستدانوں نے حل کرنا ہے، کوئی رولز آف گیم بنالیں۔سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ کیا لاپتا افراد کے معاملے کو 26 ترمیم کی طرح حل کیا جائے۔اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ 26 ویں آئینی ترمیم بھی اپنے وقت پر دیکھی جائے گی۔لطیف کھوسہ نے کہا کہ لاپتا افراد سے بلوچستان سب سے زیادہ متاثرہ ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ آج صبح ایک انگریزی میں پڑھا کہ بلوچستان سے دوافراد کی نعشیں ملی ہیں، نعشیں بھی نہیں ہڈیاں مل رہی ہیں۔جسٹس جمال مندوخیل کاکہنا تھا کہ ہم اور ساری قوم سیاستدانوں اور پارلیمنٹ کی طرف دیکھ رہی ہے، پارلیمنٹ نے مسئلہ حل کرنا ہے، لوگوں کو دوست بنانا ہے دشمن نہیں بنانا، لوگوں کواٹھا کردشمن بنارہے ہیں۔جسٹس جمال خان مندوخیل کااعتزاز احسن کے ساتھ مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کیا ہم اُس اتھارٹی کوہدایت دیں جو پارلیمنٹ کے ماتحت ہے۔

اعتزاز احسن کے وکیل لطیف کھوسہ کاکہنا تھا کہ پارلیمنٹ کے پاس عدالتی اختیارات نہیں ہیں۔جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ کھوسہ صاحب !آپ کے تحریک انصاف کے لوگ بھی اٹھائے گئے، کیالاپتہ ارکان کی ایف آئی آرکٹوائی؟اس پرسردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ جی بالکل تحریک انصاف کے لوگوں کو بھی اٹھایا گیا۔ جسٹس مسرت ہلالی نے سوال کیا کہ کیا انہوں نے آکر بتایا کہ انھیں کون اٹھا کر لیکر گیا؟ لطیف کھوسہ نے بتایا کہ جو اٹھائے گئے ان کے بچوں کو بھی اٹھا لیا جائے گا۔وکیل فیصل صدیقی نے دلائل میں کہا کہ لوگوں کے بچے10،10،20،20سال سے لاپتا ہیں، عدالت نے گزشتہ سماعت لاپتا کے حوالے سے حکم دیا تھا اور آج وہ گزشتہ سماعت کا آرڈر بینچ کو نہیں مل رہا۔

فیصل صدیقی کاکہنا تھا کہ کیس 2ماہ بعدسماعت کے لئے مقررہوناتھا جو 9ماہ بعد مقررہواہے، یہ تواتر کے ساتھ عدالتی احکامات کی خلاف ورزی کاکیس ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ لاپتہ افراد کے حوالہ سے تین خبریں آج پڑھیں، ایک کل جماعتی کانفرنس ہوئی وہ لاپتہ افراد کے معاملہ پر بلوچستان میں احتجاج کرنے جارہے ہیں۔فیصل صدیقی کاکہنا تھا کہ جب تک لاپتہ افراد کامسئلہ حل نہیں ہوتااُس وقت تک ملک میں کوئی بنیادی حقوق نہیں ہوں گے، مجھے لاپتہ افراد کیس میں سندھ ہائی کورٹ، اسلام آباد ہائی کورٹ اور دومرتبہ سپریم کورٹ نے عدالتی معاون مقررکیاہے۔ جسٹس سید حسن اظہر رضوی نے کہا کہ لاپتا افراد کے کیس میں عدالت کا آرڈر بھی مسنگ ہوگیا۔سردارلطیف کھوسہ کاکہنا تھا کہ اسلام آباد کے ایک وکیل کے دوبیٹے 2012سے لاپتہ ہیں۔ جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ بلوچستان میں2 لاپتا افراد کے ایک کلاسک مقدمہ میں 25 وکیل پیش ہوئے، بلوچستان ہائی کورٹ کے حکم پر2 لاپتا افراد تربت میں اپنے گھرپہنچ گئے،عدالت نے واپس آنے والے افراد کو پیش ہونے کا حکم دیا لیکن بازیابی کے بعد وہ افراد کسی عدالتی فورم پر بیان کے لیے پیش نہیں ہوئے۔جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے کہ بازیاب افراد کے بیان ریکارڈ کرنے کا ایک مقصد تھا اور مقصد یہ تھا اگر آرمی سے کوئی ملوث ہے تو کورٹ مارشل ہوگا، اگرسی ٹی ڈی یا دیگر ادارے ملوث ہیں تو ان کے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کا حکم دیا جائے،ہم نے سیشن جج تربت کو بطور کمیشن بھیجا تاہم دونوں افراد نے بیان ریکارڈ کروانے سے انکار کیا اور کہ نہ ہم کمیشن اور نہ ہی ہائی کورٹ میں آکر بیان دینا چاہتے ہیں، لاپتا افراد کے کسی مقدمے کو مثال بنانا ہے تو اپنے اندر جرائت پیدا کریں، لاپتا افراد سے واپس آنے والوں میں کوئی تو کھڑا ہو جو پہاڑوں پر آزادی کے لئے گئے ان کی نعشیں مل رہی ہیں، وہ دنیا میں پاکستان کو بدنام کررہے ہیں۔ جسٹس نعیم اخترافغان نے کہا کہ لاپتا افراد کے کچھ کیسز میں افراد ریاست کو برباد اور بدنام بھی کرتے ہیں، لاپتا افراد کے نام پر آزادی کی جنگ بھی چل رہی ہے، سسٹم میں کوئی کھڑا ہونے کو تیار نہیں۔کوئی جینوئن کیس ہیں تواُن کو مثال بننا چاہیئے۔

جستس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ اگرکیس میں کچھ کرنا ہے تواٹارنی جنرل آئیں اوررپورٹ پیش کریں۔فیصل صدیقی نے کہا کہ اٹارنی جنرل یقین دہانی کے بعد 350 افراد لاپتا ہوگئے، اسٹیٹ آفیشل گزشتہ عدالتی احکامات کی نافرمانی کر رہے ہیں، بلوچستان کویہ مسئلہ جلارہا ہے۔اس موقع پر ڈیفنس آف ہیومن رائٹس پاکستان کی چیئرپرسن آمنہ مسعود جنجوعہ کاکہنا تھا کہ میری فریادسن لیں، میں اُن لوگوں کی نمائندہ ہوں جن کاکوئی پرسان حال نہیں، 1388افراد ابھی بھی لاپتہ ہیں، میرے شوہرمسعود جنجوعہ کو لاپتہ ہوئے 20سال ہو گئے ہیں۔ اس پر جسٹس جمال خان مندوخیل کاآمنہ مسعود جنجوعہ کے ساتھ مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کیا آپ کواب بھی امید ہے کہ آپ کے شوہر واپس آئیں گے۔ اس پر آمنہ مسعود جنجوعہ کاکہنا تھا کہ فیصل فراز اور میرے شوہر واپس آئیں گے، میری درخواست سپریم کورٹ سے نمٹائی جاتی ہے میں پھر اسی عدالت میں واپس آتی ہوں۔ آمنہ مسعود جنجوعہ کاکہنا تھا کہ ایک شوہر کواس کی بیوی اور تین بیٹیوں کے سامنے اسلام آباد سے اٹھا کرلے گئے۔ جسٹس مسرت ہلالی کاکہنا تھا کہ ایک گھروں سے لوگوں کواٹھایا جاتا ہے اوردوسرا جو لوگ باہر جاتے ہیں اورلاپتہ ہوتے ہیں تواُن کو بھی لاپتہ افراد کی فہرستوں میں شامل کردیا جاتا ہے ، ہم نے خیبرپختونخوا میں یہی دیکھا ہے۔

بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان کا آمنہ مسعود جنجوعہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہم آپ کے تعاون سے صیح جگہ پہنچنا چاہتے ہیں۔ اعتزاز احسن نے کہا کہ اٹارنی جنرل نے عدالت کو یقین دہانی کرائی تھی کہ کوئی شہری لاپتا نہیں ہوگا، ہم نے مارشل لاء کے دور میں کوڑے بھی کھائے ہیں، جنرل کاٹرائل بھی فائیو اسٹارہوگا۔ جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ ہم لاپتا افراد کیس میں حل کی طرف جانا چاہتے ہیں، ہم رپورٹس اور اعدادوشمار ہی نہیں چاہتے۔ جسٹس  جمال خان مندوخیل کاکہنا تھاکہ لاپتا افراد کے مسئلہ کا حل یہ ہے تمام شراکت دار سر جوڑ کے بیٹھیں، غور کریں کہ لاپتا افراد کا مسئلہ کیوں پیدا ہوتا ہے، حل پارلیمنٹ کے پاس ہے، پارلیمنٹ کو عدالت نے سپریم تسلیم کیا ہے لہذا پارلیمنٹ خود کو سپریم ثابت کرے۔جسٹس مسرت ہلالی کاکہنا تھا کہ پارلیمنٹ ثابت کرے کہ وہ سپریم ہے۔ جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ ہم اٹارنی جنرل کونوٹس جاری کررہے ہیں۔ اعتزاز احسن نے کہا کہ جو لاپتا افراد اینکر کے گھروں سے برآمد ہوئے ان کو بلایا جائے، جن لوگوں کاسافٹ ویئر اپ ڈیٹ ہوا ان کو بلایا جائے وہ عدالت سے جھوٹ نہیں بولیں گے۔ اس پر جسٹس امین الدین نے کہا کہ ہم انھیں بھی بلائیں گے۔

جسٹس مسرت ہلالی کاکہنا تھا کہ پارلیمنٹ ثابت کرے ہم سپریم ہیں، پھر ہمارے پاس آئیں۔جسٹس مسرت ہلالی کالطیف کھوسہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ کے اپنے ارکان آجاتے ہیں کہ ہمارے ساتھ کچھ نہیں ہوا۔ سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ جو لاپتا ہوا اس سے پوچھیں کتنا تشدد ہوا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کھوسہ صاحب! آپ سے ریکارڈ کے مطابق پوچھیں گے، آپ سے پوچھیں گے آپ نے لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے پارلیمنٹ میں کتنی تقرریں کیں۔آئینی بینچ نے لاپتہ افراد کیس کی سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کر دی۔ZS