اسلام آباد (صباح نیوز)نائب امیر جماعتِ اسلامی، سیکرٹری جنرل ملی یکجہتی کونسل پاکستان لیاقت بلوچ نے کہا ہے کہ پاکستان کی ہر سیاسی، جمہوری جماعت اور ہر فرد کو بھی آئینی جمہوری بنیادی حقوق کے تحت پرامن احتجاج کا حق ہے، ریاست، حکومت، بالادست قوتیں طاقت اور لاقانونیت سے کسی بھی احتجاج کو دبائیں یا کچل دیں تو یہ ریاست اور حکومت کے لئے بالآخر تباہ کن نتائج کا باعث بنتا ہے، آئین، قانون اور جمہوری اقدار کی پاسداری تمام سٹیک ہولڈرز کی قومی ذمہ داری ہے، اِسے فرد، گروہ، پارٹی، حکومت یا ریاست پامال کرے تو وہ اپنے اپنے دائرے میں برابر کی ذمہ دار ہیں، بحرانوں کی زد میں پاکستان کے تحفظ کا واحد راستہ آئین کی عملداری، آزاد عدلیہ اور پائیدار و بااعتماد جمہوری رویوں کا فروغ ہے۔
اسلام آباد میں سینئر صحافیوں، دھرنا کی کوریج کرنے والے میڈیا رپورٹرز، سیاسی، سماجی رہنمائوں کے ساتھ ملاقات کے بعد گفتگو کرتے ہوئے لیاقت بلوچ نے کہا کہ پاکستان تحریکِ انصاف کی فائنل کال احتجاج کا اختتام ہوگیا، ملک افواہوں، پروپیگنڈہ اور یکطرفہ من پسند خبروں کے پھیلائو کی زد میں ہے اور مجموعی طور پر دونوں اطراف سے سچ نہیں بولا جارہا۔ ایک طرف پی ٹی آئی قیادت نے احتجاج کا بڑا اعلان تو کردیا لیکن اس کے تقاضے پورے نہیں تھے تو دوسری طرف حکومت اور سکیورٹی فورسز نے پرامن احتجاج کو بڑے مقاصد کے حصول کے لیے پرتشدد بنایا۔ پی ٹی آئی کی صفوں میں انتشار پر مبنی فِکر نے حکومت، اسٹیبلشمنٹ اور سکیورٹی فورسز کو ہر طرح کے مواقع فراہم کردیئے ۔لیاقت بلوچ نے کہا پاکستان تحریکِ انصاف کے مخلص کارکنان خصوصا خیبرپختونخوا کے نوجوانوں نے بڑی محنت، جدوجہد اور استقامت کا مظاہرہ کیا، آنسوگیس، لاٹھی چارج اور فائرنگ کی زد میں آئے۔ مصدقہ اطلاعات کے مطابق زخمی تو بڑی تعداد میں ہوئے، البتہ پی ٹی آئی ورکرز، رینجرز اور پنجاب پولیس کی ملاکر کل 8 شہادتیں بھی ہوئیں، اس طرح کل 8 قیمتی جانیں تشدد کا شکار ہوگئیں۔ کریک ڈائون کے بعد یہ المناک پہلو ابھرا ہے کہ پی ٹی آئی کی صفوں میں بے اطمینانی اور قیادت پر بے اعتمادی پیدا ہوئی۔ سیاست، جمہوریت کمزور ہوئی، پرامن جمہوری مزاحمت کو پرتشدد بنانے کا ریاست کے پاس حربہ آگیا، قومی سیاسی قیادت کو بحران کے خاتمہ، سیاسی کارکنان کو مایوسیوں سے محفوظ رکھنے کے لیے قومی سیاسی ڈائیلاگ کرنا ہوگا۔
خیبرپختونخوا ضلع کرم اور بلوچستان میں جاری کشیدگی، دہشت گردی کے حوالے سے لیاقت بلوچ نے کہا کہ ملک میں سیاسی بحران کیساتھ ساتھ کرم، سدہ، پارا چنار میں قتل و غارت گری، بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات نے پورے ملک میں مسئلہ فلسطین اور مسئلہ کشمیر کو پس منظر میں دھکیل دیا ہے، ملک میں سیاسی استحکام جہاں قومی سلامتی، دہشت گردی کے خاتمہ اور اقتصادی استحکام کے لئے ضروری ہے وہیں فلسطین و کشمیر کے مسائل کے تناطر میں بھی اس کی اشد ضرورت ہے، اسلامی نظریاتی ایٹمی صلاحیت کے حامل پاکستان کے لئے اندرونی استحکام، اتحادِ امت پر مبنی کردار اور فلسطین و کشمیر پر متفقہ قومی حکمتِ عملی ناگزیر ہے۔انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا ضلع کرم کی تحصیلوں سدہ اور پارا چنار میں قبائلی، فرقہ وارانہ محاذ آرائی کی پرانی تاریخ ہے، حکومتوں، سکیورٹی حکمت کاروں کی عدم توجہی اور بیرونی ممالک کے مفادات کی سہولت کاری نے حالات کو تباہی سے دوچار کرکے اس نہج پر پہنچایا ہے، وقفوں کے ساتھ شدت، فرقہ واریت اور قبائلی تعصب کی آگ بھڑکتی ہے تو لاتعداد گھرانے برباد ہوتے ہیں، مستقل امن کے لیے شیعہ سنی مسالک کے اکابر علما، صوبائی، مقامی سیاسی قیادت اور حکومتی سکیورٹی اداروں کے معتبرین کو مل کر مستقل بنیادوں پر پرامن اور عملدرآمد کی حکمتِ عملی بنانا قومی انسانی فریضہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ عالمی استعماری قوتوں کی نئی صف بندی کے تناظر میں اسلحہ و گولہ بارود، اقتصادی تعلق اور پابندیاں، دہشت گردی کا پھیلائو، دہشت گردی کے لیے موجود افراد کی سرپرستی کا شرمناک سلسلہ جاری ہے، پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کرنا، پاکستان کے ایران، افغانستان، چین، سعودی عرب سے تعلقات کو سرد مہری، کشیدگی اور شکوک و شبہات کا شکار کرنا عالمی استعماری قوتوں کے گریٹ گیم کا حصہ ہے۔ ایسی صورتِ حال میں قومی سیاسی جمہوری قیادت اور ریاست مقتدر اداروں کو حالات کا صحیح ادراک کرتے ہوئے قومی سلامتی کے تحفظ اور پاکستان کے استحکام پر مبنی فوری اقدامات کرنا ہونگے، لمحہ بھر کی تاخیر اور غلط سمت میں کئے گئے اقدامات طویل مدت کے لئے بحران در بحران پیدا کرنے کا سبب بنیں گے۔