اسلام آباد(صباح نیوز) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے تفویض قانون سازی نے سفارش کی ہے کہ چائلڈ پروٹیکشن کا نظام جو پنجاب میں چل رہاہے اس کا نفاذ اسلام آباد میں بھی کیا۔ کمیٹی نے صوبائی چیف سیکرٹریز کی کمیٹی میں عدم حاضری پر شدید برہمی کااظہار کرتے ہوئے اگلے اجلاس میں حاضری یقینی بنانے کی ہدایت کردی ۔چیئرپرسن کمیٹی نے کہاکہ لاوارث بچوں کو گود لینے کے حوالے سے باقاعدہ ایک نظام بنایا جائے تاکہ ان کا تحفظ یقینی بنایا جاسکے ۔قائمہ کمیٹی نے آئی سی ٹی وقف بورڈ کے رولز میں ترمیم کا معاملہ اگلے اجلاس تک موخر کرتے ہوئے حکام کو ہدایت کی کہ اس حوالے سے مکمل تیاری کرکے اگلے اجلاس میں کمیٹی کو آگاہ کیا جائے، اسلامی نظریاتی کونسل کی طرف سے علما سے مشاورت کے ساتھ بنائے جانے والے وقف بورڈ رولز پر وزارت داخلہ نے اعتراض کردیا ۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے تفویض قانون سازی کا اجلاس چیئرپرسن نسیمہ احسان کی زیرصدارت پارلیمنٹ ہائوس میں ہوا۔ اجلاس میں سینیٹر بلال احمد خان،سینیٹر روبینہ قائمخانی نے شرکت کی۔کمیٹی میں سپیشل سیکرٹری داخلہ،ایڈیشنل سیکرٹری وزارت مذہبی امور،سیکرٹری این سی آر سی،اسلامی نظریاتی کونسل کے حکام نے شرکت کی ۔
کمیٹی میں آئی سی ٹی وقف رولز کا معاملہ زیر غور آیا۔ چیئرپرسن کمیٹی نسیمہ احسان نے کہاکہ سینیٹر عطاالرحمن کمیٹی میں موجود نہیں ہیں مگر ان کے نمائندے کمیٹی میں شامل ہیں ۔عدالت سے سزا یافتہ اور فورتھ شیڈول کا بندہ وقف بورڈ کا سربراہ نہیں بن سکتا ہے۔حکام نے بتایاکہ آئی سی ٹی وقف رولز کے تحت وقف منیجر کے لیے فورتھ شیڈول اور سزایافتہ فرد کو نہیں ہونا چاہئے وہ مسجد کا انتظام سنبھالے گا ۔ اس سے نقص امن کا خطرہ ہوتا ہے ۔خطیب امام مسجد پارلیمنٹ احمد الرحمن نے کہاکہ بندے کو شیڈول فوتھ میں سیاسی بنیادوں پر شامل کیا جاتا ہے اس ایکٹ میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے اگر شیڈول فورتھ کو شامل کرنا ایکٹ میں نہیں ہے ان کو ایکٹ میں ڈالنا چاہیے ۔ جوچیز ایکٹ میں نہ ہووہ رولز میں نہیں ڈالی جاسکتی ہے کمیٹی نے ہدایت کی کہ علما کرام کے خدشات کو دور کیا جائے ۔چیئرپرسن نے کہاکہ تمام صوبوں کے چیف سیکریٹریز کو بلایا تھا مگر ان میں سے ایک بھی نہیں آیا اگر دوبارہ سخت نوٹس جاری کیا جائے ۔اسلامی نظریاتی کونسل حکام۔نے کہاکہ وقف منیجر کے لیے فورتھ شیڈول میں ہونے کی بنیادپر نااہلی کی کونسل نے مخالفت کی ہے۔
کمیٹی نے معاملہ اگلے اجلاس تک موخر کردیا ۔کمیٹی میں بچوں کی ٹریفکنگ کا معاملہ زیر بحث آیا ۔حکام نے بتایا کہ چائلڈ پروٹیکشن 18 ویں ترمیم کے بعد صوبائی معاملہ ہے۔ وفاق میں کمیشن ہیں مگر ان کا کردار سفارشات تک ہے ۔ چیئرپرسن کمیٹی نے کہاکہ بچوں کے اعضا کی خریدوفروخت ہورہی ہے لوگ بیرون ملک سے گردے کا ٹرانسپلانٹ کے لیے آتے ہیں ۔ بچوں کو 2 سے 3 ہزار ڈالر لے کر بیچ دیتے ہیں ۔ان بچوں سے بیرون ملک کیا سلوک کیا جاتا ہے کیایہ دیکھا جاتا ہے ۔ کیا ان بچوں کو مار کر ان کے اعضا تونہیں نکالے جاتے ان کے ساتھ بیرون ملک کیا سلوک ہوتا ہے؟اسلام آباد میں بچوں کو گود لینے کے لیے ایک منظم طریقہ کار ہونا چاہیے ۔ لاوارث بچوں کو کس طرح تحفظ دیا جاسکتا ہے ۔
حکام نے بتایا کہ پاکستان میں بچوں کو گود لینا کا قانون نہیں ہے ۔چائلڈ پروٹیکشن پنجاب کے حکام نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے کہاکہ پنجاب میں ہمارا 13 اضلاع میں سنٹر بن گئے ہیں اب کوئی بھی لاوارث بچے کو ڈی سی کے ذریعے گود نہیں لے سکتا ہے اس کو پہلے چائلڈ پروٹیکشن پنجاب کے حوالے کیا جاتا ہے اور ایک باقاعدہ طریقہ کار بن گیا ہے جس کے تحت بچوں کو گود دیا جاتا ہے ہم نے 70ہزار بچوں کو ریسکیو کیا اور تین سال میں ایک سو سے زائد لاوارث بچوں کو گود لینے والے والدین کے حوالے کیا ہے ۔ کمیٹی نے سفارش کی کہ چائلڈ پروٹیکشن کا نظام جو پنجاب میں چل رہاہے اس کا نفاذ اسلام آباد میں بھی کیا جائے ۔