پتہ نہیں کیوں، ہر سال ختم ہوتے ہوتے اپنے ساتھ ان نابغۂ روزگار شخصیات کو لے جاتا ہے، جنہوں نے علم و ادب کو بہت کچھ دیا ہوتا ہے۔ اور ہم جب ان کے بارے میں بات کرتے ہیں تو اول اپنی ذات کا حوالہ کہ میں تو سمجھاتا تھا کہ بہت نہ لکھو پبلشر اور یہ قوم ناقدری ہے۔ مگر شاید خالد احمد کے لئے تو کوئی ایسا کہتا ہی نہیں تھا۔ وہ گُم صُم رہنے والا، ساتھ چلنے والے کو نہ پہچانتا تھا نہ بات کرتا تھا۔ یہ وہ نوجوان تھا کہ سول سروس میں ٹاپ کیا تھا۔ روس میں ملازمت کا آغاز اور پھر انجام کہ اُسے روسیوں کا تنظیمی ڈھانچہ بہت ناپسند لگا۔ وطن واپس آیا تو اس زمانے میں بہت اچھے انگریزی کے روزنامے، ویکلی اور منتھلی پرچے نکلتے تھے۔ خالد کو ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ زندگی میں بہت سنجیدہ اور بات کرنے سے زیادہ باتیں سننا پسند کرتا تھا۔ اس کی ایک عجیب عادت تھی کہ دن چاہے جس جگہ صرف ہو۔ سونا تو ماں کے ساتھ۔ یہ عادت شادی کے بعد بھی چھوٹی نہیں۔ چونکہ بہت اعلی ٰتعلیم یافتہ سے شادی کی تھی۔ اس لیے زندگی نے سمجھ لیا کہ ’’وارث شاہ نہ عادتان جاندیاںنیں‘‘۔ پڑھنا اور لکھنا، ساری عمر یہی شوق زندگی رہا۔ وہ بہت کم دوست بناتا تھا۔ کسی شام ،منیر دادا کی ہفتے کی شام کی بیٹھک میں چلا جاتا، زاہد ڈار سے ہی مکالمہ کرتا بہت لوگ ملتے جو اس کی تحریروں کے عاشق تھے۔ وہ تو بس ہاتھ ملاکر اپنے اندر چھپ جاتا تھا کہ پھر وہ بولتا ہی نہیں تھا۔ کل بھی ایسے ہی ہوا۔ صبح کو بستر میں وہ تو تھا مگر روح نے علیحدگی اختیار کرلی تھی۔ کمال ہوگیا کہ نواز شریف تک کو وہ یاد تھا اور قراردادِ تعزیت پیش کی۔ میں یو ٹیوب پر خالد کے مضامین تلاش کر رہی تھی ،وہاں یہ معاملہ در پیش تھا کہ سائنسدانوں کا خیال اور تجزیہ ہے کہ مردے کا دماغ موت کے کئی گھنٹے بعد تک کام کرتا رہتا ہے۔ اب ان کو یہ مسئلہ درپیش ہے کہ صحیح موت کا تعین کیسے کیا جائے۔ اس سے پہلے کہ مولوی بیچ میں کود پڑیں۔ ہم اپنے اردگرد ہونے والے واقعات اور موت کا تجزیہ کریں۔
میں ایک سائنسدان سے بات کرتے ہوئے کہہ رہی تھی کہ ہمارے مذہب میں تو کہا گیا ہے کہ مردے کو جلدی جلدی دفنا دیں اور اُسے ہاتھ نہ لگائیں۔ اس نے ہنستے ہوئے کہا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ایشیا اور افریقہ کے بہت سے ملک، چار ہزار سال پیچھے رہ گئے۔ آپ لوگ جہاد، تبلیغ اور روحانیات کے چکر میں ابھی تک بچوں کو بیمار ہوں تو مولوی کا پڑھا ہوا پانی پلا کے مطمئن ہو جاتے ہیں۔ میں نے بحث بند کرتے ہوئے سامنے لکھا دیکھا کہ شارجہ میں کتاب میلہ۔ ؟؟ اکیڈمی سے پوچھا ’’ کیاآپ لوگ گئے تھے، حوالہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا۔ نہ ہمیں دعوت نامہ ملا تھا اور نہ ہی ہمارے پاس ایسے خرچوں کے لئے بجٹ ہی ہوتاہے۔‘‘ مجھے یاد آیا نیشنل بک فائونڈیشن میں جب ڈاکٹر انوار تھا تو ہر سال زبردست تین روزہ میلہ ہوتا تھا۔ ٹھنڈی سانس بھر کر کہا ’’وہ کسی سے ادارے سے پیسے مانگ لیتا تھا۔ ‘‘میں نے کہا اب تو پبلک اور پرائیویٹ پارٹنر شپ اسکولوں اور کالجوں میں ہی کی جارہی ہے۔ سرکاری اداروں کو بھی یہ اجازت حاصل کرکے ایسے اقدامات کرنے چاہئیں۔ مجھے یاد آیا کہ میں جب پی این سی اے کی چیئرپرسن تھی تو اس وقت تھیٹر فیسٹیول کارپوریشنز سے فی ڈرامہ پیسے مانگ کر دس دن کا ہنگامہ کرتی تھی اور بیک وقت تین مقامات پر تھیٹر ہورہا ہوتا تھا۔ اب دیکھئےنا احمد شاہ نے پورے 35دن کا میلہ کیا جس میں کوئی 20ممالک کے فنکاروں نے اپنے ملک کے ڈرامے پیش کئے، ہمارے نوجوانوں نے بھی پرانے ڈراموں کو اسٹیج کیا۔ بات ہے حوصلہ کرنے کی۔ ہر ملک کے سفیر تیار ہو جاتے ہیں ایک دفعہ درخواست تو گزاریں۔ پہلے جرمنی، انڈیا اور چینی سفارتخانے، کتاب میلے کے علاوہ، کلاسیکی ڈانس اور ڈرامے پیش کرتے تھے۔ میری بات کو ہنسی میں ٹالتے ہوئے کہا۔ پھر آپ کے خلاف انکوائریاں بھی تو ہوتی رہیں کہ غیر ممالک اس کو پیسے کیوں دیتے ہیں۔ میں نے کہا ہر کام کرنے والے کے خلاف انکوائریاں ہوتی ہیں ۔ عکسی مفتی، فوزیہ سعید کے خلاف بھی تو انکوائریاں ہوئیں۔ پاکستان میں کام کرنے والوں کو ان منزلوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ یہ کونسی نئی بات ہے۔ فیض صاحب کے خلاف بھی تو مقدمے بنائے گئے تھے فلم بنانے پر۔ ہماری ہر حکومت کو انکوائریوں کا سامنا رہا۔ خیر یہ اور طرح کا مسئلہ ہے۔ وہاں تو کھانے والے بہت ہوتے تھے۔ دس سال مقدمہ چلتا اور پھر بری ہو جاتے۔ میرے بیٹے نے اچک کر کہا ’’پھر تو یہ عمران خان کا مقدمہ بھی سال دو سال بعد ختم ہو جائے گا۔ میں نے اُسے چپ کرانے کے لئے کہا’’ ہم دنیا سے چار صدیاں پیچھے ہیں۔ آج تک کسی وزیراعظم کی کرپشن پر مقدمے تو بنے اور گیارہ گیارہ سال تک چلے، پھر سب صاف کہلائے گئے۔‘‘ ابھی کچھ نیا ہونے والا ہے، ہر دفعہ آپ یہی کہتی ہیں ۔؟ اچھا اب تو قید سے جو چھوٹے گا وہ بولے گا۔
بشکریہ روزنامہ جنگ