اسلام آباد( صباح نیوز)قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی قانون نے ملک بھر میں کوٹہ سسٹم میں توسیع کا بل کثرت رائے سے مسترد کردیا،قائمہ کمیٹی نے نورعالم خا ن کے تین بل مسترد کردیئے بلوں کی جے یوآئی نے بھی مخالفت کی ،بلوں میں اوورسیز پاکستانیوں کے لئے سینیٹ،قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں مخصوص نشستیں مختص کرنے ، ججوں اور سرکاری ملازمین کی دوہری شہریت پر پابندی اور سوموٹو نوٹس سے متعلق آئینی ترمیمی بل شامل ہیں ۔عالیہ کامران نے کہاکہ کوٹہ سسٹم کے بحال کو مسترد کرنے سے چھوٹے صوبوں میں اچھا پیغام نہیں جائے گا، چھوٹے صوبے 50سال میں برابری کے بجائے صوبے مزیدپیچھے چلے گئے ہیں ۔قائمہ کمیٹی نے وزیر اور وفاقی سیکرٹری کی عدم شرکت پر شدید برہمی کااظہارکیا ۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون انصاف کا اجلاس چیئرمین محمود بشیر ورک کی زیر صدارت ہوا۔اجلاس میں بیرسٹر گوہر،بلال اظہر کیانی،نفیسہ شاہ لطیف کھوسہ،کرن حیدر، زہرہ ودود فاطمی اور عالیہ کامران نے شرکت کی ۔ارکان نے کمیٹی میں وزیر اور سیکرٹری کی عدم حاضری پر شدید برہمی کا اظہار کیا ۔حکام نے بتایا کہ وزیر وزیراعظم آفس میں ہیں جبکہ سیکرٹری قانون وانصاف کوئٹہ گئے ہوئے ہیں۔عالیہ کامران نے کہاکہ ایک ہفتہ پہلے شیڈول کمیٹی کا آگیا تھا وزیر اور سیکرٹری کو کمیٹی میں آنا چاہیے تھا ۔لطیف کھوسہ نے کہاکہ کمیٹی کو اہمیت نہیں دی جارہی ہے ۔چیئرمین کمیٹی نے کہاکہ ارکان کی رائے اہم ہے یہ رائے وزیر کو پہنچائی جائے ۔یہ میٹنگ اس لیے رکھی ہے کی نورعالم خان کا بل ہے اس پر غور کیا جائے ۔ کمیٹی میں حکومتی نیب ترمیمی بل زیر غور آیاحکام نے کہاکہ اگلے اجلاس تک بل کوموخر کیا جائے ۔
لطیف کھوسہ نے کہاکہ یہ ڈرئیکونل لا ہے اس کو مسترد کردیا جائے وزیر خود اس میں دلچسپی نہیں لے رہے ہیںعالیہ کامران نے کہاکہ ہم اس بل کے مخالف ہیں پی ڈی ایم میں اس کو ہم نے مسترد کردیا تھا اس میں ریمانڈ کی مدت بڑھی کارہی ہے ہم اس کی مخالفت کررہے ہیں۔چیئرمین کمیٹی محمود بشیر ورک نے کہاکہ وزیر قانون بھی اس بل کے مخالف ہیں اس لیے باربار اس کو موخر کرنے کی درخواست کررہے ہیں۔کمیٹی میں عالیہ کامران کا کوٹے میں توسیع کے حوالے سے آئینی ترمیمی بل دوبارہ کمیٹی میں زیر غور آیا ۔عالیہ کامران نے کہاکہ جو کہتاہے کہ کوٹے کو ختم کیا جائے اور سامنے آکر کہیں تاکہ لوگوں کو بھی پتہ چل جائے ہمارے علاقے برابری کے بجائے اور پیچھے چلے گئے ہیں ۔
بیرسٹر گوہر نے کہاکہ کوٹہ نہیں ہونا چاہیے اس وقت وسائل کم تھے اس وجہ سے کوٹہ رکھا گیا تھا کے پی کے میں 34 یونیورسٹیاں ہیں پہلے صرف دو تھیں کوٹے کے 40 سال مکمل ہوگئے ہیں اب مزید بھی 11سال گزر گئے ہیں ۔ میڑٹ کی طرف ہمیں جانا چاہیے ۔ 2010 میں 18 ویں ترمیم ہوئی اس میں بھی اس کو نہیں رکھا گیا 26 آئینی ترمیم بھی آئی مگر اس میں بھی کوٹہ کو نہیں رکھا گیا ہے ۔ممبرحسان صابر نے کہاکہ کوٹے کو 50سال مکمل ہوگئے ہیں اب میرٹ پر لوگوں کو رکھنا چاہیے ۔ لطیف کھوسہ نے کہاکہ جب تک میرٹ نہیں ہوگا ملک ترقی نہیں کرسکے گا،زہرا ودود فاطمی نے کہاکہ کوٹہ سسٹم ختم ہونا چاہئے،
نفیسہ شاہ نے کہاکہ ابھی میری کولیگ نے مخالفت کی ہے لیکن وہ کوٹہ سسٹم پر بیٹھی ہوئی ہیں،میں اس قانون کی حمایت کرتی ہوں،ممبر کمیٹی علی محمد خان نے کہاکہ کوٹہ سسٹم کو فوری طور پر ختم نہ کریں کچھ عرصے کے لیے جاری رکھیں، کوٹے سسٹم کی مخالفت اور26 ویں آئینی ترمیم کا تذکرہ کرنے پر عالیہ کامران نے بیرسٹر گوہر پرشدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ کاش ہم ان کی باتیں منوانے کے لئے نہ بیٹھتے ، شاید غلطی کردی، بجائے ہمارا احسان مند ہونے کے آپ کہہ رہے ہیں اس وقت یہ کیوں نہیں کی، جس پر بیرسٹر گوہر نے کہاکہ ہم مولانا فضل الرحمان کے کردار کا اعتراف کرتے ہیں،ہمارے لئے ترمیم میں کوئی چیز نہیں ڈالی گئی،کمیٹی نے رائے شماری کے بعد کوٹہ سسٹم سے متعلق بل کثرت رائے سے مسترد کردیابل کے حق میں 6 اور مخالفت میں 7 ووٹ آئے۔
واضح رہے کہ اس سے قبل کمیٹی نے بل کثرت رائے سے پاس کیاتھا مگر کمیٹی چیئرمین نے بعد میںکہاتھاکہ ووٹنگ کی گنتی غلط ہوگئی تھی اس لیے دوبارہ بل کمیٹی میں لیاگیاہے۔ اجلاس میں اوورسیز پاکستانیوں کے لئے سینیٹ،قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں مخصوص نشستیں مختص کرنے کے آئینی ترمیم کا بل جائزہ لیاگیا۔ بل کے محرک نور عالم خان نے کہاکہ اوورسیز پاکستانی ہمارے ملک کی ریڑھ کی ہڈی ہیں، اوورسیز پاکستانیوں کو مخصوص نشستیں دی جائیں، بیرسٹرگوہر نے کہاکہ ہر وہ بندہ ممبر آف پارلیمنٹ بن سکتا ہے جو رجسٹرڈ ووٹر ہو، چیئرمین کمیٹی نے کہاکہ اس کو یہاں آکر الیکشن لڑنا چاہئے،وزارت قانون کی بریفنگ گول مول ہے، کمیٹی نے کثرت رائے سے بل مسترد کردیا۔کمیٹی نے نور عالم خان کے ججوں اور سرکاری ملازمین کی دوہری شہریت پر پابندی سے متعلق بل کا جائزہ لیا۔
چیئرمین کمیٹی نے کہاکہ کوئی سرکاری ملازم دوہری شہریت والا نہیں ہوسکتا، علی محمدخان نے کہاکہ بیوروکریسی میں گریڈ 21 ،22 دوہری شہریت والا ہوسکتا ہے، کوئی ایکٹ بنانا چاہئے کہ یہ بھی دوسری شہریت والے نہ ہوں، نورعالم خان نے کہاکہ میں چاہتا ہوں بیوروکریٹ یا جج دوہری شہریت والا نہیں ہونا چاہئے، عالیہ کامران نے کہاکہ نورعالم خان ججوں پر تپے ہوئے ہیں اس لیے انہوں نے جج لکھاہے جس پر نورعالم خان نے کہاکہ میں نہیں تپہ ہوا ہوں ۔کمیٹی نے آبزرویشن کے ساتھ بل مسترد کردیا۔کمیٹی نے نور عالم خان کے سوموٹو نوٹس سے متعلق آئینی ترمیمی بل کا جائزہ لیا۔نورعالم خان نے کہاکہ یہ 2018 میں بھی بل جمع کیا تھا،وزیراعظم نااہل ہوئے ہیں،بانی پی ٹی آئی کو سوموٹو میں بلایا گیا،یوسف رضا گیلانی، نواز شریف کو سوموٹو میں نااہل کیا گیا،
وزارت قانون کے حکام نے بتایاکہ جب یہ بل جمع کرایا گیا تب 26 ویں ترمیم نہیں آئی تھی، جس پر نور عالم خان نے بل واپس لے لیا۔کمیٹی نے نور عالم خان کے توہین عدالت آرڈیننس کو منسوخ کرنے کے بل کا جائزہ لیا۔نور عالم خان نے کہاکہ توہین عدالت آرڈیننس کو ری پیل کیا جائے، ، بیرسٹر گوہر نے کہاکہ نور عالم خان کہتے ہیں سرے سے قانون ہی نہ ہویہ کوئی نیا قانون لے آئیں بجائے اس کے کہ سرے سے ری پیل کیا جائے، لطیف کھوسہ نے کہاکہ یہ مشرف لے کر آیا تھا، وہ قانون لایا جائے جو پیپلز پارلیمنٹ چاہتی ہے، نیا قانون بننے کی ضرورت ہے، نورعالم خان نے کہاکہ میں نیا قانون ڈرافٹ کر لیتا ہوں اس کو ڈیفر کریں، کمیٹی ارکان کے کہنے پر نور عالم خان نے بل واپس لے لیا۔