دل تو میرا اُداس ہے ناصر
شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے
شہر آپ کے ساتھ اداس ہوتا ہے۔ آپ کے ساتھ خوش ہوتا ہے۔ کیا کبھی سوچا کہ شہر آپ کے سوزِ دروں سے کیسے واقف ہوتا ہے۔سچ تو یہ ہے کہ آپ شہر کے اندر نہیں بلکہ شہر آپ کے اندر بستا ہے۔
آپ جب شہر چھوڑتے ہیں تو آپ نے پلٹ کر دیکھا ہے کہ شہر کی آنکھوں میں کتنی نمی ہے۔ آپ شہر کیلئے کتنے اہم تھے۔ کبھی آپ نے، آپ کے اہل خانہ نے دیدۂ دل وا کیا ہے کہ فٹ پاتھ، گلیاں آپ کے قدموں کے نقوش کیسے سنبھال سنبھال کر رکھتی ہیں۔
آپ رزق کی تلاش میں، زیادہ پیسہ کمانے کی جستجو میں کبھی صرف شہر سے نکلتے ہیں، اکثر ملک بھی چھوڑ دیتے ہیںلیکن وہ گائوں، وہ شہر، وہ کوچے، نکڑیں، چوبارے، بالکونیاں، منڈیریں جنہوں نے آپ کو پالا بڑا کیا، کمانے کے اہل کیا، وہ آپ کے ساتھ ہی چلتی رہتی ہیں۔ ذہن کے کسی گوشے میں بہت سکون سے اپنی جگہ بنالیتی ہیں۔ جب اجنبی زمینیں آپ کو اپنا نہیں بناتیں تو یہ یادیں آپ کی تقویت بنتی ہیں۔ کسی کو سواد رومۃ الکبریٰ میں دلی یاد آتی ہے۔ کسی کو ٹیمز کے کنارے سیالکوٹ کی یادیں گھیر لیتی ہیں۔ کسی کو بارسلونا میں گجرات کی تنگ گلیاں آغوش میں لے لیتی ہیں۔
آج کی جمعرات کی یہ تحریر میں اپنی انہی آغوشوں کے نام کرنا چاہتا ہوں۔ ہم اپنے اپنے شہروں کا قرض تو واپس نہیں کر سکتے اور یہ بے چارے کبھی قرض واپس مانگتے بھی نہیں، جو ان شہروں کے ووٹروں سے اونچے ایوانوں کیلئے منتخب ہوتے ہیں۔ وہ بڑے شہروں میں جا بستے ہیں۔ فیڈرل لاجز میں، ایم پی اے ہاسٹلوں میں راتیں سجانے لگتے ہیں۔ جن کو یہ شہر علم کے آفاق سے آباد کرتا ہے۔ فوج میں، سول سروس میں اعلیٰ عہدوں تک پہنچاتا ہے۔ وہ راجدھانیوں کے ہو کر رہ جاتے ہیں۔ اب تو وہ ریٹائرمنٹ کے بعد دیارِ غیر میں بسنے لگے ہیں۔
مگر میرے وطن کے یہ صابر و شاکر شہر کبھی کسی سے گلہ نہیں کرتے۔ نسلوں کو جنم دیتے رہتے ہیں، پیڑھیوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ یہاں قبل از تاریخ بستیاں بھی ہیں، قبل از مسیح قبیلے بھی، راجوں مہا راجوں کے دَور میں نام پانے والے، مغلوں کی بادشاہی میں وقعت حاصل کرنے والے بھی ہیں۔ انگریزوں کے منظم دور میں پل، سڑکیں، ریلوے پھاٹک پانے والے۔ وہ شہر بھی ہیں جن کی برٹش حکومت کے نہری نظام نے آبیاری کی۔ ایسی مبارک آبادیاں بھی ہیں جنہیں صوفیوں، ولیوں، پیروں، مرشدوں نے برکت سے مالا مال کیا۔ ایسے قصبے بھی ہیں جو وطن پر جاں نثار کرنے والے جانبازوں کی یاد میں بسائے گئے۔ ایسی رہائش گاہیں بھی ہیں جہاں آمریت کی مزاحمت کرنے والے پیدا ہوئے۔ جوان ہوئے پھر تختہ دار ان کا مقدر ٹھہرا۔ ایسے میدان، ایسے کھیت، جہاں صرف اپنے لیے نہیں بلکہ ملک بھر کیلئے اناج پیدا ہوتا ہے۔ جہاں صدیوں سے رہتے کسان خاندان کہیں اور جانے کا سوچتے بھی نہیں۔ وہ بڑے خلوص سے اپنے ہم وطنوں کیلئے سبزیاں پھل غلہ پیدا کرتے رہتے ہیں۔ آڑھتیوں کے فریب سہتے ہیں۔ جاگیرداروں کا قہر برداشت کرتے ہیں۔ یہ پتھر کے دَور سے اب مصنوعی ذہانت تک پہنچ چکے ہیں۔
آپ آج کل کے حکمرانوں کی بے حسی، نا اہلی، نا قدری سے تنگ ہیں۔ بیرونی سازشوں کا رونا روتے ہیں۔ حکمرانوں کی سرکاری خزانے کی لوٹ مار پر زبانی واویلا کرتے ہیں جبکہ واہگہ سے گوادر تک کی سر زمینیں زبان حال سے کہہ رہی ہوتی ہیں۔
اے شمع تجھ پہ رات یہ بھاری ہے جس طرح
ہم نے تمام عمر گزاری ہے اس طرح
آپ نے تو غیر ملکی گھوڑوں کی ٹاپوں کی دل چیرتی آوازیں نہیں سنی ہوں گی۔ ٹینکوں کی گڑگڑاہٹ نے آپ کی سماعتوں کو خوف زدہ نہیں کیا ہو گا۔ آگے بڑھتے دندناتے لشکروں کی بے رحمی ملاحظہ نہیں کی ہو گی۔ پسپا ہوتی بستیاں تاراج کرتی فوجیں نہیں دیکھی ہوں گی۔ مگر آپ کو جنم دینے والی کالونیوں نے یہ سب کچھ سہا ہے۔ کبھی تنہائی میں غور کیجئے گا کہ پاکستان کو دل سے تسلیم نہ کرنے والے ہمسائے کی مسلسل سازشوں، اپنے بد نیت حکمران طبقوں، غلام بیورو کریٹوں کی بد نظمیوں کے باوجود یہ ملک اگر دیوالیہ نہیں ہوا، اب بھی آپ کی بھوک مٹا رہا ہے، اب بھی آپ کو تحفظ دے رہا ہے تو اس لیے کہ ہمارے یہ شہر بہت سخت جان ہیں۔ ہمارے پرکھوں نے ہمارے ہنر مندوں، ترکھانوں، پارچہ بانوں، کمبل بنانے والوں، نانبائیوں، محنت کشوں، مستریوں نے ان شہروں کی بنیادیں بہت مضبوط رکھی ہیں۔ ان کی نیتیں بہت صاف تھیں۔ یہاں کس نے یلغار نہیں کی۔ اب 77سال سے اپنوں کے حملے برداشت کر رہے ہیں۔
کسی وقت سوچیں کہ اگر یہاں 77سال سے با اختیار بلدیاتی ادارے ہوتے۔ غریب امیر مل جل کر ان شہروں کو وہ سب سہولتیں دیتے جو ان کا حق تھا اور جو مراعات حاصل کرکے وہ شہر اب ہمارے نوجوانوں کی تمنا بن رہے ہیں تو ہمارے گجرات، گوجرانوالہ، کمالیہ، ملتان، گھوٹکی، میرپور خاص، لاڑکانہ، قلات، مستونگ، مردان، کوہاٹ، گلگت، مظفر آباد، میرپور بھی بارسلونا، لاس اینجلس، ہیوسٹن، سڈنی، پرتھ، کیپ ٹائون جیسے مہربان شہر نہ بن گئے ہوتے۔بلدیاتی حکومتوں پر صوبائی حکومتوں کے جبر، صوبائی خود مختاری پر مرکز کے قہر، وفاق پر غیر منتخب قوتوں کے دبائو کے باوجود یہ شہر اپنے طور پر پھیل رہے ہیں۔ اپنی اولادوں کو روزگار فراہم کررہے ہیں۔ ہر شہر میں مافیا ہیں، با اثر مذہبی گروہوں، سیاسی گروہوں، مقتدر طاقتوں کے گٹھ جوڑ ہیں۔ شہری منصوبہ بندی، آبادی کا پھیلائو کسی مرکزی پلاننگ کے تحت نہیں ہے۔ ان شہروں میں کئی ایسے پرانے خاندان ہیں جو اِن شہروں کی اقدار، میراث، روایات، تہذیب، تمدن کو برقرار رکھنے کیلئے کوشاں رہتے ہیں، انکے فلاحی ادارے بھی ہیں۔ غریب شہریوں کا مفت علاج بھی کرواتے ہیں۔ اب بھی ایسے نوجوان ہیں جو نئی اور پرانی نسلوں کے درمیان ایک رابطہ بنے ہوئے ہیں۔ بہت سے ایسے ریٹائرڈ اعلیٰ سول افسر ، فوجی افسر ہیں، جج ہیں جو ملک چھوڑ کر نہیں گئے، اپنے آبائی شہروں میں مقیم ہیں۔ اپنے شہر کے آگے بڑھنے پر خوش ہوتے ہیں۔ پیش رفت میں باقاعدہ حصہ لیتے ہیں۔ شہر پیچھے رہ جانے پر کڑھتے ہیں۔ مزاحمت کرتے ہیں۔ ایسے گھرانے ہیں جنکے بزرگوں نے تحریک پاکستان میں حصّہ لیا۔ آمریتوں کی مزاحمت، تحریک بحالیٔ جمہوریت میں آگے آگے رہے۔
آئیے ان سارے شہروں کو اپنا عقیدت بھرا سلام پیش کریں۔ یہ صابر شاکر سخت جان شہر بھی ہمارے قلعے ہیں۔ یہ ہمارے اصل محافظ ہیں۔ ہم انہیں اگر اچھے بلدیاتی ادارے دے دیں۔ ریاست اپنی تعلیم، تحفظ، روزگار کی فراہمی کی ذمہ داری پوری کر دے۔ تو یہ شہر اور ان کے شہری پاکستان کو ایک مثالی ملک بنا سکتے ہیں۔ یہ شہر ہمارے دست و بازو ہیں۔ ان کی گلیاں ہمیں پالتی ہیں۔ نکڑیں جینا سکھاتی ہیں۔ چورنگیاں ہماری مائیں ہیں۔ دہلیزیں ہماری بہنیں اور چوکھٹیں ہماری بیٹیاں ہیں۔