آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980 کی دہائی میں اچانک ترقی شروع کی‘ دنیا میں ترقی کا آغاز بجلی اورسڑکوں سے ہوتا ہے‘ بیجنگ میں بھی 1980 کی دہائی میں کوئلے کے بے تحاشا پاور پلانٹس لگے‘ بجلی کی پیداوار میں اضافہ ہوا تو انڈسٹری بڑھ گئی‘ شہر کے چاروں طرف فیکٹریاں اور کارخانے لگ گئے‘ لوگوں کی آمدن میں اضافہ ہوا اور اس سے تعمیرات شروع ہو گئیں اور تعمیرات سے گرین ایریاز کم ہو گئے‘ اس دوران گاڑیوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو گیا‘ چین میں بے تحاشا سردی پڑتی ہے۔
پرانے زمانے میں لوگ لکڑیاں اور خشک جھاڑیاں جلا کر گزارہ کر لیتے تھے لیکن صنعت کاری اور آمدن میں اضافے کی وجہ سے لوگوں نے کوئلے پر چلنے والے ہیٹنگ سسٹم لگالیے اور ان تمام غلطیوں نے مل کر بیجنگ کی فضا گندی کر دی اور لوگوں میں سانس کی بیماریاں بڑھنے لگیں‘ 1998میں لوگوں نے پہلی بار اسموگ محسوس کی لیکن یہ دو تین دن بعد ختم ہو گئی‘ لوگ اسے بھول گئے لیکن پھر ہر سال اس کا دورانیہ بڑھتا رہا یہاں تک کہ 2013 کی سردیوں میں بیجنگ میں لندن جیسی صورت حال پیدا ہو گئی‘ فضا میں خطرناک کیمیائی ذرے 35 فیصد ہو گئے اور ہاتھ کو ہاتھ سجائی نہیں دے رہا تھا۔
حکومت ایکشن پر مجبور ہوگئی‘ اس نے پالیسی بنائی اور کام شروع کر دیا‘ فیکٹریوں‘ گھروں اور ریستورانوں میں کوئلے کے استعمال پر پابندی لگا دی گئی‘ کوئلے کے پاور پلانٹس بھی بند کر دیے گئے‘ کوئلے کے ہیٹنگ سسٹم بھی شٹ ڈاؤن کر دیے گئے‘ ڈیزل ٹرک اور پرانی گاڑیوں پر بھی پابندی لگ گئی‘ زرعی علاقے اور جنگلات سیکور کر دیے گئے‘ شہر کا پھیلاؤ روک دیا گیا‘ حکومت نے فضائی آلودگی کے خاتمے کا بجٹ بھی 430 ملین ڈالر سے 2.6 بلین ڈالر کر دیا‘ جی ہاں حکومت صرف بیجنگ کی فضا صاف کرنے کے لیے سالانہ 2.6 بلین ڈالر خرچ کرتی ہے۔
درختوں کی کٹائی‘ پارکس میں تعمیرات اور زرعی علاقوں کی حدود میں تبدیلی پر پابندی لگا دی گئی‘ حکومت نے پورے شہر میں وسیع پیمانے پر درخت‘ پودے‘ بیلیں اور پھول بھی لگوا دیے اور ان کے ساتھ ساتھ فضائی آلودگی اور ہوا کی صفائی کے لیے بڑے بڑے ٹاورز بھی نصب کر دیے لہٰذا بیجنگ کی فضا چار سال بعد صاف ہو گئی اور یہ ریکارڈ تھا‘ چین نے ریکارڈ مدت میں دارالحکومت کی فضا صاف کر کے دنیا کو پیغام دے دیا اگر انسان کچھ کرنا چاہے تو یہ چار برسوں میں پورے شہر کی فضا صاف کر سکتا ہے۔
ہم اب اسموگ کی وجوہات کی طرف آتے ہیں‘ اب تک کی ریسرچ کے مطابق اس کی چھ وجوہات ہیں‘ یہ چھ وجوہات جب اکٹھی ہوتی ہیں تو شہر رہنے کے قابل نہیں رہتے اور یہ وجوہات کوئلے کے پاور پلانٹس‘ گاڑیوں کی تعداد میں اضافہ‘ ہاؤسنگ اسکیمیں‘ جنگلات‘ زرعی رقبوں اور پارکس میں کمی‘ بے ہنگم آبادی اور شہروں میں انڈسٹریل یونٹس کی زیادتی ہیں‘ یہ تمام چیزیں مل کر فضا کو آلودہ کر دیتی ہیں اس کے بعد جب سردیوں میں درجہ حرارت گرتا ہے اور دھند اکٹھی ہوتی ہے تو یہ آلودگی کے ساتھ مل کر اسموگ بن جاتی ہے اور اس کے بعد یہ لوگوں کو کسی قابل نہیں چھوڑتی‘ لاہور کے ساتھ بھی دس سال سے یہی ہو رہا ہے۔
لاہور دس سال سے پورے سسٹم کو دہائی دے رہا تھا‘ یہ حکومت اور عوام کو جگانے کی کوشش کر رہا تھا لیکن ہماری 75 سالہ روایت ہے ہم اپنی ہر خرابی‘ ہر غلطی کو بھارت کے کھاتے میں ڈال کر خود کو مطمئن کر لیتے ہیں‘ ہم نے اسموگ کو بھی بھارتی ایجنٹ قرار دے دیا‘ہمیں اپنی اس بیوروکریسی پر صدقے جانا چاہیے جو دس سال سے قوم اور حکومت کو یہ بتا رہی ہے لاہور میں اسموگ بھارتی پنجاب میں گندم اور چاول کی فصلوں کی باقیات جلانے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے‘ سوشل میڈیا پر اس وقت بھارتی پنجاب کے وزیراعلیٰ بھگونت من کا ایک کلپ وائرل ہے۔
اس کلپ میں بھگونت من کہہ رہے ہیں مجھے سمجھ نہیں آتی پاکستانی پنجاب کی وزیراعلیٰ مریم نواز ہم پر الزام لگاتی ہیں پنجاب کا دھواں لاہور آ رہا ہے اور دہلی کی سرکار کہتی ہے آپ کا دھواں دہلی کو گندا کر رہا ہے‘ کیا ہمارا دھواں دائرے میں گھومتا رہتا ہے‘ بھگونت من کی بات غلط نہیں ‘ بھارتی پنجاب کے دھوئیں کو دہلی جانا چاہیے یا لاہور‘ یہ کبھی اِدھر اور کبھی اُدھر اور بعض اوقات اُدھر اور اِدھر دونوں طرف کیسے آ جاتا ہے؟ یہ دہلی کو آلودہ کرے یا پھر لاہور کو یہ بیک وقت دو مختلف سائیڈز پر جا کر مختلف سمتوں میں آباد شہروں میں اسموگ کیسے پیدا کر سکتا ہے؟ سیدھی بات ہے یہ سب ہماری اپنی غلطیاں ہیں لیکن ہم انھیں تسلیم کرنے کے بجائے بھارت پر الزام لگا کر ہمیشہ کی طرح خود کو بری الذمہ قرار دے رہے ہیں‘ ہمیں ماننا ہوگا اسموگ بھی بالکل بلوچستان کی طرح ہے‘ بلوچستان میں لوگوں کو بسوں سے اتار کر شناختی کارڈ چیک کر کے گولی مار دی جاتی ہے۔
پنجابی مزدوروں کو قتل کر دیا جاتا ہے اور فوج اور پولیس پر حملے ہوتے ہیں لیکن ہم معاملات کو ٹھیک کرنے کے بجائے اسے بھارت کے کھاتے میں ڈال کر خود کو مطمئن کرتے چلے آ رہے ہیں‘ کے پی میں بھی ہمارا یہی رویہ ہے‘ ہم ہر قسم کی دہشت گردی کو افغانستان کے رجسٹرڈ میں درج کر کے اپنے آپ کو بری الذمہ کرلیتے ہیں‘ماضی میں بھارت اور افغانستان ہمارے دو کھاتے تھے‘ ہم نے اب ان میں بانی پی ٹی آئی کو بھی شامل کر لیا ہے‘ ہم پولیس کی نالائقی سے لے کر آئی ایم ایف کی ڈیل تک ہر چیز بانی کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں‘ کیوں؟ کیوں کہ ہم خود ذمے داری نہیں لینا چاہتے۔
ظاہر ہے ہم اگر ذمے داری لیں گے تو پھر ہمیں چیزوں کو ٹھیک کرنا پڑے گا اور ہم اس کے لیے ہرگز ہرگز تیار نہیں ہیں چناں چہ ہم اپنے پیدا کیے ہوئے مسائل بھارت‘ افغانستان اور عمران خان کے کھاتے میں لکھتے ہیں اور جان چھڑا لیتے ہیں‘ اسموگ کا ایشوبھی ہمارا مسئلہ ہے‘ ہم نے ہی اسے پیدا کیا تھا اور اسے حل بھی صرف ہم ہی کر سکتے ہیں اور حل بھی اب کوئی راکٹ سائنس نہیں‘ سوئٹزر لینڈ‘ لندن اور بیجنگ اسموگ کا مسئلہ مستقل بنیادوں پر حل کر چکے ہیں‘ دنیا کاصاف ترین ملک اسٹونیا ہے‘ یہ ساڑھے تیرہ لاکھ آبادی کا چھوٹا سا ملک ہے لیکن اس کی فضا سوئٹزرلینڈ سے بھی صاف ہے۔
ہمارے خطے میں بھوٹان صاف ترین ملک ہے اور اس ملک نے یہ اعزاز باقاعدہ کوشش سے حاصل کیا ہے‘ اس کے ایک وزیراعظم نے فضائی آلودگی اور گندگی کو چیلنج بنایا اور پھر تین برسوں میں بھوٹان کو دنیا کا صاف ترین ملک بنا دیا ‘ کیا یہ لوگ کسی دوسرے سیارے کی مخلوق ہیں یا یہ کسی خاص لیبارٹری سے بن کر آئے تھے‘ یہ بھی ہمارے جیسے انسان ہیں بس انھوں نے اپنی ذمے داری کو سمجھا پھر اسے قبول کر لیا اور یوں تاریخ بدل گئی‘ ہم بھی تاریخ بدل سکتے ہیں‘ ہم نے بس پانچ کام کرنے ہیں اور یہ پانچ کام مذہبی سنجیدگی کے ساتھ ہونے چاہئیں‘ زندگی گرین ایریاز کے بغیر ممکن نہیں لہٰذا حکومت درخت اور زرعی علاقوں کو سیکور کرے‘ اندھا دھند ہاؤسنگ اسکیموں پر پابندی لگائے۔
ان کے لیے باقاعدہ سالڈا سکیم بنائے‘ تعمیرات حکومت کے کنٹرول میں ہونی چاہئیں‘ حکومت کی اجازت کے بغیر کوئی شخص اپنے گھر میں دو اینٹیں بھی نہ لگا سکے‘ درخت کاٹنے کی سزا اور جرمانہ سخت ہونا چاہیے‘ پورے ملک میں محکمہ جنگلات موجود ہے‘ آخر اس کا کام کیا ہے؟ ہم نے نہایت سنگ دلی سے پہاڑ کے پہاڑ ننگے کر دیے ہیں‘ آپ سردیوں میں شمالی علاقوں‘ مری اور گلیات جا کر دیکھیں لوگ دھڑا دھڑ جنگل کاٹتے ہیں اور مارچ سے پہلے ساری لکڑی غائب کر دیتے ہیں‘ مری اس کی بدترین مثال ہے‘ میں دس سال سے مری کا شہری بھی ہوں‘ میں روز اس کو برباد ہوتا ہوا دیکھتا ہوں‘ ٹمبر مافیا نے پورا علاقہ برباد کر دیا ہے‘ خدا کے لیے یہ روکیں‘ دوسرا ہم شجرکاری کے نام پر دہائیوں سے خود کو بے وقوف بنا رہے ہیں‘ ملک میں ’’بلین ٹری پروجیکٹ‘‘ تک پر کھربوں روپے لگا دیے گئے لیکن حکومت ایک ملین درخت بھی دکھا نہیں سکتی۔
شجرکاری اگر ہوتی ہے تو حکومت کو اسے ہر صورت قطعی بنانا ہو گا‘ فرانس میں زرعی زمینوں کے درمیان درختوں کا ذخیرہ ضروری ہے‘ ہم بھی ہر بارہ ایکڑ کے درمیان ایک ایکڑ کا جنگل لازم قرار دے سکتے ہیں‘ یہ ذخیرہ اگر کھیت کے درمیان ہو گا تو فصلیں بھی خراب نہیں ہوں گی اور فضا بھی صاف رہے گی‘ شہروں میں پارکس کو فوراً آباد اور مکمل کیا جائے‘ پارک اول تو ہیں نہیں اور اگر ہیں تو یہ کچرا کنڈی بن چکے ہیں‘ حکومت فوری طور پر تمام پارکس مکمل کرائے اور ان کی حدود کو بھی فکس کر دے تاکہ مستقبل میں کوئی انھیں چھیڑ نہ سکے‘ زرعی رقبوں (گرین ایریاز) کو بھی آئین بنا دیا جائے‘ کوئی ان میں گھر بناسکے اور نہ ہاؤسنگ اسکیمیں‘ نیوزی لینڈ نے دو سو سال پہلے زرعی علاقے طے کیے تھے‘ آج تک ان سے ایک انچ زمین کم نہیں ہوئی جب کہ لاہور کے سارے زرعی رقبے ہاؤسنگ اسکیموں کی نذر ہو چکے ہیں۔
آپ جی ٹی روڈ کو دیکھ لیں‘ لاہور سے راولپنڈی تک سڑک کی دو سائیڈز کنکریٹ ہو چکی ہیں جب کہ یہاں بیس سال پہلے تک کھیت ہوتے تھے‘ حکومت دس سال پرانی گاڑیوں پر پابندی لگا دے اور گاڑیوں کی فٹ نس بھی لازم ہو اگر کسی گاڑی کے پاس فٹ نس سر ٹیفکیٹ نہ ہو تو اسے ضبط کر لیا جائے اور مالک کو بھاری جرمانہ کیا جائے‘ حکومت نئی فٹ نس پولیس بھی بنا سکتی ہے جس کا کام گاڑیاں چیک کرنا ہو اور اس کے ساتھ ساتھ انڈسٹری کے ایس او پیز پر بھی عمل کرایا جائے۔
صنعتیں انڈسٹریل زون میں بھی شفٹ کرائی جائیں اور ان کے ویسٹ کو بھی گرین کیا جائے‘ہماری حالت یہ ہے ہم آج تک کرشنگ یونٹس اور سیمنٹ فیکٹریوں کو بھی کنٹرول نہیں کر سکے باقی انڈسٹری کا تو اللہ ہی حافظ ہے اور آخری درخواست مہربانی کر کے مریم اور نگ زیب کو کام کرنے دیں‘ وزیراعلیٰ انھیں اپنا بیگ اٹھانے کے لیے جنیوا نہ لے کر جایا کریں اور اگر یہ لازم ہے تو پھر انھیں مستقل طور پر اپنے ساتھ رکھ لیں اور یہ وزارت کسی ایسے شخص کے حوالے کریں جس کا کام‘ کام کرنا ہو واہ واہ کرنا نہ ہو ورنہ اگلے سال لاہور سے نقل مکانی شروع ہو جائے گی۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس