کتاب:نوائے قرآن، (منظوم اُردو مفاہیم القرآن الحکیم)مصنف :  پروفیسر عبدالحق  مرادؔ… تبصرہ: لیاقت بلوچ (نائب امیر جماعتِ اسلامی پاکستان)


جماعتِ اسلامی آزاد جموں و کشمیر کے سابق امیر، سابق ممبر قانون ساز اسمبلی اور تحریکِ آزادی کشمیر کا  بہت ہی معتبر نام اور رہنما عبدالرشید ترابی  صاحب نے جماعتِ اسلامی ضلع باغ کے زیرِاہتمام مختلف پروگرامات میں شرکت کے لیے دعوت دی۔ دِن بھر بہت اچھے پروگرامات ،  مصروفیات رہیں  ۔  اِس دوران سینئر رہنماؤں اور دیرینہ ساتھیوں  سے بھی ملاقات ہوئی۔  “سیرت کانفرنس” اور حفاظ کرام کی تکمیلِ حفظِ قرآن کی تقریب میں ایک مدت بعد جناب پروفیسر عبدالحق مُرادؔ صاحب  سے ملاقات ہوئی۔ استاد، مربی اور خطیب تو وہ ہیں ہی لیکن اُس روز اِس حوالہ سے بہت خوشی ہوئی کہ انہوں نے خوبصورت خطاب کیا اور “نوائے قرآن “، قرآن کریم کے  منظوم ترجمہ کا نسخہ تحفتاً دیا۔

تازہ اور ماضی کی یادوں کے حوالوں سے پروفیسر عبدالحق مُرادؔ   دینی علمی ،   ادبی  اور تحریکی  حلقوں میں ایک باوقار  ، قابلِ احترام معلم، مربی  اور قابلِ تقلید شخصیت  کی حیثیت   سے جانے پہچانے جاتے ہیں۔  آپ کا تعلق علمی گھرانے سے  ہے، عمر کا ایک بڑا حصہ درس و تدریس اور علوم و معارف کے حصول میں صرف کیا  ہے۔ وطنِ عزیز کے نامی گرامی اساتذہ کرام اور طلبہ و طالبات آپ کے چشمہ علمی سے فیضیاب ہوتے رہے۔ اگرچہ آپ بنیادی طور پر انگریزی زبان  کے استاد ہیں  لیکن   آپ نے علوم و معارفِ اسلامیہ  میں بھی خصوصی درک اور رُسوخ پیدا کرکے تشنگانِ علومِ دینیہ کے لیے ایک نئی راہ متعین کردی ہے۔  آپ کی سوچ و فکر پر قرآنِ حکیم سے خصوصی لگاؤ  اور فکر کا رنگ غالب ہے۔ قرآنِ حکیم کو سوچنا، اِس کو سمجھنا اور منظوم کرنا آپ  کی سعی مسلسل اور مقصدِ حیات بنا رہا،  حتٰی کہ  اللہ رب العزت نے  آپ کو اس مقصد میں کامیابی و کامرانی سے ہمکنار کرتے ہوئے کلامِ الٰہی کا  عام فہم اور سہل انداز میں اُردو منظوم ترجمہ پیش کرنے کی سعادت بخشی اور تقریباً 23 سال کی شبینہ روز محنت اور عرق ریزی کے نتیجے میں  “نوائے قرآن” کے نام سے 700 صفحات پر مشتمل قرآن حکیم کا  منظوم ترجمہ  دلکش  اور خوبصورت طباعت کیساتھ   قرآنی ادبیات میں ایک منفرد  اور شاندار اضافے کی صورت میں    منصہ شہود پر آچکا۔ اگرچہ اس سے قبل بھی قرآن حکیم کے منظوم تراجم سامنے آچکے ہیں لیکن زیرِنظر منظوم ترجمہ قرآن اپنی مثال آپ ہے۔      اس شاندار کاوش پر پروفیسر عبدالحق مُرادؔ صاحب بجا طور پر مبارکباد اور تحسین کے مستحق ہیں۔

قرآنِ مجید اللہ تعالیٰ کی وہ آخری اور مکمل کتابِ ہدایت  ہے جسے  ماہِ رمضان کی ایک بابرکت رات لیلۃ القدر میں اللہ تعالیٰ نے لوحِ محفوظ سے آسمانِ دنیا پر  اپنے آخری نبی، خاتم الانبیاء والمرسلین  حضرت محمد مصطفٰی ﷺ کے ذریعے  نازل فرمایا اور اس کے بعد حسبِ ضرورت  وقفے وقفے کیساتھ حضور اکرم ﷺ پر نازل ہوتا رہا اور تقریباً 23  سال کے عرصہ میں قرآن کریم مکمل نازل ہوا۔  

قرآنِ مجید سے بہتر کوئی کلام ہو ہی نہیں سکتا، کہ یہ قیامت تک آنے والے انسانوں بلکہ  جنات کے لیے  بھی سرچشمہ ہدایت اور نمونہ حیات ہے۔ قرآنِ حکیم خالقِ کائنات کا بنی نوع انسان کے لیے وہ شاندار تحفہ اور مکمل ضابطہ حیات ہے جس کے فضائل و مناقب کا مکمل  احاطہ کسی بشر کے بس کی بات نہیں۔ سورۂ لقمان، آیت نمبر 27  میں ارشادِ باری تعالیٰ  ہے، ترجمہ: ’’اگر دنیا کے تمام درختوں کو کاٹ کر ان کی قلمیں بنالی جائیں اور تمام سمندر سیاہی میں تبدیل ہوجائیں اور پھر ان سے اللہ تعالیٰ کی توصیف و تمجید لکھی جائے تب بھی اس (اللہ)  کی اور اس کے کلام کی تعریف و تمجید کا حق ادا نہ ہوگا۔”     

 اِسی آیتِ  مبارکہ  کا زیرِ نظر نسخہ میں کیا گیا             منظوم ترجمہ  ملاحظہ ہو:   

1؎       ہوں قلمیں اگر سب زمیں کے شجر             سمندر ہو اُن کی سیاہی (اُدھر)

2؎       سمندر ملیں اُس میں سات اور بھی              تو باتیں نہ ہوں ختم  اللہ کی                        (لقمان 31: 27)

چودہ صدیاں  گزرنے کے بعد بھی قرآن پاک کی عظمت اور  شان و شوکت پر لکھنے کا سلسلہ جاری و ساری ہے  اور تاقیامت جاری رہے گا۔ کیونکہ  یہ  کسی انسان کی تخلیق کردہ کتاب نہیں بلکہ خالقِ کائنات کی طرف سے نازل کردہ کلامِ الٰہی  ہے، جس کی ہر ہر آیت اور  حکم کا    جس قدر توجہ، دل چسپی، اشتیاق و رغبت کے ساتھ مطالعہ کیا جائے اسی قدر نیابت و رحمت کے دروازے کھلتے چلے جاتے  ہیں۔ ہر دور اور ہر زمانے  میں قرآنِ مجید پر تحقیق اور تفہیم کی جتنی بھی کوششیں ہوئیں، اور اس کے نتیجے میں اسرار و رموز کے  جتنے بھی دروازے وا ہوئے، تشنگی   اُسی طرح  برقرار رہی اور آج بھی  ہے ۔ قرآن کریم  دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی واحد کتابِ  الٰہی ہے، جس کی تلاوت سمجھے بغیر بھی  ہر وقت اور ہر لمحے جاری رہتی ہے۔ یہ  معجزہ  قرآن کا بیّن ثبوت ہے۔

اللہ تعالیٰ کی اس آخری اور مکمل   آسمانی کتاب قرآنِ پاک کی تاکید و تلقین کا  تقاضا یہی  ہے کہ ہم ہرقسم کے تفرقات سے بالاتر ہوکر صحیح معنوں میں اس کو سمجھیں اور اِس کی تعلیمات کو  اپنی زندگی کے ہرشعبے میں نافذ کریں۔ ہماری عبادات، قربانی،  موت و حیات  سب اِسی کلامِ الٰہی  کے احکام کے تابع  ہوں اور  ہم سر تا پا اس پاک کلام کے سائے میں   ایک سچے مومن مسلمان کی حیثیت سے زندگی گزار کر اِس دارِ فانی سے رخصت ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے ہماری اِس مختصر دنیاوی زندگی کے  لیے    قرآنِ مجید  میں جو احکامات و تعلیمات  نازل فرمائی  ہیں اُن کا مقصد بھی  یہی ہے  کہ ہم حقوق اللہ کیساتھ ساتھ  حقوق العباد کا بطور  خاص خیال رکھتے ہوئے زندگی گزاریں۔   ارشادِ باری تعالیٰ ہے:  اے ایمان لانے والو، تم پورے کے پورے اسلام میں آجاؤ  اور شیطان کی پیروی نہ کرو کہ وہ تمھارا کھلا دشمن ہے۔  ”  (البقرۃ2: 208 )۔  زیرِنظر نسخہ  میں اِس  آیتِ مبارکہ کا منظوم ترجمہ حسبِ ذیل  ہے:

؎         اے مومنو! پوری طرح اسلام میں آجاؤ تم                شیطان کھلا دُشمن تمہارا،  اُس کو مت اپناؤ تم          (البقرۃ 2: 208)

 تاریخِ انسانی  شاہد ہے  کہ جب تک ہمارے اسلاف  نے  قرآن سے اپنا رشتہ مضبوطی کیساتھ جوڑے رکھا، اس کی تعلیمات پر سختی سے کاربند رہے، دنیا میں سربلند ،  کامیاب اور  فاتحِ ارض رہے۔ پھر جب ہم نے قرآن سے ناطہ  توڑ لیا تو ہم آہستہ آہستہ بحیثیت قوم ذلیل و خوار ہوتے چلے گئے۔ یہ صورت حال آج بھی جاری  ہے۔ شاعرِ مشرق علامہ ڈاکٹر محمد  اقبالؒ      نے اس کی نقشہ گری بایں الفاظ کی ہے:

؎ وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہوکر

اور ہم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہوکر

قرآنِ پاک ہمیں اجتماعی عبادات نماز، روزہ، حج کے علاوہ ادائیگی  زکوٰۃ  ،  ضرورت سے زائد آمدن کو راہِ خدا میں خرچ کرنے کا بھی  حکم دیتا ہے۔  اسلام بُرائیوں اور گناہوں سے روکتا اور نیکی و تقویٰ کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔قرآنِ پاک کے نزدیک نیکی ،  تقویٰ اور کامیابی   کا معیار یہ ہے کہ لوگ   اللہ تعالیٰ پر، فرشتوں پر، کتابِ الٰہی پر ایمان لائیں اور مالِ عزیز رکھنے کے باوجود رشتہ داروں، یتامیٰ، محتاجوں، مسافروں اور تنگ دستوں میں، گردنوں کے چھڑانے میں خرچ کریں۔ نماز پڑھیں، زکوٰۃ دیں  اور جو  عہد کریں  اسے پورا کریں۔ سختی اور تکلیف میں اور جنگ کے وقت ثابت قدم رہیں۔ قرآن مجید نے انہی   صفات کے حامل لوگوں کو سچے ایماندار، اور اللہ  تعالیٰ سے ڈرنے والے قرار دیا ہے۔ ( سورۃ البقرۃ، آیت نمبر  177)

اللہ تعالیٰ نے ہمیں قرآن کریم میں تدبر و تفکُّر کرنے کا بھی حکم دیا ہے، اور یہ  تدبُّر و تفکُّر مفسرِ اول حضرت محمد ﷺ  کے اقوال وافعال کی روشنی میں ہو۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’دلیلوں اور کتابوں کیساتھ (اے محمد ﷺ)  یہ کتاب ہم نے  آپ کی طرف اُتاری ہے، تاکہ آپ اسے لوگوں کے سامنے  کھول کھول کر بیان کردیں، شاید کہ وہ غوروفکر کریں۔‘‘ (النحل 16: 44) ۔   ’’ یہ کتاب ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم)  پر اس لیے اُتاری ہے، تاکہ آپ ان کے لیے ہر اس چیز کو واضح کردیں جس میں وہ اختلاف کررہے ہیں۔‘‘ (النحل16: 64) ۔

زیرِنظر نسخہ میں  اِن آیاتِ مبارکہ کا منظوم ترجمہ  حسبِ ذیل ہے:

                 1؎       دلائل و بُرہان اِن سب کو دے کر                کِیا ہم نے نازل یہ قرآن تم پر

                 2؎       کہ بتلاؤ لوگوں کو اُترا  جو اُن پر               کہ شاید کریں غور وہ اِس کے اندر                         (النحل 16: 44)

                 1؎       اُتاری کتاب اِس لیے تم پہ ہم نے                کہ ظاہر کرو جس پہ ہیں وہ جھگڑتے                     (النحل 16: 64)

اللہ تعالیٰ نے بنی نوع  انسان کی رہنمائی   کے لیے قرآن و سنت  کی صورت میں  ایک مکمل نظامِ حیات پیش کرتے ہوئے  معاملات میں اعتدال اور میانہ روی اختیار کرنے کی تلقین فرمائی  ہے۔ اسلام  نے  ہر  دو شعبہ ہائے  زندگی، ، خواہ وہ روحانی ہو یا  دنیوی،   کے لیے زریں  اور راہنما اصول پیش کیے ہیں ۔ قرآنِ پاک کی تلقین حلال کمائی، پاکیزہ غذا، حرام سے اجتناب، سادگی، طہارت و صفائی، لہوولعب کی زندگی سے پرہیز اور تقویٰ و پرہیزگاری ہے، اور یہ کہ راست بازی اختیار کی جائے۔ عورتوں سے بدسلوکی و بے انصافی نہ کی جائے۔ بیٹوں کو بیٹیوں پر ترجیح دے کر ان کی حق تلفی نہ کی جائے۔ غلاموں، ملازموں سے اپنوں  جیسا سلوک روا رکھا جائے۔ ذات  پات، نسل، خاندان، قبیلے پر فخر نہ کیا جائے۔ دولت کو چند ہاتھوں میں مرتکز  نہ رہنے دیا جائے کہ یہ ملکی اقتصادیات کے لیے تباہ کن ہے۔ چوری، ڈاکے، شراب نوشی، قماربازی، سودخوری، قتلِ ناحق، کمزوروں پر ظلم، فریب دہی و بددیانتی سے پرہیز  اور لوگوں کے حقوق ادا کیے جائیں۔

قبل از اسلام عرب بلکہ پوری دنیا کی تاریخ میں عورتوں کو وہ مقام نہیں دیا گیا جو اسلام نے دیا۔ قرآن کے ذریعے عورتوں کو  حقوقِ وراثت اور سماجی مرتبہ عطا کیا گیا، انہیں  سماجی حیثیت سے مردوں کے  مساوی درجہ دیتے  ہوئے ایک دوسرے کا لباس قرار دیا،  نیکی کے کاموں میں دونوں کو یکساں اجر کی بشارت دی،  بُرے کاموں پر دونوں کو وعید سنائی۔، عورتوں کو طلاق اور خلع کا حق دیا ، بیواؤں  کو عقدِثانی کی اجازت دی۔ یہ حقوق انہیں  گذشتہ تمام مذاہب میں حاصل نہیں تھے۔ قرآن مجید میں عورتوں  کا مہر کا حق تسلیم کرکے اس کی معاشی و سماجی حیثیت کو  بہتر اور آزاد بنایا گیا ہے۔غرض یہ کہ قرآنِ پاک نے اس دنیا میں جو فکری و عملی انقلاب برپا کیا ہے وہ بے مثل  و  بے نظیر  ہے۔

اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اسلامی جمہوریہ  پاکستان کی شکل میں  غلبہ اور اقتدار عطا کیا  ہے۔ ہم ایک آزاد اور خودمختار وطن کے اندر رہتے ہوئے  قرآنی احکامات اور قوانین کو نافذ کرنے ،  اقامتِ دین کے  مکلف ہیں۔ہم خواہ کسی بھی  مسلک سے تعلق رکھتے ہوں  ، ہماری رہنما  اللہ تعالیٰ کی طرف سے  خاتم الانبیاء والمرسلین      حضرت محمد مصطفیٰ  ﷺپر نازل  کردہ آخری اور مکمل  کتاب  ہدایت، یعنی قرآنِ پاک ہی ہے۔ ہمارا خدا ایک، رسولؐ ایک ،کتاب ایک ہے۔  ہم ایک ہی کعبے کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے ہیں، لہٰذا ہمیں ملت ِ واحدہ بن کر رہنا  چاہیے۔ قرآنی تعلیمات اور اصولوں پر عمل پیرا ہوکر ہی  ہم دشمنانِ اسلام، دشمنانِ قرآن کے لیے  بنیانِ مرصوص اور  پھر سے دنیا میں  غالب اور سربلند قوم بن سکتے ہیں۔

قرآن مجید کے بےتحاشا فضائل  احادیثِ مبارکہ میں مذکور ہیں۔  آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’قرآن کا ماہر جس کو خوب یاد ہو، خوب پڑھتا ہو، اُس کا حشر قیامت کے دن فرشتوں کے ساتھ ہوگا۔‘‘ (بخاری )   ایک اور جگہ  ارشاد فرمایا:’’ قیامت کے دن صاحبِ قرآن سے کہا جائے گا کہ قرآن پڑھتا جا اور جنت کے درجوں پر چڑھتا جا اور ٹھہر ٹھہر کر پڑھ، جیسا کہ تو دنیا میں ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کرتا تھا، پس تیرا مرتبہ وہی ہے جہاں آخری آیت پر پہنچے۔‘‘ (مسلم) رسول اللہ ﷺ نے  یہ بھی   ارشاد فرمایا : ’’جو شخص قرآن پڑھے اور اس پر عمل کرے اس کے والدین کو قیامت کے دن ایک تاج پہنایا جائے گا، جس کی روشنی سورج کی روشنی سے بھی زیادہ ہوگی۔ اگر وہ آفتاب تمہارے گھروں میں ہو تو کیاگمان ہے تمہارا اُس شخص کے بارے میں جو خود اس پر عمل پیرا ہو؟‘‘ (ابوداود)

بحیثیت مسلمان ہمارا یہ ایمان اور عقیدہ  ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے اپنے اقوال وافعال کے ذریعہ قرآن کریم کے احکام ومسائل تمام دنیا کے انسانوں  تک پہنچانے کی ذمہ داری بحسن وخوبی انجام دی۔  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحابۂ کرامؓ، تابعینؒ اور تبع تابعینؒ اور صالحین بھی مختلف ادوار میں  اس  ذمہ داری کو کماحقہ ادا کرتے رہے،  اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ اس مقدس ، آخری اور مکمل کتابِ الٰہی کی تعلیمات پر  حضور پاک ﷺ کے اسوہ حسنہ کی روشنی میں  خود بھی عمل پیرا ہوں اور دوسروں تک بھی اِسے  پہنچانے کی اپنی ذمہ داری پوری کریں ۔

پروفیسر عبدالحق مُرادؔ  صاحب نے “نوائے قرآن” ( منظوم اُردو مفاہیم القرآن  الحکیم) جیسی بیش قدر کاوش کی  صورت میں اپنا یہ  حق ادا کردیا ہے۔ اب یہ اہلِ ایمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس سے بھرپور انداز میں استفادہ کرتے ہوئے اپنی دُنیاوی اور اُخروی زندگیوں کو سنوارنے کا سامان کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن و حدیث کی  تعلیمات  کی روشنی میں اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے جدوجہد کرتے رہنے کی توفیق دیے رکھے اور محترم پروفیسر عبدالحق مُرادؔ  صاحب کی اس  منفرد و بیش قدر   کاوش   کو اپنی بارگاہ  میں بدرجہ اولیٰ شرفِ قبولیت عطا  فرمائے، آمین!