میرے محافظ، تیری قربانی انمول ہے…تحریر: محمد محسن اقبال


اسلام آباد کے خوبصورت مارگلہ ہلز قدرتی مناظر کے شوقین، فٹنس کے دلدادہ اور خاندانوں کے لیے ایک پرکشش مقام ہیں۔ ہر صبح اور شام، ان سرسبز پہاڑیوں کے قریب موجود راستے لوگوں کی سرگرمیوں سے بھر جاتے ہیں، جہاں بچے، جوان اور بوڑھے جاگنگ، واک اور ہائکنگ کا لطف اٹھاتے ہیں۔ مارگلہ روڈ کے دونوں جانب کھڑی گاڑیوں کا منظر ایک ایسی کمیونٹی کی عکاسی کرتا ہے جو سکون اور فطرت کی خوبصورتی کی جانب مائل ہے۔ لیکن جیسے ہی سورج افق کے پار غروب ہوتا ہے اور اندھیرا جنگلات کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے، ایک عجیب سی بیچینی دل میں جاگ اٹھتی ہے۔ چاہے کوئی پہلوان ہو یا خود کو ہرکولیس سمجھنے والا بہادر شخص، وہ بھی سردیوں کی راتوں میں اکیلے ان راستوں پر جانے سے کتراتا ہے۔ ایک انجانا سا خوف دل میں بس جاتا ہے کہ جنگل میں کچھ انجان خطرہ پیش آسکتا ہے۔لیکن یہ خوف ان خطرات کے سامنے کچھ بھی نہیں جو ہمارے محافظ سرحدوں اور شورش زدہ علاقوں میں برداشت کرتے ہیں۔ یہ افراد، جو وطن کی حفاظت کا حلف اٹھاتے ہیں، ہر لمحہ خطرے میں رہتے ہیں۔ جرات کا تصور جس شدت سے ہم تخیل میں سوچتے ہیں، وہ ان محافظوں کی عملی زندگی میں ظاہر ہوتا ہے جو اندرونی اور بیرونی دشمنوں کے خلاف مضبوطی سے ڈٹے رہتے ہیں۔جنگ کے دوران ایک سپاہی دشمن کا مقابلہ کرتے ہوئے زندہ رہنے کی امید رکھتا ہے، اپنی حکمت عملی، ساتھیوں اور تربیت پر بھروسہ کرتے ہوئے۔ کم از کم ایک ہلکی سی امید ہوتی ہے کہ وہ گھر واپس آسکتا ہے، خواہ فاتح ہو یا زخمی، لیکن زندہ۔ تاہم، خودکش بمبار کے سامنے محافظ کے لیے ایسی کوئی امید باقی نہیں رہتی۔ جب محافظ اس بے چہرہ، بے رحم خطرے کا سامنا کرتا ہے تو صرف دھماکے کی آواز اور شہادت کی حقیقت باقی رہ جاتی ہے۔ یہ حملے انسانی ارادے کو جڑ سے ہلا دیتے ہیں، اور ڈیوٹی کے دوران قربانی کے سوا کوئی راستہ نہیں رہتا۔ان قربانیوں کی شدت کو وہ لوگ اکثر بھول جاتے ہیں جو سکیورٹی کے تحفظ میں زندگی گزارتے ہیں۔ ان شہداء میں بے شمار نوجوان شامل ہیں، جن کی عمر عموماً 25 سے 35 سال کے درمیان ہوتی ہے۔ یہ وہ لوگ تھے جن کے خواب اور تمنائیں تھیں—ایک خاندان کا خواب، ایک گھر کا، یا ایک کامیاب کیریئر کا۔ ان کے پاس زندہ رہنے کی ہر وجہ تھی، لیکن انہوں نے اپنی زندگی ایک اعلیٰ مقصد کے لیے وقف کردی۔ انہوں نے اس ملک اور اس کے باشندوں کے تحفظ کے لیے اپنی جان قربان کردی تاکہ باقی لوگ بے خوف ہوکر اپنے خوابوں کو پورا کرسکیں۔ہم میں سے اکثر اپنی روزمرہ کی زندگی کی راحتوں میں ان کی قربانیوں کی قدر کھو دیتے ہیں۔ لیکن ان کی خدمات کو تسلیم کرنا اور ان کی عزت کرنا نہایت ضروری ہے۔ ان کی بے لوثی ایک ایسا قرض ہے جو کبھی ادا نہیں کیا جا سکتا، لیکن اسے نظرانداز بھی نہیں کیا جانا چاہیے۔ یہ محافظ ہمارے اتحاد اور استقامت کی علامت ہیں، اور امن و سلامتی کی قیمت کے بارے میں ہمیں یاد دہانی کراتے ہیں۔ایک قوم کے طور پر ہمارا اخلاقی فرض ہے کہ ہم ان کی قربانیوں کی قدر کریں۔ ان شہداء کا احترام صرف رسمی بیانات یا عوامی تقریبات تک محدود نہیں ہونا چاہیے؛ اس کے لیے حقیقی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جو ان کے خاندانوں کی مدد کریں اور ان کی میراث کو برقرار رکھیں۔ ان کے پیاروں کی مناسب دیکھ بھال کرنا، ان کے بچوں کو تعلیمی اور کیریئر کے مواقع فراہم کرنا، اور ایک ایسی ثقافت کو فروغ دینا جو ان کی بہادری کی ستائش کرے، اس حوالے سے اہم اقدامات ہیں۔

ان نوجوان محافظوں کی کہانیاں نئی نسل کے لیے تحریک کا باعث بننی چاہئیں۔ وہ ان آزادیوں کی قدر کریں کہ وہ آزادی جس سے وہ لطف اندوز ہوتے ہیں، کیسے ممکن ہوئی۔ ان کی بہادری اس حقیقت کو واضح کرتی ہے کہ ایک محفوظ ماحول میں زندگی بسر کرنا ایک ایسا اعزاز ہے جو صرف ان کی قربانیوں کی بدولت ممکن ہوا۔ اس کے ساتھ ساتھ، یہ ضروری ہے کہ ہم شہریوں کی حیثیت سے ان اقدار کو محفوظ رکھنے کے لیے اپنے کردار پر غور کریں جن کے لیے انہوں نے اپنی جان دی۔جب ہم مارگلہ ہلز کے راستوں پر چلتے ہیں اور وہاں کی سکونت سے لطف اندوز ہوتے ہیں، تو ہمیں ان دیکھے قربانیوں کو تسلیم کرنے کے لیے ایک لمحہ ضرور نکالنا چاہیے جو اس سکون کو ممکن بناتی ہیں۔ دلکش مناظر اور پرسکون ماحول کے پیچھے ایک تلخ حقیقت چھپی ہوئی ہے—ان لوگوں کی مستقل چوکسی جو خطرات کو ہم سے دور رکھتے ہیں۔ ان کی جرات اور عزم اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ جنگل کا خوف صرف ہماری تخیل میں رہے، اور  ندگی اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ پروان چڑھ سکے۔ہمارے وطن کے محافظ امن کے پہرے دار ہیں، افراتفری اور نظام کے درمیان ایک مضبوط رکاوٹ ہیں۔ ان کی قربانیاں صرف فرض شناسی کے عمل نہیں، بلکہ اپنے ملک اور اس کے لوگوں سے بے پناہ محبت کا اظہار ہیں۔ آئیے ان کا احترام صرف الفاظ کے ذریعے نہ کریں بلکہ اپنے اقدامات کے ذریعے بھی ان کا شکرگزار بنیں اور ان کے مقدس مقصد کو برقرار رکھیں۔ ان کی جوانی اور خواب شاید قربان ہوگئے، لیکن ان کی میراث ہماری سلامتی اور آزادی میں زندہ ہے۔ ان کی قربانی کا احترام کرنا ہماری کم از کم ذمہ داری ہے تاکہ یہ قربانیاں رائیگاں نہ جائیں۔