اسلام آباد(صباح نیوز) سابق وفاقی وزیر سنیٹر مشاہد حسین سید نے پاکستان کی خارجہ پالیسی میں علاقائی تبدیلی پر زور دیتے ہوئے حکومت سے کہا ہے کہ وہ بھارت سے تجارت، مذاکرات یا کرکٹ میچز کے لیے یکطرفہ طور پر درخواست نہ کرے۔
جاری بیان کے مطابق مارگلہ ڈائیلاگ میں کلیدی خطاب کے دوران سنیٹر مشاہد حسین سید نے پاکستان کی قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کے ریڈ لائنز واضح کر دیئے۔ انہوں نے ان ریڈ لائنز میں جوہری اور میزائل پروگرام، مقبوضہ کشمیر اور فلسطین، چین اور سی پیک، بھارتی بالادستی کے انکار اور ایران کو غیر مستحکم کرنے کی کسی بھی کوشش کا حصہ بننے سے انکار کو شامل کیا۔اس کانفرنس کے موضوع ابھرتی ہوئی عالمی حقیقتیں کا حوالہ دیتے ہوئے مشاہد حسین نے نئی حقیقتوں کو اجاگر کیا جن میں مغرب اور امریکی طاقت میں کمی، چین کا پرامن عروج اور گلوبل ساتھ کا دوبارہ عروج شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ دہائی میں مسلم مڈل پاورز جیسے پاکستان، ترکی، ایران، سعودی عرب اور انڈونیشیا اہم علاقائی کردار ادا کریں گے۔
انہوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کو جان ایف کینیڈی کے بعد پہلے امریکی صدر کے طور پر سراہا جو امریکی سکیورٹی سٹیبلشمنٹ کے نمائندے نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ نے انتخابات میں ٹرمپ کو روکنے کی کوشش کی۔انہوں نے ترقی پذیر ممالک میں بدامنی، عدم استحکام اور حکومت کی تبدیلی کو ہوا دینے میں مصروف ڈیپ اسٹیٹ کو کنٹرول کرنے کے لیے صدر ٹرمپ کے عزم کو بھی سراہا۔مشاہد حسین نے پاکستان کی خارجہ پالیسی میں علاقائی تبدیلی کا مطالبہ کرتے ہوئے حکومت پر زور دیا کہ وہ بھارت سے تجارت، مذاکرات یا کرکٹ میچز کے لیے یکطرفہ طور پر درخواست نہ کرے، افغانستان اور ایران کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کرے اور دہشت گردی کے حوالے سے چینی خدشات کو دور کرے۔
انہوں نے اپنے کلیدی خطاب کا اختتام کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے پاس اب خطے میں تزویراتی جگہ موجود ہے،تاہم پاکستان کے لیے سب سے بڑا چیلنج شکست خوردگی اور خوف کا ذہنی رویہ ہے، جو قوم کے لیے نقصان دہ اور حوصلہ شکن ہے۔اس ڈائیلاگ میں خطاب کے بعد سوال و جواب کا انٹرایکٹو سیشن ہوا۔