اسلام آباد(صباح نیوز)سپریم کورٹ آف پاکستان کے آئینی بینچ نے آئی بی، ایف آئی اے ، ایف بی آر، ایس ای سی پی اوردیگر سے غیرملکی خفیہ بینک اکاؤنٹس اور لوٹی گئی رقم کی واپسی کے حوالہ سے رپور ٹ طلب کرلی۔ جبکہ جسٹس جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے ہیں کہ پورے پنجاب کی پراسیکیوشن کو نئے سرے سے تربیت دینا ہوگی۔ جبکہ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے ہیں کہ اگر کہیں کہ ہائی کورٹ کسی کوچھو بھی نہیں سکتی تو پھر ہائی کورٹ کاتوکوئی فائدہ نہیں۔ یہ بات ذہن نشین کر لیں آئینی بینچ ازخود نوٹس لے سکتا ہے، آئینی بینچ کیوں ازخودنوٹس نہیں لے سکتا،ہم ازخود نوٹس لے سکتے ہیں۔
پی اے آرسی قانون کے تحت قائد ادارہ ہے کیا اس کوہٹا کر ملازمین کے لئے گھر بنائیں گے،دوسری جگہ پی آرسی کودے رہے ہیں وہاںجنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کے ملازمین کے لئے گھر بنا لیں۔ جبکہ جسٹس سید حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیئے ہیں کہ کیااسلام آباد میںبیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے آئی ٹی یونیورسٹی بنانے کا معاملہ ایس آئی ایف سی کے حوالہ کردیں۔جبکہ جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے ہیں کہ لگتا ہے یونیورسٹی کے لئے مختص کردہ زمین پر کسی اور کی نظر ہے اور نظر بھی بری ہے،ہماری خواہش ہے کہ یونیورسٹی بنے اور لوگ پڑھ لکھ جائیں، یہ لوگ چاہتے ہیں یونیورسٹی بنے ہی نا۔آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں جسٹس جمال خان مندوخیل ،جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس سید حسن اظہر رضوی ،جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس نعیم اخترافغان پر مشتمل6رکنی بینچ نے 16کیسز کی سماعت کی۔
بینچ نے 120منٹ میں تمام16کیسز کی سماعت مکمل کرلی۔ آئینی بنچ نے غیرملکی بینک اکائونٹس چھپانے اور لوٹی ہوئی رقم کی ریکوری کے لئے گئے ازخودنوٹس اور سینیٹر محمد علی درانی کی جانب سے فریق بننے کی درخواست پر سماعت کی۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل راشدین نواز قصوری نے پیش ہوکربتایا کہ یہ ایشو باقی نہیں رہا۔ اس پر جسٹس امین الدین خان کاکہناتھا کہ سینیٹر محمد علی درانی نے فریق بننے کی درخواست دی ہے۔دوران سماعت ایف بی آر کے وکیل حافظ احسان احمد کھوکھر نے دلائل پیش کیے کہ انکم ٹیکس قانون میں ترمیم ہوچکی ہے، قانونی پراسیس کے تحت خفیہ اکائونٹس اور ریکوری پر کارروائی چل رہی ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ اس میں بین الاقوامی معاہدوں کا بھی لکھا ہے اس حوالہ سے کیا کہتے ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ کیس میںآئی بی، ایف آئی اے ،ایف بی آر سمیت تمام ایجنسیوں کو رپورٹس شیئر کرنے کاکہا ہے، اگر کیس ختم کرنا چاہتے ہیں تو کوئی جامع رپورٹ جمع کروائیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہناتھا کہ مین اتھارٹی ایف بی آر ہے ہم سے کیوں کیس کافیصلہ کروانا چاہتے ہیں۔ ایف بی آر کے وکیل نے کہا کہ یہ معاملہ ایف بی آر اور ایف آئی اے کا ہے، ایجنسیوں کا اس معاملہ سے کوئی تعلق نہیں۔جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ ہم سماعت ملتوی کررہے ہیں، تازہ ترین رپورٹ جمع کروائیں۔
جسٹس محمد علی مظہر کاایف بی آر وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ بینچ میں بولتے ہیں سن تولیا کریں۔ بعد ازاں سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے آئی بی، ایف آئی اے ، ایف بی آر، ایس ای سی پی اوردیگر سے غیرملکی خفیہ بینک اکائونٹس اور لوٹی گئی رقم کی واپسی کے حوالہ سے رپور ٹ طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت 2 ہفتے کے لیے سماعت ملتوی کردی۔بینچ نے وفاقی محتسب کی جانب سے لاہور ہائی کورٹ کے جج کو جاری توہین عدالت کے نوٹس پر لئے گئے ازخودنوٹس پر سماعت کی۔دوران سماعت حراسگی کیس میں میراشفیع کی جانب گورنرپنجاب کے خلاف دائر درخواست پر خواجہ احمد حسین ویڈیو لنک کے زریعہ لاہور سے پیش ہوئے۔
جسٹس محمد علی مظہر کہنا تھا کہ خواتین محتسب برائے انسداد حراسیت کی جانب سے سلیم جاوید بیگ اوردیگر کے خلاف دائر درخواست میں عرفان قادر کانام لکھا ہے، توہین عدالت کانوٹس تومختلف کیس میں ہے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل چوہدری عامر رحمان کاکہنا تھا کہ صدر مملکت نے حراسگی کے حوالہ سے درخواس پر فیصلہ کردیا اس میں کوئی آئینی سوال نہیں۔جسٹس مسرت ہلالی کاکہنا تھا کہ سوال یہ ہے کہ ہائی کورٹ کے سامنے محتسب کے احکامات چیلنج ہوسکتے ہیں کہ نہیں۔
جسٹس محمد علی مظہر کاکہناتھا کہ یہ ازخود نوٹس ابھی زند ہے ، وارنٹ گرفتاری معطل ہوئے تھے۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ اگر کہیں کہ ہائی کورٹ کسی کوچھو بھی نہیں سکتی تو پھر ہائی کورٹ کاتوکوئی فائدہ نہیں۔جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ ہائی کورٹ نے صرف حکم امتناع جاری کیا تھا، جب کاروائی چلاتے رہیں گے توتوہین عدالت کاقانون توختم ہوگیا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ جو اِس وقت خواتین محتسب ہیں ان کونوٹس جاری کریں کہ وہ وارنٹ برقراررکھنا چاہتی ہیں کہ نہیں، پوچھ کرآئین کیس چلانا چاہتے ہیں کہ نہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ ہائی کورٹ اور خاتون محتسب دونوں نے توہین عدالت کے نوٹس جاری کئے۔
جسٹس مسرت ہلالی کاکہنا تھا کہ خاتون کو محتسب بلایا جائے نہ کہ صرف خاتون ، یہ کیا بات ہوئی کہ ایک کوہائی کورٹ اوردوسری کو خاتون۔ عدالت نے کیس کی سماعت 2ہفتے کے لئے ملتوی کرتے ہوئے وکلاء کو خواتین محتسب اور ہائی کورٹ سے ہدایات لے ہوکرپیش ہونے کی ہدایت کردی۔ جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ ہم آئندہ سماعت پر تمام سوالات سنیں گے۔ عدالت نے سمیرا فاضل خان کی جانب سے سلیم جاوید بیگ اوردیگر کے خلاف دائر درخواست واپس لینے کی بنیاد پر خارج کردی۔ آئینی بینچ نے کنونشن سینٹرکو وکلاء کی جانب سے استعمال پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔
دوران سماعت جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل صاحب اس معاملہ پر شاید واجبات بعد میں ادا کر دیئے گئے تھے۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ سو موٹو کیس میں سابق وزیر اعظم کو بھی نوٹس کیا گیا تھا۔جسٹس محمد علی مظہرکاکہنا تھا کہ تصدیق کرنا پڑے گی کہ پیسے جمع ہوئے تھے کہ نہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کنونشن سینٹر کو ادارے کی پالیسی کے مطابق چلائیں۔ایڈیشنل اٹارنی نے کہا کہ مجھے واجبات ادائیگی کی معلومات لے لینے دیں، جس پر بنچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ آپ معلومات لیں ہمیں کچھ دیر میں بتادیں۔تمام کیسز کی سماعت کے اختتام پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل چوہدری عامر رحمان نے عدالت کوبتایا کہ وکلاء نے پیسے ادااکردیئے تھے اس حوالہ سے میں نے سی ڈی اے حکام سے تصدیق کرلی ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ کنویشن سینٹر کے استعمال کے حوالہ سے پراپر پالیسی بنائی ہے کہ نہیں ۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہناتھا کہ اگر پالیسی نہیں بنائی توبنالیں۔ بینچ نے کیس نمٹادیا۔ بینچ کے سامنے انسداد دہشت گردی کے ایک کیس پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت ہوئی۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یہ بات ذہن نشین کر لیں آئینی بینچ ازخود نوٹس لے سکتا ہے، آئینی بینچ کیوں ازخودنوٹس نہیں لے سکتا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ 7ATAکو ہم نے بہت سے فیصلوں میں واضح کردیا ہے۔ مدعا علیہ کے وکیل محمد منیر احمد پراچہ کاکہناتھا کہ ازخود نوٹس ویے بھی مشکوک تھا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہناتھا کہ ازخودنوٹس کی ضرورت نہیں، بہت سے فیصلوں میں یہ ایشوواضح ہوچکاہے۔
وکیل محمد منیر پراچہ نے کہا کہ اس کیس میں مزید کارروائی کی ضرورت نہیں ہے، 26ویں آئینی ترمیم کے بعد اب سپریم کورٹ ازخود نوٹس لے ہی نہیں سکتی۔جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ وکیل صاحب ترمیم کے بعد صرف پروسیجر تبدیل ہوا ہے لیکن سپریم کورٹ اب بھی ازخود نوٹس لے سکتی ہے، فرق صرف یہ ہے کہ اب ازخود نوٹس آئینی بینچ میں چلے گا اور یہ بات ذہن نشین کر لیں آئینی بینچ ازخود نوٹس لے سکتا ہے، ہم ازخود نوٹس لے سکتے ہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ہم اس ایشو کو کسی اور کیس میں سنیں گے جب کوئی آئے گا۔ عدالت نے وکیل کے دلائل کے بعد کیس نمٹا دیا۔آئینی بینچ نے بینکنک آرڈیننس کے تحت اپیل کے معاملے پرسماعت کی۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہناتھا کہ 2007کاآرڈیننس اور2013کاایکٹ ہے،اسپیشل قانون قابل عمل ہوگا۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ یہ اتنا بھی سادہ معاملہ نہیں کہ اس طریقہ سے ختم کردیں۔ عدالت نے کیس کافیصلہ محفوظ کرلیا۔ آئینی بینچ نے آل سندھ میں لیڈی ہیلتھ ورکرز پروگرام یونین کی صدر کی جانب سے سیکرٹر ی کے توسط سے حکومت سندھ کے خلاف سروس اسٹرکچر کے معاملہ پر دائر درخواست پر سماعت کی۔
جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہناتھا کہ سپریم کورٹ نے ہدایات دی تھیں کہ ایکٹ، رولز اورسروس اسٹرکچر بننا تھا، وہ کام ہوگیا کہ نہیں۔جسٹس محمد علی مظہر کاکہناتھا کہ کیا سروس ، ملازمت، تنخواہ اور پینشن بنیادی حق نہیں، کیاسروس اسٹرکچر بنادیا ہے ، ملازمین کوتنخوا ہ اورپینشن چاہیئے۔ جسٹس محمد علی مظہر کاایڈووکیٹ جنرل سندھ حسن اکبر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھا کہ کیاآپ کابیان نوٹ کرلیں کہ سب مشکلات پر قابو پالیا ہے۔ بینچ نے سروس اسٹرکچر سے متعلق تمام مقدمات یکجا کرکے فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کیس کی سماعت ملتوی کر دی۔جبکہ بینچ نے الجہاد ٹرسٹ بنام وفاق کیس کی سماعت کی۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل چوہدری عامر رحمان نے پیش ہوکربتایا کہ اس کے بعد پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکاہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ پارلیمنٹ موجود ہے وہ مناسب سمجھے تو معاملہ دیکھ لے۔ چوہدری عامر رحمان کاکہناتھا کہ گلگت بلتستان میں کوئی انکم، سیلز اور کسٹم ٹیکس نافذ نہیں ہوتا۔ عدالت نے درخواست غیرمئوثر ہونے کی بنیاد پر نمٹا دی۔ بینچ نے صدر پی اے آر سی سائنٹسٹس ایسوسی ایشن (پی اے آر ایس اے)عزیز اللہ شاہ ، اسلام آباد اوردیگر کی جانب سے چیف سیکرٹری کے توسط سے حکومت پنجاب ، سول سیکرٹریٹ لاہور اوردیگر کے خلاف ایرڈزون ریسرچ انسٹیٹوٹ ، بہاولپور کی جگہ خالی کروانے کے معاملہ کوغیر قراردینے کے حوالہ سے دائر درخواست پر سماعت کی۔درخواست گزار کی جانب سے ملک قمر افضل بطور وکیل پیش ہوئے جبکہ وفاقی حکومت کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل راشدین نوازقصوری اور پنجاب حکومت کی جانب سے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل وسیم ممتاز ملک پیش ہوئے۔
جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ لیز کامعاملہ تھا کردیا کہ نہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہناتھا کہ انسٹیٹیوٹ کی جگہ پر ہائوسنگ اسکیم بن رہی ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ پی آرسی قانون کے تحت قائد ادارہ ہے کیا اس کوہٹا کر ملازمین کے لئے گھر بنائیں گے، دوسری جگہ پی آرسی کودے رہے ہیں وہاںجنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کے ملازمین کے لئے گھر بنا لیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ 1974میں بننے والے ادارے کوکیوں 2024میںڈسٹرب کرنا چاہتے ہیں، چولستان کے لوگوں کے لئے فائدہ ہے، درخت لگائے جارہے ہیں اور بیچوں کی نئی اقسام تیار کی جارہی ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ اگر پی آراسی والے اپنی مرضی سے کسی دوسری جگہ جانا چاہتے ہیں توچلے جائیں۔
اس پر وکیل قمر افضل کاکہناتھا کہ ہم کہیں نہیں جائیں گے۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ کسی اورجگہ رہائش بنالیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کاایڈیشنل اٹارنی جنرل کے ساتھ مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یہ پنجاب اور وفاق کے درمیان معاہدہ ہے کیوں آپس میں بیٹھ کربات نہیں کرتے، کیوں وفاق صوبے کو مطمئن نہیں کرپارہا۔ وسیم ممتاز ملک کاکہناتھا کہ مجھے بیٹھنے پر کوئی اعتراض نہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہناتھاکہ ہم کتنی مرتبہ بٹھائیں گے۔ جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ ریسرچ سینیٹر ہے اوردوسری چیزیں ہیںاس پر رقم خرچ ہوئی ہے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل کاکہنا تھا کہ ہم ریلوے کی ہزاروں ایکٹر زمین کے معاملات حل کئے ہیں یہ بھی حل کرلیں گے۔ آئینی بینچ نے معاملہ بات چیف کے زریعہ حل کرنے کرنے کے ایک ماہ کاوقت دیتے ہوئے مزید سماعت ملتوی کردی۔
بینچ نے چیف سیکرٹری گلگت بلتستان اوردیگرکی جانب سے شکیل احمد اوردیگر کے خلاف سپریم ایپلٹ کورٹ، گلگت بلتستان کے احکامات کوکالعدم قراردینے کے معاملہ پر دائر درخواست پر سماعت کی۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا ڈویژن بینچ کاآرڈر چیمبر میں بیٹھ کرختم نہیں کرسکتے۔
عدالت نے درخواست گزارکودوہفتے کا وقت دیتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔بینچ نے امجد اقبال ، محمد شفیق ، امجدعلی، گل تیاز خان اوردیگر کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ ، پشاور ہائی کورٹ اور وفاقی شرعی عدالت کے خلاف ملازمت کے معاملات پر دائر درخواستوںپر سماعت کی۔جسٹس محمد علی مظہر کادرخواست گزار سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ16مارچ2020کے مین فیصلہ پر نظرثانی چاہتے ہیں، یہ توآپ آئین کوچیلنج کررہے ہیں، آئین کے آرٹیکل 199-5کوچیلنج نہیںکیا۔جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ انتظامی معاملات اُسی عدالت کے سامنے چیلنج نہیں ہوسکتے، ہمارے پاس آئین کے آرٹیکل 191کے تحت سپریم کورٹ کے اپنے رولز بنانے کااختیار ہے ، پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون آگیا وہ الگ بات ہے۔
وکیل کاکہنا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ملازمین کے لئے کوئی ٹربیونل نہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کاکام ہے رولز بنائے ہم بلوچستان ہائی کورٹ میں بناچکے ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کاوکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھا کہ آپ کہتے ہیں کہ آئینی شق کومستردکرنا ہے، آئین کے آرٹیکل 199-5سے ہائی کورٹ کالفظ نکالنا پڑے گا۔ جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ ہائی کورٹ سے کوئی ہے۔ اس پر بینچ کو بتایا گیا کہ ہائی کورٹ کو نوٹس نہیں ہوا۔
جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہناتھاکہ اگر چیف جسٹس کسی ملازم یاجوڈیشنل افسر کو ہٹاتے ہیں توکیااس کے خلاف کوئی درخواست دائر نہیں ہوسکتی،عدالت کے جوڈیشل آرڈر کے خلاف رٹ جاری ہوسکتی ہے۔ عدالت نے اپنے حکم میں کہا کہ رجسٹراراسلام آباد اورایڈیشنل اٹارنی جنرل بتائیں کہ کوئی ٹربیونل ہے کہ نہیں۔ اس دوران وفاقی شرعی عدالت کے ملازمت سے نکالے گئے درخواست گزار امجد علی نے ذاتی حیثیت میں پیش ہوکربتایا کہ میں 11سال سے فارغ ہوں، میری 18سال سروس ہے اور نہیں تومجھے جبری ریٹائرڈ کردیا جائے تاکہ پینش اوردیگرمراعات مل سکیں۔ بینچ نے درخواست پر وفاقی شرعی عدالت سے جواب طلب کرلیا۔ جبکہ درخواست گزارتیاز گل نے پیش ہوکربتایا کہ پشاور ہائی کورٹ نے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی 25آسامیوں کااشتہار دیا، میں نے امتحان دیا اور پانچویں نمبر پر میرٹ میں آیا، مجھ پر الزام لگایا کہ میں نے دستاویزات میں جعلسازی کی ہے۔
اس پر جسٹس مسرت ہلالی کاکہناتھاکہ میں دور سے آئی ہوں اس لئے میرے تک آواز پہنچنے میں دیر لگتی ہے۔ جسٹس نعیم اخترافغان کادرخواست گزارسے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ 184-3کے تحت کیسے براہ راست سپریم کورٹ میں آسکتے تھے۔ درخواست گزارکاکہناتھا کہ سپریم کورٹ نے کہا کہ ذاتی مسئلہ ہے۔ وکیل کاکہناتھاکہ خاتون نے میراوکالت نامہ لے کردستاویزات میں جعلسازی کی جس کی وجہ سے ہم دونوں کو نااہل قراردے دیا گیا۔درخواست گزارکاکہناتھا کہ میرے خلاف ہائی کورٹ کی جانب سے منفی ریمارکس دیئے جس کامجھے آج تک نقصان ہورہاہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ ہمریمارکس حذف کردیتے ہیں۔ جسٹس مسرت ہلالی کاکہناتھا کہ یہ پورا کیس ہے، پیچھے توصرف ڈھانچہ رہ جائے گا۔ وکیل کاکہناتھاکہ فورجری کسی نے کی نام میرے پرڈال دی۔عدالت نے پشاور ہائی کورٹ کے رجسٹرار کوہدایات لے کرآئندہ سماعت پر پیش ہونے کاحکم دے دیا۔ بینچ نے ایل پی جی قیمتوںکے معاملہ پر خواجہ محمد آصف کی جانب سے وفاق پاکستان اوردیگر کے خلاف دائر 5درخواستوںپر سماعت کی۔جسٹس محمد علی مظہر کاکہناتھا کہ یہ ایشوباقی ہے یاایل پی جی قیمتوںکے حوالہ سے معاملہ حل ہو گیا ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل کا وکیل خواجہ طارق اے رحیم کے ساتھ مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اگر مین درخواست واپس لے لی ہے تودیگر درخواستوں میں کیا رہ جاتا ہے،2013میں یہ معاملہ فائنل ہوچکا ہے پھر آپ درخواستوں پر درخواستیں دیتے جارہے ہیں، جسٹس (ر)محمد شائق عثمانی کو کمیشن مقررکیا گیا، جب مین کیس ختم ہو گیا تو پیچھے کیا رہ جاتا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ اگر مین درخواست واپس لے لی جائے تودیگر درخواستیں واپس ہوجاتی ہیں یا خود ہی واپس تصورہوتی ہیں۔ جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ ساری سی ایم ایز بھی چلاتے جارہے ہیں۔ جسٹس مسرت ہلالی کاکہنا تھا کہ کوئی کیس زیر التواتھا جس میں سی ایم ایز آرہی تھیں، کوئی کیس زیر التوانہیں تھا، بند کیس میں سی ایم ایز جمع کروارہے ہیں۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل چوہدری عامر رحمان کاکہنا تھا کہ کنٹریکٹ کالعدم ہوگیا۔
جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہناتھا کہ 2013میں کیس کافیصلہ ہوا کہ معاہدے کو پوراکرو۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ فرگوسن کمپنی اور جسٹس (ر)شائق عثمانی کو کمیشن مقررکیا گیا، پتانہیں کس قانون کے تحت کمیشن مقررکیا۔ سوئی سدرن گیس کمپنی کے وکیل کا کہنا تھا کہ ہم فرگوسن کمپی کی رپورٹ کو مانتے ہیں، جے جے وی ایل نے اس رپور ٹ پراعتراض کیا تھا۔ جسٹس محمد علی مظہر کاخواجہ طارق اے رحیم کے ساتھ مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہم آپ کے جسٹس (ر)شائق عثمانی کی رپورٹ پر اعتراضات سن کرفیصلہ کردیتے ہیں۔ خواجہ طارق رحیم کاکہناتھاکہ اسلام آباد آکرکیس میں سپریم کورٹ کے سامنے پیش ہونا چاہتا ہوں، مجھے وقت دیا جائے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہناتھا کہ رپورٹ کی کوئی حیثیت نہیں تاوقت کہ کوئی فریق عملدرآمد کے لئے ہائی کورٹ سے رجوع کرے۔
عدالت نے کیس کی سماعت دسمبر کے دوسرے ہفتے تک ملتوی کرتے ہوئے خواجہ طارق اے رحیم کواسلام آباد میں پیش ہونے کی ہدایت کردی۔ جبکہ آئینی بینچ نے اسلام آباد میں آئی ٹی یونیورسٹی کے قیام کے لئے زمین الاٹ کرنے کے معاملہ پر چیئرمین سی ڈی اے کی جانب سے اعتزاز(باب)دین کے خلاف دائر درخواست پرسماعت کی۔ جسٹس محمد علی مظہر نے استفارکیا کہ کیا مسئلہ حل ہو گیا ہے۔ مدعا علیہ کے وکیل سلمان اسلم بٹ کاکہنا تھا کہ آج کے ریٹ کے حساب سے زمین کی قیمت مانگ رہے ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ کیا سی ڈی اے حکام آئے ہیں، پہلے توچیئرمین سی ڈی اے پیش ہوتے تھے۔ سی ڈی اے کے وکیل محمد منیر پراچہ کاکہنا تھا کہ اب عملی طور پر ممکن نہیںرہا، وفاقی کابینہ نے فیصلہ کیا ہے کہ تعلیمی ادارے کونہیں دے سکتے،1-17میں جگہ ہے وہ آفرکرسکتے ہیں ۔
جسٹس محمد علی مظہر کاکہناتھا کہ اگر کہتے ہیں کہ میرٹ پر فیصلہ کریں توہم کردیں گے، میرٹ پر چلادیں۔ جسٹس مسرت ہلالی کاکہنا تھا کہ یہ چاہتے ہیں یونیورسٹی بنے ہی نا۔ جسٹس سید حسن اظہر رضوی کاکہنا تھا کہ اس کیس کوایس آئی ایف سی کے حوالہ کردیں۔ اس پر سلمان اسلم بٹ کاکہناتھا کہ اسی عدالت میں رہنے دیں۔ جسٹس سید حسن اظہر رضوی کاکہناتھا کہ حکومت اس جگہ پر کیا بنانا چاہتی ہے۔
سلمان اسلم بٹ کاکہناتھا کہ پہلے الاٹ کردہ جگہ کری روڈ پر ہے۔ محمد منیر پراچہ کاکہناتھا کہ حکومت نے کہا ہے کہ تعلیمی اداروں کے لئے 1-17میں جگہ مختص کریں اور 10تعلیمی اداروں کو وہاں منتقل کیا گیا ہے، مدعا علیہ کے ساتھ معاہدہ منسوخ ہوچکا ہے۔ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ لگتا ہے زمین پر کسی اور کی نظر ہے اور نظر بھی بری ہے،ہماری خواہش ہے کہ یونیورسٹی بنے اور لوگ پڑھ لکھ جائیں۔
اس پرسلمان اسلم بٹ کاکہناتھا کہ کسی اورکی نظر ہے۔ جسٹس محمد علی مظہرکاکہنا تھا کہ کوئی معاہدہ نہیں تھا۔ جسٹس مسرت ہلالی کاکہناتھا کہ بین الاقوامی معیارکی آئی ٹی یونیورسٹی اسلام آباد میں بنارہے ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہناتھا کہ کوئی چیز بن رہی ہے اورآپ کہہ رہے ہیںنہ بنائیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہناتھاکہ جس جگہ زمین دکھارہے ہیں وہ دیکھ لیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہناتھا کہ اُس کے پیسے بہت زیادہ مانگ رہے ہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہانتھاکہ کوئی معاہدہ نہیں نیامعاہد ہ کرناہے توکریں۔ جسٹس مسرت ہلالی کاکہناتھا کہ آپ شکر کریں آپ کے ملک میں کوئی آکرفائدہ دے رہا ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہناتھا کہ یہ ہماری خواہش ہے یونیورسٹی بنے لیکن ہم قانون سے باہر نہیں جاسکتے۔ محمدمنیر پراچہ کاکہنا تھاکہ مدعا علیہان نے 17کروڑ روپے دیئے اور 39کروڑ لے لئے۔
جسٹس مسرت ہلالی کامنیر پراچہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھا کہ پراچہ صاحب! بنانے کی کوشش کریں۔ جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ اگر آئندہ سماعت تک معاملہ حل نہ ہواتوپھر ہم میرٹ پر سن کرفیصلہ کریں گے۔ عدالت نے سی ڈی اے اور مدعاعلیہان کوبات چیت کے زریعہ معاملہ حل کرنے کے لئے 10روز کاوقت دیتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔ بینچ نے ایس بی کمپلیکس آونرز ویلفیئر ایسوسیشن(رجسٹرڈ) اوردیگر کی جانب سے نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ اوردیگر کے خلاف دائر 14درخواستوں پرسماعت کی۔ بینچ نے وکلاء کواسلام آباد آکر دلائل دینے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔بینچ نے کیس کی ایک کیس کی عدم اطمینان بخش تحقیقات کے حوالہ سے لئے گئے ازخود نوٹس پر سماعت کی۔ بینچ نے کیس غیر مئوثر ہونے پر نمٹادیا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ پورے پنجاب کی پراسیکیوشن کو نئے سرے سے تربیت دینا ہوگی۔