امریکا و اسرائیل واقعی ایران سے خائف ہیں؟… تنویر قیصر شاہد


اگلے روز راقم ابھی حجام کی دکان میں حجامت کروانے کے لیے کرسی پر بیٹھا ہی تھا کہ وہ پُر اسرار لہجے میں مجھ سے بولا:’’ سر جی، سنا ہے ایران نے ایٹم بم بنا لیا ہے ؟ بڑی بات ہے جی ۔‘‘ حجام کی زبانی یہ بات سُن کر ، سچی بات ہے ، مَیں تو سناٹے میں آ گیا ۔

گھر سے نکلتے وقت مَیں نے دو تین بھارتی(ویب) اخبارات میں یہ ’’ خبر‘‘ پڑھی تھی کہ ’’ممکن ہے ایران نے آج زیر زمین ایٹمی دھماکا کیا ہو ۔‘‘ یہ 5اکتوبر 2024 کی بات ہے ۔ ’’خبر‘‘ پڑھ کر راقم گھر سے نکلا تو سوچ رہا تھا کہ ابھی یہ کم ہاتھوں اور آنکھوں تک پہنچی ہوگی ۔ حجام نے مگر میری یہ غلط فہمی جَلد دُور کر دی ۔ یہ برق رفتارفیک نیوز کی جادو گری ہے!

سب سے پہلے دو بڑے بھارتی اخبارات (ہندوستان ٹائمز اور انڈیا ٹوڈے)نے یہ شرانگیز خبر دی: ’’5اکتوبر کو ایرانی صوبے ، سمنین، میں 4.5ریکٹر اسکیل کا زلزلہ محسوس کیا گیا ۔زلزلے کا مرکز ایرانی ایٹمی پلانٹ کے آس پاس تھا ،اور10کلومیٹر کے رداس میں۔ اندازے یہی ہیں کہ ایران نے زیر زمین ایٹمی دھماکا کیاہے‘‘ ۔8اکتوبر کو ایک اور بھارتی اخبار نے یوں خبر شائع کی : ’’ایران کے پہلے ایٹمی دھماکا کیے جانے کی ’’خبر‘‘ پھیلنے سے اسرائیل نے ایران پر حملہ کرنے کا پروگرام، فی الحال، روک دیا ہے ‘‘۔اسرائیلی اخبارات ، ٹی وی اور سوشل میڈیا نے بھی ایران کے  ’’جوہری بم دھماکے‘‘ کی خبر شائع تو کی مگر ہلکے سُروں میں ۔ شائد وہ اپنے عوام کو ایران کے خوف میں مزید مبتلا نہیں کرنا چاہتے تھے ۔

یکم اکتوبر کو ایران نے ( فلسطینی حریت پسند رہنما اسماعیل ہنیہ اور حزب اللہ کے مرکزی رہنما حسن نصراللہ کی اسرائیل کے ہاتھوں شہادتوں کے ردِ عمل میں)اسرائیل پر دو سو کے قریب میزائلوں کی بارش کرکے اسرائیل پر خوف طاری کر دیا تھا ۔ واقعہ یہ ہے کہ اسرائیل پر ایرانی میزائلوں کی بارش نے عرب اقوام پر چھائی اسرائیلی ہیبت کو خاصا مدہم کر دیا ہے ۔

حیرت مگر یہ ہے کہ جس وقت بھارتی اخبارات ایران کے خلاف بے بنیاد خبریں شائع کررہے تھے ،اُسی وقت اُسی بھارت کے ایک اخبار (انڈین ایکسپریس) کو بھارت میں متعین ایرانی سفیر، جناب ایرج الٰہی، بھارتی صحافی(Divya A) کو انٹرویو دیتے ہُوئے بھارت کی تحسین کرتے ہُوئے اِس توقع کا اظہار بھی فرما رہے تھے:’’اسرائیل سے بھارت کے بہترین تعلقات ہیں ۔ ایران سے بھی بھارت کا شاندار تعلق ہے ۔ ایسے میں اگر بھارت آگے بڑھ کر اسرائیل کو غزہ اور لبنان بارے جنگ بندی پر راضی کر لیتا ہے تو یہ بھارت کی ایک عظیم عالمی خدمت ہوگی ۔ اِس کے کئی ثمرات ہوں گے ۔‘‘

یہ درست ہے کہ اگر ایران کے پاس ایٹم بم ہوتا تو صہیونی اسرائیل کبھی ایران ، غزہ اور لبنان پر حملہ کرنے کی جسارت نہ کرتا ۔ اِسی لیے اسرائیل اور اس کے پُشتی بان مغربی ممالک پریشان ہیں کہ اگر واقعی معنوں میں ایران نے ایٹم بم بنا لیا تو خاص طور پر اسرائیل کی بدمعاشیوں کا کیا بنے گا؟ اِسی خدشے کے تحت آسٹریلیا کے مشہور اخبار’’دی سڈنی مارننگ ہیرالڈ‘‘نے 10اکتوبر 2024کو ایک مفصل آرٹیکل اِس عنوان کے تحت شائع کیا ہے Cat and mouse:What we know about Iran,s secretive nuclear program? اِس آرٹیکل اور تجزیئے کو دو صاحبان (Jackson Graham اورAngus Holland) نے رقم کیا ہے ۔ اِس کا آغاز بھی اِسی (فیک) نیوز کے ساتھ کیا گیا ہے کہ 5اکتوبر کو شمالی ایران کے ’’سمنین‘‘ صحرائی علاقے میں 4.5کا جو زلزلہ محسوس کیا گیا ، ممکن ہے یہ ایران کا زیر زمین ایٹمی دھماکا ہی ہو ۔

’’دی سڈنی مارننگ ہیرالڈ‘‘ کے مذکورہ بالا آرٹیکل میں اِس بات پر بھی بحث کی گئی ہے کہ سابق ایرانی بادشاہ حکمران( رضا شاہ پہلوی) کے دَور ہی میں دراصل ایران میں23 جوہری پاور اسٹیشنز قائم کرنے کی منظوری دے دی گئی تھی۔ اِس مقصد کے حصول کے لیے جرمنی اور فرانس سے ڈِیل بھی کی گئی تھی کہ وہ تہران کے جنوب ، بو شہر میں، اولین ایٹمی پاور اسٹیشن استوار کریں گے ۔ اخبار مذکور نے اِسی اشاعت میں وہ تاریخی تصویر بھی شائع کی ہے جس میں شاہ ایران کے وزیر اعظم، امیر عباس ہویدا ، کینیڈا کے ایک ایٹمی توانائی پلانٹ کا دَورہ کررہے ہیں ۔

اخبار نے یہ بھی لکھا ہے کہ شاہ ایران کے تختہ اُلٹنے کے بعد جب امام خمینی ایرانی اقتدار پر قابض ہُوئے تو اُنھوں نے ابتدائی طور پر نیوکلیئر پاور کی مخالفت کی تھی اور یوں یہ منصوبہ (وقتی طور پر ) روک دیا گیا تھا ۔ مگر بعد ازاں حالات نے ایران کو ایٹمی توانائی کے حصول کی طرف مائل کر دیا ۔ بو شہر کا مبینہ ایٹمی پلانٹ اِسی کا مظہر ہے ۔ آسٹریلیا کے مذکورہ اخبار نے اپنی تفصیلی رپورٹ میں یہ بھی لکھا ہے کہ اب تک کتنے ایرانی جوہری سائنسدان (مبینہ طور پر اسرائیل کے ہاتھوں) قتل کیے جا چکے ہیں ۔شہید کیے جانے والے اِن ایرانی ایٹمی سائنسدانوں میں سے ایک مشہور سائنسدان محسن فخری زادے بھی تھے ۔

رپورٹ میں فخری زادے اور اُن کی اُس کار کی فوٹو بھی شائع کی گئی ہے جس میں شہادت کے وقت وہ سوار تھے ۔ ایران نے 2012ء میں تہران میں اُن کاروں کو نمائش میں بھی رکھا تھا جن میں ایرانی جوہری سائنسدانوں کو شہید کیا گیا تھا ۔7نومبر2024ء کو خبر آئی کہ ایران نے سائنسدان ، فخری زادے، کے قتل میں ملوث تین اسرائیلی جاسوسوں کو سزائے موت سنا دی ہے ۔

7اکتوبر2024 کو ممتاز امریکی اخبار ’’نیویارک ٹائمز‘‘ نے اپنے تین اہم ترین تجزیہ کاروں کی اکٹھی کاوش سے ایک طویل آرٹیکل اِس عنوان کے تحت شائع کیا :’’واشنگٹن کو فکر ہے کہ اسرائیل ، ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ کرے گا، مگر کیا ایسا ممکن بھی ہے؟۔‘‘ساری دُنیا کو فکر تھی کہ اسرائیل یکم اکتوبر کے ایرانی حملے کا جواب ضرور دے گا تو سہی مگر یہ جوابی حملہ اگر ایرانی ایٹمی و تیل تنصیبات پر کیا جائیگا تو اِس کے نتائج اور مضمرات کیا نکلیں گے ؟اِس موضوع اور ممکنہ خطرے پر دُنیا بھر کے میڈیا میں بہت کچھ لکھا اور کہاگیاہے۔خود اسرائیلی میڈیا بھی خائف رہا ۔ مثال کے طور پر مشہور اسرائیلی اخبارHAARETZنے اپنے ایک تجزیہ کار (Anver Cohen) کے قلم سے یہ مضمون شائع کیا:’’اگر اسرائیل ایران کی ایٹمی تنصیبات پر حملہ آور ہوگا تو یہ اقدام دراصل ایران کو تیزی سے ایٹم بم اسمبل کرنے کے لیے مہمیز ثابت ہوگا۔‘‘

 امریکا کے سابق ممتاز ترین سفارتکار Ryan Crocker(جنہیں امریکا کا ’’لارنس آف عریبیہ بھی کہا جاتا ہے) نے بھی ایک مفصل انٹرویو میں کہا تھا کہ اگر اسرائیل نے ایران کی جوہری و تیل تنصیبات پر حملہ کیا تو ایران ایٹم بم بنانے میں مزید تیزی دکھائے گا۔خدا کا شکر ہے اسرائیل نے عالمی انتباہات پر کان دھرا اور جب اُس نے25 اور 26اکتوبر2024 کی درمیانی شب ایران کے تین شہروں پر میزائلی حملہ کیا تو یہ حملہ ایرانی ایٹمی و آئل تنصیبات پر نہیں تھا۔

حقیقت بہرحال یہی ہے کہ اسرائیل ایرانی خفیہ جنگی صلاحیتوں سے خائف ہے۔اکتوبر2024کے آخری ہفتے پاکستان میں متعین ایرانی سفیر، جناب رضا امیری مقدم، نے ایرانی سفارتخانے میں پاکستانی صحافیوں سے کئی موضوعات پر گفتگو کے دوران یہ بھی کہا:’’ایران کی ملٹری ڈاکٹرائن میں جوہری ہتھیاروں کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ ہم جوہری ہتھیاروں کے بغیر بھی موثر انداز میں لڑ سکتے ہیں۔‘‘ لیکن اسرائیل کا خوف ختم نہیں ہو رہا۔ 2نومبر2024 کو اسرائیلی وزیر اعظم ، نیتن یاہو، نے واویلا مچاتے ہُوئے کہا:’’ ایران ایٹمی ہتھیاروں کے ذخائر اکٹھے کررہا ہے اور یہ لانگ رینج میزائلوں سے ہماری تباہی کے لیے بروئے کار آئیں گے۔‘‘ فی الحقیقت اسرائیل و امریکا پر ایران کی بوجوہ دھاک بیٹھ چکی ہے ۔

بشکریہ روزنامہ جنگ