” چوبیس گھنٹے کا سفر تھا تو آپ نے اے سی سے ریزرویشن کیوں نہیں کرایا؟ “
یہ سوال دورانِ سفر مجھ سے کئی رفقا نے کیا – ہر ایک کو میں نے یہی جواب دیا : ” سلیپر سے ہمارے رفقا بڑی تعداد میں سفر کررہے ہیں – ان سے ملاقات کرتے ہوئے اور ان سے محبت کی سوغات بٹورتے ہوئے پورا وقت کٹ جائے گا اور روحانی سکون بھی ملے گا ، اس لیے میں نے سلیپر میں ریزرویشن کو ترجیح دی – “
یہ موقع ہے جماعت اسلامی ہند کے اجتماعِ ارکان کا ، جو 15-17 نومبر 2024 کو حیدرآباد کے وادئ ھدی میدان میں منعقد ہورہا ہے – جماعت کے متعدد اجتماعات میں شرکت کی مجھے سعادت حاصل ہے ، جن میں سے دو اہم اور قابل ذکر ہیں – ایک اجتماع عام دہلی 1974 ، جب میری عمر 11 برس تھی اور میں درس گاہ جماعت اسلامی ہند رام پور میں ساتویں درجے کا طالب علم تھا – میرے ابو جان گاؤں سے آئے تھے اور مجھے ساتھ لے کر اجتماع میں شریک ہوئے تھے – دوسرا اجتماع عام حیدرآباد ، جو 1981 میں وادئ ھدی ہی میں منعقد ہوا تھا – اس وقت میں دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ میں عالمیت کے آخری سال میں تھا – ہم لوگ گیارہ طلبہ کا قافلہ بناکر ، ندوہ کی انتظامیہ سے اجازت لے کر اور ریلوے سے اسٹوڈنٹس کنسیشن بنواکر شریکِ اجتماع ہوئے تھے – یہ دونوں اجتماعات بڑے یادگاری تھے – ان کی خوش گوار یادیں اب بھی ذہن میں نقش ہیں – اب ، جب کہ عمر کی چھٹی دہائی کو پار کرچکا ہوں ، اس اجتماع میں شرکت کو بھی یادگاری بنانا چاہتا تھا – اللہ تعالیٰ نے کچھ علمی و دینی خدمت کی توفیق دی ہے ، اس کی وجہ سے حلقۂ تعارف وسیع ہوگیا ہے – مزید جماعت اسلامی ہند میں منصبی ذمے داری کی وجہ سے ہر جگہ کے ارکان و کارکنان محبت و عقیدت سے ملتے ہیں – میں نے سوچا کہ سلیپر کلاس میں رہنے سے زیادہ رفقاء سے ملاقات ہوسکے گی –
بھائی انعام الرحمٰن خاں نے میرا ریزرویشن تلنگانہ ایکسپریس سے اپنے ساتھ کرالیا تھا ، جو چار بجے سہ پہر نئی دہلی ریلوے اسٹیشن سے روانہ ہوتی ہے – اسٹیشن پر ہی دہلی کے علاوہ سہارن پور ، مظفر نگر ، ہریانہ ، پنجاب کے رفقا سے ملاقات ہوگئی اور گرم جوشی سے علیک سلیک ہوئی – ٹرین آگرہ پہنچی تو علی گڑھ کے رفقاء بھی سوار ہوئے – اتفاق سے ادارۂ تحقیق و تصنیف اسلامی کے رفقا کا ریزرویشن ہمارے ہی کوچ میں تھا – ان سے اسی وقت ملاقات کی اور احوال دریافت کیے –
اہلیہ نے کھانا دو تین افراد کا مزید رکھ دیا تھا اور تاکید کی تھی کہ سب رات ہی میں کھالیں گے اور دوسروں کو کھلا دیں گے ، کچھ بچاکر نہیں رکھیں گے – یہاں حال یہ تھا کہ ہر رفیق اپنا کھانا اور کچھ زائد لے کر آیا تھا اور دوسروں کو اپنے کھانے میں شریک کرنے کا خواہش مند تھا – ہمیں بھی ہریانہ کے رفقاء نے کھانے کے دو پیکٹ پکڑائے اور منع کرنے کا موقع ہی نہ دیا –
صبح فجر کی نماز کے بعد (پطرس بخاری کے الفاظ میں ‘سونا نمبر 2’ شروع کیا تو آٹھ بجے ‘اٹھنا نمبر 2’ ہوا – اس سے پہلے کئی بار کانوں میں آواز پڑتی رہی : ” مولانا رضی الاسلام ندوی کہاں ہیں؟ “، ” مولانا رضی الاسلام ندوی یہی ہیں؟ “ بالآخر سوچا کہ رفقا کو زیادہ پریشان کرنا ٹھیک نہیں ، اس لیے اٹھ بیٹھا – ٹرین کے تقریباً ہر ڈبّے میں رفقا موجود تھے ، راستے میں بھی مختلف اسٹیشنوں سے سوار ہوتے رہے – اسی لیے ہمارے ایک ساتھی ( شبلی ارسلان ، ایڈیٹر ماہنامہ کانتی نئی دہلی) نے اپنی پوسٹ میں لکھا کہ ایک دن کے لیے اس ٹرین کا نام اجتماع ارکان کی مرکزی تھیم کے مطابق ‘عدل و قسط ایکسپریس’ رکھ دینا چاہیے –
ناشتہ سے فارغ ہوکر سوچا کہ رفقا سے ملاقات کرلی جائے – سلیپر کے 7 ڈبے ، اے سی تھری ٹائر کے 7 ڈبے ، اے سی ٹو ٹائر کے 2 ڈبّے – ہر ڈبے میں جاکر ملاقات کی – رفقا بہت محبت سے ملے – انھوں نے کھانے پینے کی چیزوں کے ذریعے تواضع کی – مٹھائی ، حلوہ ، پیٹھا ، کھجور ، سیب ، کیلا ، امرود ، میٹھے بسکٹ ، نمکین بسکٹ اور دیگر انواع و اقسام کی چیزوں سے خاطر مدارات کی – ہر جگہ شریعہ کونسل کا سکریٹری ہونے کا تعارف تھا تو کئی رفقا نے فقہی سوالات کیے ، جن کے جوابات دیے – ایک عزیزہ نے میسیج کیا :” چچا میاں! آپ کی ایک جھلک دیکھی ہے – آپ سے ملنے کی بہت خواہش مند ہوں – “ میں نے جواب دیا :” اپنی سیٹ پر رہیے – میں خود آتا ہوں – “ میں پہنچا تو انھوں نے اپنی بہن اور خاندان کے دیگر افراد سے ملاقات کروائی – کھلایا پلایا اور آٹو گراف بھی لیا –
پورا سفر اسی طرح کٹ گیا – جوں جوں حیدرآباد قریب آرہا ہے ، دل کی دھڑکن تیز ہو رہی ہے – ہم دیارِ شوق میں پہنچیں گے ، جہاں پورے ملک سے سولہ ہزار سے زائد ارکانِ جماعت جمع ہورہے ہیں ، جو ایک نصب العین رکھتے ہیں ، جن کے دلوں میں احیائے اسلام اور غلبۂ اسلام کا جذبہ موج زن ہے – ان کے ساتھ تین دن و رات گزار کر کتنا اچھا لگے گا؟! کل ہند سطح پر جماعت کی سرگرمیوں سے واقفیت حاصل ہوکر ہمارے خون میں بھی کچھ گرمی آئے گی ، ان شاء اللہ –