سپریم کورٹ ، آئینی بینچ نے 18میں سے 15درخواستیں نمٹادیں،3 درخواست گزاروں کو جرمانہ


اسلام آباد(صباح نیوز)26ویں آئینی ترمیم کے تحت قائم سپریم کورٹ آف پاکستان کے آئینی بینچ نے کام شروع کردیا۔ آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں جسٹس جمال خان مندوخیل ،جسٹس محمد علی مظہر ، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس نعیم اخترافغان پر مشتمل6رکنی بینچ نے ڈیڑھ گھنٹے میں 18کیسز کی سماعت مکمل کرلی۔عدالت نے 18میں سے 15درخواستیں نمٹادیں جبکہ تین درخواستوںپر سماعت ملتوی کردی۔ تین درخواست گزاروں کو بے بنیاد درخواستیں دائر کرنے پر 60ہزارروپے جرمانہ کردیا۔ جبکہ آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے ہیں کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس میں سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ کی قانون سازی کے اختیار کو تسلیم کیا ہے۔

بینچ نے سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی بطور چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ تقرری کے خلاف دائر نظرثانی درخواست خارج کردی۔ جبکہ جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ مقدمہ قانونی کم اور سیاسی زیادہ لگ رہا ہے، کیسز میں پرسنل نہ ہوا کریں ، چھوڑ دیں قاضی صاحب کی جان۔عدالت نے سرکاری ملازمین کی غیر ملکیوں سے شادیوں کے خلاف درخواست خار ج کردی۔جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے ہیںکہ کیا غیر ملکیوں سے شادی کرنا منع کردیا جائے، کون سے قانون کے تحت شادی نہیں ہوسکتی۔ جبکہ جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دئے ہیں کہ قرآن مجید میں غیرملکیوں سے شادی نہ کرنے کے حوالہ سے کون سی سورة ہے وہ بتادیں۔ڈاکٹر عارف علوی کی بطور صدر مملکت تقرری کے خلاف دائر درخواست پر آئینی بینچ نے درخواست گزار کو دوبارہ سماعت کا نوٹس جاری کر تے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔

بینچ نے ماحولیاتی آلودگی سے متعلق اٹھائے گئے اقدامات پر تمام صوبوں سے رپورٹ طلب کر لی جبکہ عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل چوہدری عامر رحمان کی استدعا سماعت تین ہفتوں کیلئے ملتوی کرددی۔ جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں بینچ نے سپریم کورٹ کے کمرہ عدالت نمبر 3میں مقدمات کی سماعت کی۔ آئینی بینچ  میں ماحولیاتی آلودگی سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ماحولیات سے متعلق تمام معاملات کو دیکھیں گے،جسٹس مسرت ہلالی کاکہناتھا کہ ملک میں ہر جگہ ہائوسنگ سوسائٹیز بنائی جارہی ہیں۔، جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ جسٹس نسیم حسن شاہ کو خط میں لکھا گیا تھا کہ اسلام آباد کو صنعتی زون بنایا جا رہا ہے، ماحولیاتی آلودگی صرف اسلام آباد نہیں پورے ملک کا مسئلہ ہے،گاڑیوں کا دھواں ماحولیاتی آلودگی کی بڑی وجہ ہے کیا دھوئیں کو روکنے کی کوشش کی جارہی ہے۔جسٹس نعیم اخترافغان کاکہناتھا کہ ہائوسنگ سوسائٹیوں کے باعث کھیت کھلیان ختم ہورہے،کاشت کاروں کو تحفظ فراہم کیاجائے، قدرت نے زرخیز زمین دے رکھی ہے لیکن سب اسے ختم کرنے پر تلے ہوئے، آپ اپنی نسلوں کے لیے کیا کرکے جارہے ہیں۔جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھاکہ پنجاب کی حالت دیکھیں سب کے سامنے ہے، اسلام آباد میں بھی چند روز قبل ایسے ہی حالات تھے۔جسٹس محمد علی مظہر کا کہناتھاکہ انوائرمنٹ پروٹیکشن اٹھارٹی اپنا کردار ادا کیوں نہیں کررہا؟1993 سے معاملہ چل رہاہے، اب ختم کرنا ہوگا۔

جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہناتھاکہ پورے ملک کو ماحولیات کے سنجیدہ مسلے کا سامنا ہے، پیٹرول میں کچھ ایسا ملایا جاتاہے جو آلودگی کا سبب بناتاہے۔جسٹس مسرت ہلالی کا کہناتھا کہ مانسہرہ میں جگہ جگہ پولٹری فارم اور ماربل فیکٹری کام کررہی ہیں،سوات میں چند ایسے خوبصورت مقامات ہیں جو آلودگی کا شکار ہوچکے ہیں۔بینچ نے ماحولیاتی آلودگی سے متعلق اٹھائے گئے اقدامات پر تمام صوبوں سے رپورٹ طلب کر لی۔جبکہ عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل چوہدری عامر رحمان کی استدعا سماعت تین ہفتوں کیلئے ملتوی کردی۔ بینچ نے سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی بطور چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ تعیناتی کے معاملہ  پر دائر نظرثانی درخواست پر سماعت کی۔ دوران سماعت جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ یہ نظرثانی درخواست ہے، کیس کو دوبارہ نہیں کھول سکتے۔ جس پر درخواست گزار کے وکیل ریاض حنیف راہی نے کہا کہ سپریم کورٹ نے بھٹو کیس بھی 40 سال بعد سنا۔

جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ یہ فورم سیاسی تقاریر اور نہ بیک بائٹنگ کا ہے، قانون سے نہیں ہٹ سکتے، درخواست گزار کے وکیل نے پھر کچھ کہنا چاہا تو جسٹس محمد علی مظہر نے روکتے ہوئے کہا کہ آپ غصے میں کیوں آ رہے؟ عدالت کی بات سنیں۔جسٹس امین الدین نے استفسار کیا کہ عدالت آپ سے سوالات پوچھ رہی ہے لیکن آپ جواب کیوں نہیں دے رہے؟جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ آپ کیس دوبارہ کھولنا چاہتے ہیں؟ جس پر درخواست گزار وکیل ریاض حنیف نے جواب دیا کہ میں عدالت کو حقائق بیان کررہا ہوں، میرے پاس ریکارڈ نہیں لیکن بلوچستان سے ریکارڈ منگوایا جاسکتا ہے۔جسٹس امین الدین نے کہا کہ قانون بتائیں کہ وزیراعلی کے ساتھ مشاورت کیسے ضروری ہے؟ جسٹس مسرت حلالی نے کہا کہ کیسز میں پرسنل نہ ہوا کریں، چھوڑ دیں قاضی صاحب کی جان۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ایسی درخواست پر بینچ کے سربراہ سے درخواست کروں گا کہ معاملہ وکیل کے خلاف کارروائی کے لئے پاکستان بار کونسل کو بھیجیں۔جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ مقدمات میں ذاتیات پر نہیں آتے، یہ مقدمہ قانونی کم اور سیاسی زیادہ لگ رہا ہے، پیٹھ پیچھے کسی کی برائی کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔بعدازاں عدالت عظمی کے آئینی بینچ نے قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دائر نظرثانی درخواست خارج کر دی۔آئینی بینچ نے عام انتخابات 2024 ری شیڈول کرنے سے متعلق درخواست پر سماعت کی۔دوران سماعت ایڈیشنل اٹارنی جنرل چوہدری عامررحمان نے مئوقف اپنایا کہ انتخابات ہوچکے ہیں یہ درخواست غیر مئوثر ہوچکی ہے، جس پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ وکیل نہیں آئے ان پر بھاری جرمانہ ہونا چاہیے ۔

بعد ازاں عدالت نے عام انتخابات 2024 ری شیڈول کرنے کی درخواست خارج کر دی جبکہ آئینی بینچ نے درخواست غیرمئوثر ہونے پر خارج کی۔دوسری جانب سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے غیر ملکی اثاثوں اور بینک اکائونٹس کے خلاف درخواست 20 ہزار جرمانے کے ساتھ خارج کردی۔سپریم کورٹ میں غیرملکی اثاثوں اور بینک اکائونٹس کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی۔جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ قانون سازی کرنا پارلیمنٹ کا کام ہے، الیکشن کمیشن غیرملکی اکائونٹس اور اثاثوں پر قانون سازی کیسے کرسکتا ہے۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ درخواست گزار نے درخواست میں کوئی قانونی بات نہیں کی، جس پر درخواست گزار مشتاق اعوان نے کہا کہ میرا موقف ہے کہ غیر ملکی اثاثوں بنک اکانٹس پر الیکشن لڑنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے ۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اس معاملے پر قانون سازی کرنا پارلیمنٹ کا کام ہے، کن لوگوں کے غیر ملکی اثاثے یا بینک اکائونٹس ہیں کسی کا نام نہیں لکھا۔

جسٹس مندوخیل مندوخیل نے کہا کہ پارلیمنٹ کو قانون سازی کرنے کا نہیں کہہ سکتے۔ جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ معاملے پر قانون سازی کے لیے درخواست گزار اپنے حلقہ کے منتخب نمائندہ سے رجوع کرے جبکہ بینچ نے سرکاری ملازمین کی غیرملکی شہریت والوں سے شادی کے خلاف درخواست خارج کردی۔ درخواست گزار محمود اختر نقوی ویڈیو لنک پرسپریم کورٹ کراچی رجسٹری سے پیش ہوئے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ یہ پارلیمنٹ کا اختیار ہے عدالت کیسے کسی کو منع کرے۔جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ جو درخواست گزار کی استدعا ہے کیا ایسا ممکن ہے؟ کیا کسی سرکاری ملازم کو غیر ملکی سے شادی سے روکا جاسکتا ہے؟ اگر روکنے کا قانن موجود ہے تو وہ قانون بتادیں ؟اس پر درخواست گزار محمود اختر نقوی نے کہا کہ میں سخت بیمار ہوں مجھے وقت دیا جائے، میں نے 26 ویں آئینی ترمیم کے حق میں بھی درخواست دائر کر رکھی ہے۔

جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ غیر ملکیوں سے شادی سے قرآن پاک میں کہیں منع کیا گیا ہے تو بتا دیں، کس سورة میں منع کیا گیا ہے۔اس پر درخواست گزار محمود اختر نقوی نے کہاکہ میں نے پی ڈی ایم حکومت کی قانون سازی کو بھی چیلنج کیا ہے،آئینی بینچ نے سرکاری ملازمین کی غیرملکی شہریت والوں سے شادی کے خلاف اور پی ڈی ایم حکومت کی قانون سازی کے خلاف درخواست خارج کردیں۔آئینی بینچ نے درخواست گزار محمود اختر نقوی کو 40 ہزار روپے جرمانہ کردیا۔ بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین نے کہا کہ آپ کی 2 درخواستیں ہیں دونوں پر 20،20 ہزار جرمانہ عائد کر رہے ہیں۔عارف علوی کی بطور صدر مملکت تقرری کے خلاف دائر درخواست پر آئینی بینچ نے درخواست گزار کو دوبارہ سماعت کا نوٹس جاری کر دیا۔عدالتی عملے نے بتایا کہ درخواست گزار کو بھیجے گئے نوٹس کی سروس نہیں ہوسکی۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ ایسی درخواستیں جرمانے کے ساتھ خارج ہوں تو ہی حوصلہ شکنی ہوگی۔بینچ نے دوبارہ نوٹس جاری کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی۔بینچ نے ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈر نظرثانی درخواست پرسماعت کی۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کیس کی سماعت کرتے ہوئے کہا کہ یہ معاملہ تو اب غیرمئوثر ہو چکا ہے۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے دلائل میں کہا کہ پارلیمنٹ کی قانون سازی کے اختیار پر عدالتی فیصلے میں آبزرویشن دی گئی ہے، پارلیمنٹ کے اختیار پر اٹھائے گئے سوال کی حد تک نظرثانی چاہتے ہیں۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے مسکراتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ اب تو آپ نے آئین میں بھی ترمیم کرلی۔ جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیئے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس میں سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ کی قانون سازی کے اختیار کو تسلیم کیا ہے۔

آئینی بینچ نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس میں پارلیمنٹ کی قانون سازی بارے اصول طے ہے۔ بینچ نے کیس غیرمئوثر ہونے کے سبب نمٹا دیا۔آئینی بینچ نے مولوی اقبال حیدر کی پانچ سال تک سپریم کورٹ داخلے پر پابندی کے خلاف درخواست بھی نمٹا دی۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ آپ کی پابندی کی حد ختم ہوچکی ہے، کہیں آپ پابندی میں توسیع کے ارادے سے تو نہیں آئے۔ مولوی اقبال حیدر نے جواب دیا کہ نہیں میرا یہ ارادہ نہیں ۔