فصلوں کو پرندوں سے بچانے کے لیے پُتلے نصب کرنے کا سلسلہ بہت پرانا ہے۔ پُتلا خود حرکت کرنے کے قابل نہیں ہوتا لیکن اوپر منڈلاتے پرندے اسی خوف کا شکار رہتے ہیں کہ جیسے ہی نیچے اترے دبوچ لیے جائیں گے۔ کبھی کبھی تو لگتا ہے کہ عمران خان کو بھی اسی مقصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اگرچہ وہ جیل میں ہیں لیکن ان کی مقبولیت میں کمی نہیں آئی یا آنے نہیں دی جا رہی، جانے انجانے میں قیدی نمبر 804 کا تذکرہ بھی معمولات زندگی کا حصہ بن چکا ہے۔ پرانے حمایتی تو ساتھ تھے ہی، لیکن اب تو اپنی حکومت اور لیڈروں کی حرکات کو دیکھ کر مخالفین کی بڑی تعداد بھی سوچ میں پڑ گئی ہے کہ کہیں اور کا رخ کرے، ایسے لوگوں کی بڑی تعداد سیاست سے ہی بد ظن ہوتی جا رہی ہے۔ شومئی قسمت کہ آپشن محدود ہیں اور اب تک یہی وجہ خصوصاً حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے لیے دفاعی حصار کا کام دے رہی ہے۔ ایسا کب تک چلے گا؟ مالی مشکلات، سماجی مسائل اور ان دنوں سموگ سے بھری زہر آلود فضا میں سانس لینے والے عام لوگ اقتدار کے تمام مراکز کو کوستے نظر آ رہے ہیں۔ دوسری جانب پی ٹی آئی کے پُرجوش کارکن ہیں جو ہر بار ٹرک کی بتی کے پیچھے لگ جاتے ہیں اور اب اپنے لیڈر کی رہائی کے لیے تمام امیدیں نو منتخب امریکی صدر ٹرمپ سے وابستہ کیے ہوئے ہیں۔ کوئی یہ سوچنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کر رہا کہ تعلقات شخصیات نہیں ممالک کے درمیان ہوتے ہیں۔ جو لوگ جنرل مشرف کے دور میں امریکہ اور عرب ممالک کے دباؤ پر نواز شریف کی جدہ جلا وطنی کی مثال دیتے ہیں وہ اس حقیقت کو فراموش کر بیٹھے ہیں کہ این آر او کے لیے چند لازمی شرائط ہوتی ہیں۔ این آر او کسی کا کسی پر احسان نہیں ہوتا۔ فریقین خود کو مشکل حالات میں جکڑا ہوا محسوس کرتے ہیں تو باہمی رضا مندی سے ایک دوسرے کو راستہ دینے کا طریقہ ڈھونڈا جاتا ہے۔ ایٹمی دھماکوں، کارگل لڑائی جیسے غیر معمولی واقعات کے سبب صورتحال بھی غیر معمولی ہو چکی تھی۔ جنرل مشرف پوری سنجیدگی کے ساتھ نواز شریف کو تختہ دار تک لے جانا چاہتے تھے لیکن حالات کا جبر دونوں فریقوں کو این آر او کی جانب لے گیا۔ معاہدے کے سہولت کار دنیا کے بڑے، بااثر اور امیر ممالک تھے ان کو اعتماد میں لے کر شرائط طے کی گئیں اور گارنٹیاں بھی حاصل کی گئیں۔ یہ واقعہ کیسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے کہ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی ججز بحالی تحریک کی کامیابی کے بعد ایک موقع پر نواز شریف نے پاکستان آ کر معاہدے کی خلاف ورزی کی تو اسلام آباد ائر پورٹ سے ہی جدہ واپس بھجوا دیا گیا تھا۔ سعودی عرب کے ایک اہم وزیر نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کر کے اس اقدام کا دفاع کیا۔ عمران خان کا معاملہ یکسر مختلف ہے ملکی و انٹرنیشنل میڈیا، سوشل میڈیا اور گولڈ سمتھ ہاؤس کے عالمی اثر و رسوخ، بھاری رقوم خرچ کے لابیوں کے ذریعے بیرونی ممالک کی پارلیمنٹس میں اپنے حق میں قرار دادیں منظور کرانے کے باوجود کوئی ملک ان کی گارنٹی دینے کو تیار نہیں۔ ریاست پاکستان کی بھی ایسی کوئی مجبوری نہیں کہ وہ این آر او پر آمادہ ہو جائے۔ موجودہ صورتحال اسٹیبلشمنٹ سے زیادہ کس کو سوٹ کرتی ہو گی؟ جیل میں پڑا قیدی اگر لٹکتی ہوئی تلوار ہے تو سول حکومت کے سر پر ہے۔ اِدھر ادھر نگاہیں دوڑایں تو صاف پتہ چلتا ہے کہ پی ٹی آئی کو بنانے، پروان چڑھانے اور اقتدار میں لانے کے لیے مختلف شعبوں میں جن عناصر کو ٹریننگ دے کر تیار کیا گیا تھا وہ اسی طرح سے اپنی ڈیوٹیاں کر رہے ہیں۔ ان میں سے میڈیا میں جو کوئی اپنی غلطی سے حدود کراس کر بیٹھا تو اسے گیلا تیر بنا دیا گیا۔ اب اگر اسے پھر چھوٹ حاصل ہے تو وہ صرف حکومت پر یا اسٹیبلشمنٹ کی نا پسندیدہ شخصیات پر تبرا کرنے کے سبب حاصل ہے یعنی جوائنٹ ونچر چل رہا ہے۔ اسی طرح کچھ ججوں نے اپنے گھر والوں کی فرمائش یا غیر ملکی لابیوں کے بہکاوے میں آ کر اوقات سے باہر نکلنے کی کوشش کی تو انہیں شٹ اپ کال کے ساتھ سخت جھٹکا بھی دے دیا گیا۔ جن حلقوں نے اپنے ہاتھوں سے تراشے ہوئے عثمان بزدار کو ارشاد بھٹیوں سے ذلیل کرایا، اب وہی موجودہ حکمرانوں کی درگت بنوا رہے ہیں۔ یقینا موجودہ حکمران بزدار کی طرح کمزور، خاموش طبع نہیں لیکن سیاسی عمل سے ان کی لاتعلقی نے انہیں غیر مقبول کر کے کارنر دیا ہے۔ اپنے خلاف ہونے والے پراپیگنڈے کی اسی فیصد ذمہ داری انہی پر عائد ہوتی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ان کی سیاست کا خاتمہ ہی ہو جائے۔ رہ گیا کپتان تو اس کا کردار اب بھی موجود ہے لیکن اقتدار کے لیے نہیں بلکہ سیاسی میدان میں نصب پتلے کی مانند تا کہ حکومتی پرندے ڈرتے رہیں۔ عمران خان کی رہائی کے لیے پی ٹی آئی کی خواہش کو پورا کرنے کے لیے ٹرمپ سنجیدہ بھی ہوں تب بھی این آر او آسانی سے نہیں ملے گا۔ ٹرمپ نے بے شک واضح سبقت سے الیکشن جیت لیا لیکن دنیا کی غالب اکثریت انہیں سنجیدہ شخصیت تصور ہی نہیں کرتی۔ ٹریک ریکارڈ گواہ ہے ٹرمپ ہر کسی کو اپنا دوست قرار دے دیتے ہیں۔ بعید از قیاس نہیں کہ وزیر اعظم شہباز شریف فون کال ملانے میں کامیاب ہو جائیں تو ٹرمپ انہیں بھی جگری یار کہہ کر مخالفین کے ارمانوں پر اوس ڈال دیں۔ پی ٹی آئی کی ہر احتجاجی تحریک ناکام ہو رہی ہے اب 24 نومبر کو ’’مارو یا مر جاؤ‘‘ کا نعرہ لگا کر فائنل کال دی گئی ہے۔اس کا نتیجہ بھی دیکھ لیتے ہیں۔ مکرر عرض ہے این آر او حاصل کرنا آسان نہیں اور احتجاجی تحریک سے حکومت کو گرانا انتہائی مشکل، اسٹیبلشمنٹ سے ٹکرانا خود اپنا ماتھا پھوڑنے کے مترادف ہے۔ عمران خان اور پی ٹی آئی کو جب تک سیاسی منظر نامے میں اپنے اصل کردار کا درست اندازہ نہیں ہوتا ان کے مسائل کم نہیں ہوں گے۔ عمران، ٹرمپ دوستی کے دعوے کرنے والے اتنا بھی نہیں جانتے؟
دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا
بشکریہ روزنامہ ننی بات