اسلام آباد(صباح نیوز)سپریم کورٹ آف پاکستان نے9مئی2023واقعہ کے ملزم پاکستان تحریک انصاف کے پنجاب اسمبلی کے حلقہ 155لاہورسے رکنی صوبائی اسمبلی امتیاز محمود کی درخواست ضمانت قبل ازگرفتاری منظورکرلی۔ عدالت نے دولاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض درخواست ضمانت منظورکی۔ عدالت نے درخواست پر پنجاب حکومت کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی۔
جبکہ سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے ہیں کہ ہم ضمانت ہی نہیں بلکہ ایف آئی آر ہی خارج کردیتے ہیں، مثبت چیزوں کو مثبت لیا کریں اور منفی نہ بنایا نہ کریں،کتنے منٹ ضمانت ملنے میں لگے ہیں کیوں عدالتوں کو بدنام کرتے ہیں۔ پیشہ وارانہ انداز میں کیس چلائیں۔جبکہ جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے کہ پی ٹی آئی والے سپریم کورٹ کو ہلکا لے رہے ہیں۔ پشاور سے کیوں ضمانت کروائی ، یہاں عدالتیں موجود نہیں۔ پی ٹی آئی کاہیڈآفس چمکنی میں ہے جہاں پارٹی انتخابات کروائے تھے۔ جبکہ جسٹس ملک شہزاداحمد خان نے ریمارکس دیئے ہیں کہ گھر جاکر دعاکریں اللہ تعالیٰ سب کی بہتری کرے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل کی سربراہی میں جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس ملک شہزاداحمد خان پر مشتمل 3رکنی بینچ نے بدھ کے روز 9مئی 2023کے واقعہ کے نامزد ملزم رکن پنجاب اسمبلی امتیاز محمود کی درخواست ضمانت قبل ازگرفتاری پرسماعت کی۔درخواست گزار کی جانب سے سپریم کورٹ کے سینئر وکیل اوررکن قومی اسمبلی سردار محمد لطیف خان کھوسہ بطو ر وکیل پیش ہوئے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے سماعت کے آغاز پر سردار لطیف کھوسہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیابدنیتی ہے۔سردار لطیف کھوسہ کاکہنا تھاکہ میرے مئوکل رکن پنجاب اسمبلی ہیں، پی ٹی آئی لاہور کے صدر ہیں اور پارٹی کے لئے آواز بلند کرتے ہیں، ایف آئی آر میں نام شامل نہیں تھا لیکشن سپلیمنٹری چالان میں نام شامل کیا گیا۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ الزامات کیا ہیں۔ سردار لطیف کھوسہ کاکہنا تھا کہ درخواست گزارپرالزام ہے کہ اس نے 9مئی2023کو پی ٹی آئی قیادت کی ہدایات پر 1400سے1500افراد کے ہمراہ لاہور میں راحت بیکری کے سامنے سڑک بلاک کی۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاوکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھا کہ یہاں پر ہمارے ساتھ زیادتی کررہے ہیں، جس سپلیمنٹری چالان میں نام شامل کیا گیا اس کی کاپی ہمارے سامنے موجود نہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ سیدھی سیدھی بات ہے درخواست خار ج ہوتی ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہناتھا کہ خود اپنے ساتھ غلط کررہے ہیں پھر کہتے ہیں عدالت زیادتی کررہی ہے، اس طرح نہ کیس چلتا ہے اور نہ ریلیف ملتا ہے، اس بنیاد پر درخواست خارج ہوتی ہے۔ سردارلطیف کھوسہ کاکہناتھا کہ درخواست گزارنے لاہور ہائی کورٹ میں اپنے خلاف درج مقدمات کی تفصیل حاصل کرنے کے لئے درخواست دی اورفراہم کردہ تفصیلات میں یہ کیس شامل نہیں تھا۔
جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہناتھا کہ کیا درخواست میں یہ لکھا ہے کہ سپلیمنٹری چالان کی کاپی مانگی اوروہ نہیں ملی، اپنی خامیوں کے لئے عدالت کوذمہ دار ٹھہراتے ہیں، کیسے درخواست دائر کی،جب تک سپلیمنٹری چالان کی کاپی نہ ہوکیسے درخواست دائر کی۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کمرہ عدالت میںموجود درخواست گزارکوروسٹرم پرطلب کرتے ہوئے پوچھا کہ آپ کب اس کیس کا پتہ چلا ، کیسے پتہ چلا کہ نام ایف آئی آر میں شامل ہے۔ امتیاز محمود کاکہناتھا کہ 10جون2023کو پتہ چلا۔درخواست گزار کاکہناتھا کہ انہوں نے سب کیسز میں ضمانت قبل ازگرفتاری کروارکھی تھی۔
جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہناتھا کہ سپلیمنٹری چالان کی کاپی کے لئے کوئی درخواست دی ہے۔ اس پر سردار لطیف کھوسہ کاکہناتھاکہ میرے مئوکل کے خلاف کوئی چالان پیش ہوا ہی نہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہناتھا کہ درخواست گزار نے نہ سیشن کورٹ اور نہ ہائی کورٹ میں درخواست میںلکھا کہ انہوں نے سپلیمنٹری چالان کی کاپی مانگی اوروہ نہیں ملی۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاسردارلطیف کھوسہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ پیشہ وارانہ انداز میں کیس چلائیں، آپ استاد ہیں اور کالجز میں پڑھاتے ہیں۔ سردار لطیف کھوسہ کاکہناتھاکہ مجھے چالان کی کاپی گزشتہ شام ہی ملی تھی۔
اس پر جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہناتھا کہ اگرمیں وکیل ہوتا اور میرے پاس چالان کی کاپی تومیں فوری طور پر اسے عدالت میں جمع کروادیتا۔ سردار لطیف کھوسہ کاکہناتھا کہ کور کمانڈر ہائوس لاہور پر حملے کے کیس میں ملزم کی درخواست ضمانت قبل ازگرفتاری منظور ہوچکی ہے۔ سردار لطیف کھوسہ کاکہناتھاکہ اس کیس میں درخواست گزار پر راحت بیکری کے سامنے روڈ بلاک کرنے کاالزام ہے۔ سردارلیطف کھوسہ کاکہناتھا کہ درخواست گزاررکن پنجاب اسمبلی ہیں، ان کے خلاف کوئی شواہد موجود نہیں، کیس میں نام بدنیتی کی بنیاد پر شامل کیا گیا ہے۔
عدالت نے پنجاب حکومت کو نوٹس جاری کرتے ہوئے درخواست گزار کی ضمانت قبل ازگرفتاری 2لاکھ روپے کے مچلکوں کے عو ض منظور کرلی۔سردار لطیف کھوسہ کاکہناتھا کہ وہ ضمانتی مچلکے ٹرائل کورٹ میں جمع کروائیں گے۔ سردار لطیف کھوسہ کاکہناتھا کہ میں کبھی عدالت کے سامنے اپنے مئوکل کے لئے جھوٹ نہیں بولا۔ جسٹس مسرت ہلالی کاکہناتھا کہ پی ٹی آئی والے سپریم کورٹ کو ہلکا لے رہے ہیں۔
جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہناتھا کہ کتنے منٹ ضمانت ملنے میں لگے ہیں کیوں عدالتوں کو بدنام کرتے ہیں۔ جسٹس مسرت ہلالی کاکہناتھا کہ پی ٹی آئی کاہیڈآفس چمکنی میں ہے جہاں پارٹی انتخابات کروائے تھے۔ جسٹس ملک شہزاداحمد خان کاکہناتھا کہ گھر جاکر دعاکریں اللہ تعالیٰ سب کی بہتری کرے۔ جسٹس مسرت ہلالی کاکہناتھا کہ پشاور سے کیوں ضمانت کروائی ، یہاں عدالتیں موجود نہیں۔ سردارلطیف کھوسہ کاجسٹس مسرت ہلالی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ کے وطن سے ٹھنڈی ہوائیں آتی ہیں یاسپریم کورٹ سے ریلیف ملتا ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہناتھا کہ ہم ضمانت ہی نہیں بلکہ ایف آئی آر ہی خارج کردیتے ہیں، مثبت چیزوں کو مثبت لیا کریں اور منفی نہ بنایا نہ کریں۔