اسلام آباد(صباح نیوز) سابق وفاقی وزیر سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ بنگلہ دیش میں تاریخی تبدیلی آئی ہے۔ تبدیلی نے جنوبی ایشیا کے سٹریٹجک منظر نامے کو تبدیل کر کے پاکستان کے لیے تاریخی مواقع کھولے ہیں۔ اسلام آباد لٹریچر فیسٹیول میں’پاکستان-بنگلہ دیش تعلقات’ کے ایک پینل میں مشاہد حسین نے کہا کہ بنگلہ دیش کے لوگ ہندوستان نواز حسینہ واجد حکومت کے خلاف طلبہ انقلاب کو ‘دوسری آزادی’ کہتے ہیں’۔
مشاہد حسین نے کہا کہ بنگلہ دیش میں حالیہ انقلاب پاکستان کے لیے تین گنا تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ سب سے پہلے، انقلاب 1971 کے دردناک باب کو بند کرتا ہے، جہاں ہندوستانی بیانیہ اب آخر کار دفن ہو چکا ہے۔ دوسرا، بنگلہ دیش کی ایک نئی شناخت اب ابھری ہے، جو مسلم بنگال کی شناخت ہے، جس کی جڑیں 1947 میں دو قومی نظریہ کی بنیاد پر آزادی کی مشترکہ جدوجہد سے جڑی ہیں۔ اس لیے یہ کوئی حادثہ نہیں کہ 1971 کے بعد پہلی بار ڈھاکہ میں حال ہی میں قائد اعظم محمد علی جناح کی برسی منائی گئی۔ تیسرا، اب پاکستان بنگلہ دیش کے درمیان بھائی چارے، دوستی اور اسٹریٹجک پارٹنرشپ کی بحالی کا ‘زندگی بھر کا موقع’ ہے.
انہوں نے دونوں برادر ممالک کے درمیان ویزا فری سفر اور کھلی تجارت اور سرمایہ کاری کو کھولنے پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور بنگلہ دیش آپس میں نال سے بندھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے دونوں ممالک کے درمیان نوجوانوں اور طلبا کے تبادلے پر زور دیا۔ سینیٹر مشاہد حسین نے کہا کہ بھارت کی پاکستان اور بنگلہ دیش دونوں سے نظریاتی دشمنی ہے