’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘ ہمارے گروپ میں ان کے پوتے‘ پوتیاں ‘ نواسے اور نواسیاں ہوتی تھیں‘‘ یہ مختصر حکایت کا آغاز تھا‘ یہ حکایت امریکا کے ایک کینسر اسپیشلسٹ نے لکھی‘دنیا کے نامور ماہ نامے ’’ریڈرز ڈائجسٹ‘‘ نے کچھ عرصہ پہلے 22 کام یاب لوگوں کے ایسے واقعات شایع کیے جنھوں نے ان کی زندگی میں انتہائی اہم کردار ادا کیا‘
یہ واقعات بنیادی طور پر وہ مشورے ہیں جو مختلف حضرات نے ان لوگوں کو مختلف ادوار میں دیے‘ ان لوگوں نے ان مشوروں کو پلے باندھ لیا اور یہ مشورے بعدازاں کام یاب لوگوں پر زندگی کے بند دروازے کھولتے چلے گئے‘ ریڈرزڈائجسٹ نے یہ بائیس مشورے ایک جگہ جمع کیے اور اسے ’’آرٹ آف لیونگ ‘‘یعنی ’’زندگی گزارنے کا فن‘‘ کا نام دے دیا‘
یہ 22 مشورے واقعی شان دار ہیں لیکن مجھے ڈاکٹر خورشید گرو کے مشورے نے زیادہ متاثر کیا‘ ڈاکٹر خورشید کا کہنا تھا ’’ میں ہمالیہ میں واقع علاقے کشمیر میں پیدا ہوا‘ ہمارے دادا اپنے تمام پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کو اپنے سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘ باغ میں پرندے چونچوں سے سیب خراب کر جاتے تھے‘ سیب داغی ہو جاتے تھے اور یہ داغی سیب مارکیٹ میں نہیں بیچے جا سکتے تھے‘ ہمارے دادا یہ داغی سیب توڑتے‘ چاقو سے سیب کا خراب حصہ کاٹ کر پھینکتے اور صاف حصہ ہمیں کھانے کے لیے دے دیتے۔
ہمیں دادا کی یہ حرکت بری لگتی تھی‘ ہم انھیں کنجوس سمجھتے تھے‘ میں نے ایک دن ڈرتے ڈرتے دادا سے پوچھا‘ دادا جی آپ ہمیں خراب سیب کیوں کھلاتے ہیں‘ دادا جی مسکرائے‘ میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور پیار سے بولے‘ بیٹا میں آپ لوگوں کو باغ کے سب سے اچھے سیب کھلاتا ہوں‘ میں نے پوچھا‘ وہ کیسے؟ داداجی نے جواب دیا‘ بیٹا پرندے باغ کے صرف پکے اور میٹھے سیبوں کو چونچ مارتے ہیں‘ یہ کبھی کچے‘ پھیکے اور کڑوے پھلوں کو زخمی نہیں کرتے۔
میں ہمیشہ تم لوگوں کے لیے ایسے سیب تلاش کرتا ہوں جن کا ایک حصہ پرندے کھا چکے ہوتے ہیں کیوںکہ یہ سیب پکا بھی ہو تا ہے اور میٹھا بھی‘‘۔ ڈاکٹر خورشید کے بقول دادا کے جواب نے مجھے حیران کر دیا‘ میں نے اس واقعے سے ایک نتیجہ اخذ کیا‘ یہ نتیجہ میری زندگی کا بہترین منترا تھا‘
میں نے دادا جی کے جواب سے سیکھا ’’ کبھی رائے نہ بنائیں‘ہمیشہ دوسروں سے پوچھیں‘‘ (Never assume, always ask)۔ میں نے زندگی میں اس کے بعد کبھی ازیوم نہیں کیا‘ میں نے ہمیشہ پوچھا اور ہر بار فائدے میں رہا۔
ڈاکٹر خورشید احمد گرو کی بات میں وزن ہے‘ ہم میں سے زیادہ تر لوگ پوچھے اور سمجھے بغیر رائے بھی قائم کر لیتے ہیں اور یہ لوگ اپنی رائے کو حتمی بھی سمجھتے ہیں اور یوں یہ پوری زندگی غلط اور حتمی رائے پر گزار دیتے ہیں‘ آپ فرض کیجیے‘ ڈاکٹر خورشید اپنے دادا سے خراب سیب کھلانے کی وجہ نہ پوچھتے تو کیا ہوتا؟
ڈاکٹر صاحب کی خاموشی کے تین نتائج نکلتے‘ ایک‘ یہ پوری زندگی دادا کو کنجوس اور ظالم سمجھتے رہتے‘ دو‘ یہ زندگی کے اس شان دار ترین منترے سے محروم رہتے جس نے آنے والے دنوں میں ان کے راستے کی تمام رکاوٹیں دور کر دیں اور تین‘ یہ پرندے اور سیب کے رشتے کو کبھی نہ سمجھ پاتے‘ یہ پوری زندگی اس ’’فوک وزڈم‘‘ سے محروم رہتے ’’ پرندے ہمیشہ میٹھے اور پکے پھل پر چونچ مارتے ہیں‘‘لہٰذا آپ اندازہ کیجیے ڈاکٹر خورشید کے ایک سوال نے ان پر دانائی کے کتنے راستے کھول دیے۔
ہمارا سب سے بڑا ’’آرٹ آف لیونگ‘‘ سوال ہے‘ کیوں؟ کیوںکہ سوال دنیا میں دانائی کا سب سے بڑا سورس ہے‘آپ کو سوال کرنے والے لوگ دنیا میں کبھی خالی ہاتھ نہیں ملیں گے‘ آپ اس سلسلے میں سقراط کی مثال لے لیجیے‘ سقراط کا پورا فلسفہ سوالوں پر مشتمل تھا‘ وہ پوچھنا شروع کر دیتا تھا اور الجھنوں کی گتھیاں سلجھتی چلی جاتی تھیں اور اس کے گرد علم کا انبار لگ جاتا تھا‘ سقراط نے ثابت کیا سوال علم ہوتا ہے‘ یہ پوچھنے والوں کو عالم بنا دیتا ہے‘ سوال غلط فہمیاں ختم کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ بھی ہوتا ہے۔
ہم زندگی میں سیکڑوں مرتبہ غلط فہمیاں پال لیتے ہیں‘ غلط فہمیاںتعلقات کا زنگ ہوتی ہیں‘ ہم انسان شروع میں غلط فہمی کا شکار ہوتے ہیں‘ ہم پھر اس غلط فہمی کو بنیاد بنا کر رائے قائم کرتے ہیں‘ یہ رائے آہستہ آہستہ پکی ہوتی جاتی ہے اور ہم بعد ازاں اپنی زندگی کی گاڑی اس رائے کی سڑک پر دوڑانا شروع کر دیتے ہیں۔
ہمیں جب اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے تو ہم اس وقت تک وہاں پہنچ چکے ہوتے ہیں جہاں سے واپسی ممکن نہیں ہوتی چناںچہ سوال غلط فہمیاں دور کرنے کا بہترین طریقہ بھی ہوتے ہیں‘ سوال آپ کی کمیونی کیشن میں بھی اضافہ کرتا ہے‘ آپ اگر بولنا سیکھنا چاہتے ہیں‘ آپ اگر اپنے اندر اعتماد پیدا کرنا چاہتے ہیں تو آپ سوال کا ڈھنگ سیکھ لیں‘ آپ کو بولنا آ جائے گا‘ میں نے آج تک سوال سے بہت کچھ سیکھا‘ میں شروع میں لوگوں کے دلائل‘ جواز اور حقائق کو چیلنج کر دیتا تھا‘ لوگ کہتے تھے’’یورپ مغرب میں ہے‘‘ میں فوراً بول پڑتا تھا ’’نہیں جناب یورپ جنوب مغرب میں ہے‘‘۔
میں صرف یہ کہتا نہیں تھا بلکہ میں اس پر ڈٹ بھی جاتا تھا‘ لوگ میری اس حرکت سے تنگ آجاتے تھے مگر میں اسے اپنا اعتماد سمجھتا تھا‘ میں نے وقت کے ساتھ ساتھ سیکھا ‘ اعتماد اور بدتمیزی میں معمولی سا فرق ہوتا ہے اورہم اکثر وقات یہ فرق مٹا دیتے ہیں‘ میں جوانی میں بااعتماد نہیں تھا‘ میں بدتمیز تھا‘ میں حقائق ویری فائی کرنے کے بجائے چیلنج کر بیٹھتا تھا اور یوں اپنے اور دوسروں کے لیے مسائل پیدا کر لیتا تھا‘میں اب دوسروں کے حقائق کو چیلنج نہیں کرتا‘
میں ’’ویری فائی‘‘ کرتا ہوں‘ موبائل فونز نے ’’ویری فکیشن‘‘ آسان کر دی ہے‘ آپ دوسروں کی بات سنیں‘ جیب سے موبائل نکالیں۔ ’’گوگل‘‘ پر جائیں‘ سوال ٹائپ کریں اور آپ چند سیکنڈ میں تمام معلومات ویری فائی کر لیں‘ آپ موبائل فون پر کتابیں بھی کھول سکتے ہیں‘ آپ بڑی سے بڑی دستاویز میں چھپے حقائق بھی معلوم کر سکتے ہیں‘ یوں چند منٹوں میں معلومات اور حقائق کی تصدیق ہو جائے گی‘ یہ علم حاصل کرنے کا مجرب نسخہ ہے۔
میں روزانہ اس نسخے کے ذریعے درجنوں چیزیں سیکھتا ہوں‘ میں نے وقت کے ساتھ ایک اور عادت بھی ڈویلپ کی‘ میں جب کسی سے ملتا ہوں تو میں اس سے یہ ضرور پوچھتا ہوں ’’ آپ کیا کرتے ہیں؟‘‘ وہ شخص جس شعبے سے وابستہ ہوتا ہے‘ میں اس سے اس شعبے سے متعلق سوال کرنے لگتا ہوں‘ وہ بتاتا جاتا ہے اور میں سیکھتا ہوں۔ آپ بھی زندگی میں چیلنج کرنا بند کر دیں‘ ویری فکیشن شروع کر دیں‘ آپ کی زندگی سکھی بھی ہو جائے گی اور آپ کے علم میں بھی اضافہ ہو گا‘۔
میں نے ایک نسخہ اپنے دوست ڈاکٹر صداقت سے بھی حاصل کیا‘ ڈاکٹر صاحب کام یاب بھی ہیں اور اچھے اور نفیس انسان بھی ہیں‘ مجھے ایک بار ڈاکٹر صاحب کی کوئی بات اچھی نہ لگی ‘ میں ان سے فاصلے پر چلا گیا‘ ڈاکٹر صاحب نے چند دن بعد فون کیا اور مجھ سے کہا ’’مجھے لگتا ہے آپ کو فلاں بات اچھی نہیں لگی‘ آپ مجھ سے خفا ہیں‘ میراقطعاً یہ مقصد نہیں تھا‘ میں آپ کو یہ بتانا چاہتا تھا‘‘ میں نے بھی اپنا دل کھول دیا‘ میں نے ان سے شکوہ کیا‘ ڈاکٹر صاحب نے وضاحت کی اور یوں بات ختم ہو گئی۔
آپ فرض کیجیے اگر ڈاکٹر صاحب مجھے فون نہ کرتے تو ہمارے درمیان موجود گرہ کتنی مضبوط اور بڑی ہو جاتی ؟ یقینا ہمارے تعلقات کم زور ہوکر ختم ہو جاتے‘ میں نے ڈاکٹر صاحب کے فون کو نسخہ بنا لیا‘ مجھے اب جوں ہی کسی کی طرف سے سرد مہری کا احساس ہوتا ہے تو میں فوراً اس سے رابطہ کر تا ہوں‘ یوں گلے شکوے ہوتے ہیں اور معاملہ ختم ہو جاتا ہے‘ میں اپنے دوستوں کو جب بھی غلط فہمیوں کی گرہوں میں پھنسا دیکھتا ہوں تو میں انھیں دوسروں سے رابطے کا مشورہ دیتا ہوں اور یہ رابطہ ہمیشہ کار آمد ثابت ہوتا ہے۔
ہم میں سے اکثر لوگ یہ شکایت کرتے ہیں‘ لوگ میری بات سمجھ نہیں پاتے‘ میں لوگوں کو سمجھانا چاہتا ہوں مگر سمجھا نہیں پاتا‘ میرا ابلاغ کم زور ہے‘ میری بات دل ہی میں رہ جاتی ہے اور میں وقت پر کسی کو بتا نہیں پاتا وغیرہ وغیرہ‘ میں بھی زندگی کے دو تہائی حصے میں اسی صورت حال کا شکار رہا‘ میں بھی لوگوں کو سمجھا نہیں پاتا تھا لیکن پھر ایک نسخہ ہاتھ آگیا اور میں اس مسئلے سے بھی آزاد ہو گیا۔
مجھے پتا چلا انسان جب تک خود نہ سمجھے‘ یہ دوسروں کو نہیں سمجھا پاتا‘ آپ جب تک سمجھ کر نہیں سمجھائیں گے‘ دوسرے آپ کی بات نہیں سمجھ پائیں گے‘ آپ کو اگر خود کسی چیز پر عبور نہیں تو آپ دوسروں کو خاک سمجھائیں گے؟ آپ فرض کیجیے‘ آپ کسی شخص کو آلو گوشت بنانے کا طریقہ سمجھانا چاہتے ہیں لیکن آپ خود آلو گوشت کے ایکسپرٹ نہیں ہیں توآپ دوسرے شخص کو کیسے سمجھائیں گے؟۔
میں اب جب تک خود نہ سمجھ لوں میں دوسروں کو سمجھانے کی غلطی نہیں کرتا‘ ہم لوگ سمجھاتے وقت اکثر محفل میں موجود لوگوں کو فراموش کر بیٹھتے ہیں‘ ہمیں بولنے سے قبل ہمیشہ اپنے آپ سے پوچھنا چاہیے‘ میں جن لوگوں کو یہ بات سمجھانا چاہتا ہوں کیا انھیں اس کی ضرورت ہے؟ اگر جواب ہاں میں آئے تو آپ ضرور سمجھایے اور اگر جواب ناں ہو تو آپ خاموش ہو جائیں اور ان لوگوں سے وہ سمجھنے کی کوشش شروع کر دیں جس کے یہ لوگ ایکسپرٹ ہیں مثلاً آپ پائلٹ ہیں اور آپ گدھا گاڑیاں چلانے والوں کو یہ سمجھانا شروع کر دیتے ’’جہاز کیسے اڑایا جاتا ہے؟‘‘ تو آپ یقینا ناکام ہو جائیں گے‘ آپ اس کے مقابلے میں انھیں گدھے کو توانا اور گدھا گاڑی کو مضبوط بنانے کا طریقہ سمجھائیں گے تو یہ لوگ چند منٹ میں سمجھ جائیں گے چناںچہ سمجھانے سے قبل آپ کا سمجھنا بھی ضروری ہے اور آپ جن لوگوں کو سمجھانا چاہتے ہیں‘ ان لوگوں کا بیک گراؤنڈ سمجھنابھی ضروری ہوتا ہے۔
آپ اگر زندہ ہیں تو آپ کو روزانہ نئی باتیں سیکھنی چاہئیں‘ یہ نئی باتیں ’’آرٹ آف لیونگ‘‘ کہلاتی ہیں‘یہ آرٹ آف لیونگ کشمیر جیسے دور دراز علاقوں کے نوجوانوں کو ڈاکٹر خورشید کی طرح کینسر اسپیشلسٹ بناتا ہے‘ آپ بھی کھڑکی کھولیں‘ آپ بھی کام یاب ہو جائیں گے
بشکریہ روزنامہ ایکسیریس