اُدھر امریکہ میں تو اگلے ہفتے طے ہوگا کہ پہلی بار کوئی خاتون صدر بن کر حکومت کر سکے گی یا نہیں؟ کملا ہیرس مردانہ بالادستی کی روایت توڑنے میں کامیاب ہو گی یا نہیں؟ البتہ اِدھر تضادستان ’’وسعت فکر‘‘ اور ’’جنسی امتیاز‘‘ کی زنجیریں پہلے ہی سے توڑ چکا ہے اور تاریخ میں پہلی بار حکومتی پارٹی اور اپوزیشن، دونوں کو ہی پنجابی بیگمات کی سرپرستی مل گئی ہے۔ ایک طرف عمران خان کی اسیری کی وجہ سے بشریٰ عمران اور علیمہ خان عملی طور پر تحریک انصاف کی ساری قیادت کے مقابلے میں سب سےطاقت ور حیثیت کی حامل ہوگئی ہیں تو دوسری طرف نواز شریف کی سیاسی سوچ سے مترشح ہوتا ہے کہ مریم نواز ہی ان کی سیاسی جانشین ہوں گی۔ گویا آج کا سیاسی دور پنجابی بیگمات کی آپس میں کشمکش سے موسوم ہوگا۔
ہندوستان کی تاریخ بیگمات اور ان کی سیاست کے ذکر سے بھری پڑی ہے۔ بیگمات اَودھ اور بیگمات بھوپال کی جہانبانی اور طرز حکمرانی کا بالخصوص ذکر ہوتا ہے، مغل شاہی دربار میں نور جہاں سے لے کر حرم میں بیٹھی گلبدن بیگم، حمیدہ بانو بیگم اور بہت سی دوسری بیگمات کا بھی اہم کردار رہا ہے۔ رضیہ سلطان اور چاند بی بی تو بہادری کا استعارہ بنیں۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کی آخری بیوی جنداں کور اپنے بیٹے راجہ دلیپ سنگھ کےپیچھے اصل حکمران تھیں۔ پاکستان بننے کے بعد محترمہ فاطمہ جناح اور بیگم رعنا لیاقت علی خان کا نمایاں کردار رہا۔ بعد ازاں نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو نے بہادری، جرأت اور استقلال میں مردوں کو کہیں پیچھے چھوڑ دیا۔ نواز شریف مشکل میں آئے تو ان کی اہلیہ کلثوم نواز نے گھریلو خاتون ہونے کے باوجود دانش مندی اور دلیری کے امتزاج سے مخالفوں کے دانت کھٹے کردیئے اور سارے خاندان کو چھڑوا کر سعودی عرب لے گئیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان کی اہلیہ بشریٰ اور بہن علیمہ خان بھی نصرت بھٹو یا کلثوم نواز جیسا کردار ادا کرسکیں گی یا نہیں؟
تاریخ کا ایک اور ورق پلٹیں تو ایوب خان کے زمانے کی ایک کہانی ابھرتی ہے۔ بھٹو قید میں تھے نصرت بھٹو اور ایئر مارشل اصغر خان ان کی رہائی کی تحریک چلا رہے تھے ،بھٹو رہا ہوئے تو انہوں نے کہا (NUSRAT AND AALO KHAN GO BACK,HOME)نصرت اور آلو خان اب آپ دونوں گھر واپس جائیں۔ یہی کلثوم نواز کے ساتھ بھی ہوا کہ نواز شریف تیسری بار وزیر اعظم بنے تو کلثوم گھر تک محدود رہیں البتہ یہ انہی کا کارنامہ ہے کہ انہوں نے نواز شریف کو مریم نواز کو سیاست میں اتارنے اور پھر اپنا سیاسی جانشین بنانے کی ترغیب دی ،مشکل وقت آیا تو مریم نواز والد کے شانہ بشانہ بہادری سے لڑیں اور مشکلات کے باوجود اپنا بیانیہ بنایا۔
اب بشریٰ عمران اور علیمہ خان کے امتحان کا وقت ہے۔ تحریک انصاف لاکھ وراثتی سیاست سے انکار کرے آج بھی ان دونوں خواتین کی طاقت اور رتبہ پارٹی کے چیئرمین گوہر علی خان سے کہیں زیادہ ہے۔ تحریک انصاف نے اگر عوامی اور احتجاجی سیاست کر کے کامیاب ہونا ہے تو اس کیلئے خاندان کی عورتوں کا آگے آنا لازم ہے ۔ویسے تو علیمہ خان اپنے بھائی عمران خان کی مونث کاپی ہیں مگر بشریٰ عمران فی الحال ان سے سٹیٹس میں کئی درجے اوپر ہیں۔ علیمہ خان اپنے بھائی کے ساتھ شوکت خانم ہسپتال کی تعمیر، نمل یونیورسٹی کے آغاز اور پھر تحریک نصاف کے پس منظر میں ہر جگہ شریک رہی ہیں مگر بشریٰ سے شادی کے بعد عمران جتنی عزت اپنی اہلیہ کی کرتے ہیں یہ مقام کسی اور خاتون کو حاصل نہیں ہے۔ بشریٰ وٹو، کو کوئی جادو گر کہے یا پیرنی مگر عمران خان کے دل کے تخت پر آج کل وہی براجمان ہیں ۔وہ انکے روحانی ویژن، ان کی عبادات، نیک اطوار اور ان کے سیاسی تجزیات کو بہت اہمیت دیتے ہیں ، علیمہ خان کو وہ ڈانٹ بھی لیتے ہیں، ناراض بھی ہوجاتے ہیں مگر بشریٰ کی ہمیشہ تعریف ہی کرتے ہیں اگر تو بشریٰ میدان میں اتاری گئیں تو انہیں ان کے شوہر کی مکمل تائید حاصل ہوگی۔ دوسری طرف خدانخواستہ بانی پی ٹی آئی کو کچھ ہوا یا وہ سیاست سے باہر ہوئے تو پھر علیمہ خان کا کوئی بھی مقابل، ان کا مقابلہ نہیں کر سکے گا وہ عمران خان کی طرح تندو تیز اور جارحانہ لہجے کی حامل ہیں ،جیسے انہوں نے گنڈا پور اور دوسرے پارٹی عہدیداروں کو اڑایا تھا اب وہ جب چاہیں گی توپوں کے منہ کھول کر سب کو اڑا دیں گی۔ دونوں میں سے کسے موقع ملے گا یہ دیکھنے کی بات ہے کیونکہ یہ معاملہ تو ڈھکا چھپا نہیں ہے کہ نند اور بھابی کی ذرا نہیں بنتی بلکہ وہ ایک دوسرے کو برداشت تک نہیں کرتیں۔ خان کا وزن جس طرف ہوگا وہی طاقتور ہوگا۔
نونی سیاست بھی بڑے دلچسپ مرحلے میں ہے ،پنجاب میں مریم نواز روزانہ چوکے چھکے لگا رہی ہیں ،ان کی ٹیم میں بھی طاقتور خواتین ہیں، مریم اورنگزیب باہر کی پڑھی ہوئی ہیں، کارپوریٹ سیکٹر اور این جی اوز کو سمجھتی ہیں، پنجاب کابینہ میں وہ سب سےزیادہ طاقتور سمجھی جاتی ہیں۔ عظمیٰ بخاری کے والد اور پھر وہ خود پیپلز پارٹی میں رہیں، وہ جمہوری آزادیوں، آرٹ، کلچر اور صحافت کی قدروں سے مکمل آگاہ ہیں، تصور یہ ہے کہ اس وقت پنجاب حکومت یہی تین بیگمات چلا رہی ہیں۔ البتہ نونی چوکوں چھکوں کے باوجود ابھی تک نہ پنجاب میں تحریک انصاف کی مقبولیت میں کمی آئی ہے اور نہ نون لیگ کو کوئی سیاسی بڑھوتری ملی ہے۔ تاہم یہ تاثر قائم ہو رہا ہے کہ چیزیں بہتری کی طرف جا رہی ہیں بالخصوص معیشت کے اعداد و شمار بہت مثبت تصویر دکھا رہے ہیں گو ان کے اثرات ابھی نچلی سطح تک نہیں پہنچ سکے۔
نونی سیاست کا اس وقت سب سے بڑا المیہ پنجاب اور وفاق کی حکومتوں کا عدم رابطہ اور متضاد راہوں پر چلنا ہے۔ ایک افسر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب میں اور جماعت کی حکومت اور وفاق میں کسی اور جماعت کی، پھر اس نے وضاحت کی کہ وفاق میں مسلم لیگ شہباز کی حکومت ہے اور پنجاب میں مسلم لیگ مریم کی حکومت ہے۔ ایسا کیوں ہے اور اسے ٹھیک کیوں نہیں کیا جا رہا، سیاست کے طالب علم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں ۔ اگر ایسا ہی رہا تو پھر مسلم لیگ نون مزید کمزور ہو جائے گی۔ یہ بھی لگ رہا ہے کہ مسلم لیگ نون کے سربراہ نواز شریف اگلے انتخابات (جب بھی ہوئے) میں وزیر اعظم کے امیدوار کے طورپر شہباز شریف کو نہیں، مریم نواز شریف کو اتاریں گے۔ مریم نواز گو اپنے چچا کی بہت وفادار ہیں، تعظیم بھی کرتی ہیں لیکن وہ ذہنی طور پر نئے سیاسی کردار کیلئے خود کو تیار کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ وزارت اعلیٰ تو پریکٹس ہے ان کا اصل مطمح نظر وزارت عظمیٰ ہی لگتا ہے لیکن یہ تبھی ممکن ہو گا کہ تحریک انصاف کی مقبولیت کا اپنی کارکردگی اور بیانیے سے توڑ کیا جائے، خاندان متحد ہو اور وہ بیورو کریسی کے شکنجے سے نکل کر عوام میں گھلیں ملیں، ارکان اسمبلی اور پارٹی کارکنوں سے دوری اور صلاح مشورے سے پرہیز انکی مقبولیت کے راستے کے پتھر ہیں۔
بشکریہ روزنامہ جنگ