بھوک۔۔۔ تحریر : بنت قمر مفتی

رضوان آج پھر میری دکان پر تین گھڑیال اٹھائے، میرے سامنے کھڑا تھا۔ میرا تجسس بڑھتا ہی جا رہا تھا، کہ ہفتے بھر میں تین، چار یا کبھی دو گھڑیال بیچنے کیوں چلا آتا ہے۔

“آئے دن تو کوئی بھی گھر گھڑیال نہیں بدلتا۔ کہیں سے چوری کر کے تو نہیں لاتے ہو؟” مارے تجسس کے آج میں نے پوچھ ہی لیا۔

“نہیں بھیا بس لوگ دے جاتے ہیں۔ انہیں ضرورت نہیں رہتی تو میں یہاں قیمت لگوا لیتا ہوں۔ لوگ اپنی مرضی سے دے جاتے ہیں۔ اگر چراتا تو پھر بھلا ہر بار آپ ہی کے پاس کیوں بیچنے آتا؟” میں نے بھی حمایتی انداز میں سر ہلاتے ہوئے اسے مطلوبہ رقم تھما دی۔ رقم لے کر وہ دکان سے نیچے اترا اور جیب میں پیسے رکھتے ہوئے آگے بڑھ گیا۔ جیب ہاتھ سے نکالتے ہوئے، اس کی جیب میں سے ایک تہہ لگا کاغذ گرا۔ میں نے دکان سے نکل کر کاغذ اٹھاتے ہی رضوان کو اواز دی، لیکن میری آواز گرد و نواح کے شور میں دب گئی۔

میں نے کاغذ کھولا تو کسی آستانے کا اشتہار لکھا تھا ۔ اس اشتہار کے الفاظ نے مجھے سوچنے پر مجبور کر دیا کہ کمزور عقیدہ اور بھوک آپس میں گہرا تعلق رکھتے ہیں۔

لکھا تھا:
“یہاں گھڑیال لٹکائیں اور من کی مراد پائیں۔”