کراچی(صباح نیوز)سندھ اسمبلی کی پبلک اکاونٹس کمیٹی نے سندھ بھر میں موجود کچی آبادیوں کی ڈیٹا سمیت ریگیولر کی گئی کچی آبادیوں کا ریکارڈ طلب کرلیا ہے جبکہ پی اے سی نے سندھ بھر کی کچی آبادیوں میں رہائش پذیر افراد کو جاری ہونے والے مالکانہ حقوق کی سندوں اور کچی آبادیوں کی ریگولرائیزیشن کے طریقے کار سمیت کچی آبادیوں کے ریگولر کئے جانے والے پلاٹس کے ریٹس کی تفصیلات بھی 10 دن میں متعلقہ محکمے سے طلب کرلی ہیں۔جمعرات کو سندھ اسمبلی کی پبلک اکاونٹس کمیٹی کا اجلاس چیئرمین نثار کھوڑو کی صدارت میں سندھ اسمبلی کی کمیٹی روم میں ہوا اجلاس میں سیکریٹری ہیومن سیٹلمنٹ،اسپیشل ڈولپمنٹ شارق احمد، محکمے کے ڈاریکٹر فنانس بلال شیخ، ڈی جی آڈٹ سندھ سمیت متعلقہ افسران نے شرکت کی۔
اجلاس میں محکمے کی سال 2018ع سے 2021ع تک مختلف آڈٹ پیراز کا جائزہ لیا گیا۔ اجلاس میں ہیومن سیٹلمنٹ محکمہ کچی آبادی اتھارٹی کو گرانٹ ان ایڈ کی مد میں جاری ہونے والے فنڈز اور ڈفرنس بلز کی مد میں 131.901 ملین روپے کی آڈٹ کا ریکارڈ فراہم نہیں کرسکا جس پر پی اے سے چیئرمین نے محکمے کو 10 دنوں میں آڈٹ ریکارڈ فراہم کرنے کی مہلت دے دی۔اس موقع پر چیئرمین پی اے سی نثار کھوڑو نے محکمے کے سیکریٹری سے استفسار کیا کے سندھ بھر میں کتنی کچی آبادیاں ہیں اور کتنی کچی آبادیوں کو تاحال ریگیولر کیا گیا ہے۔نثار کھوڑو نے پوچھا کے کچی آبادیوں کو ریگولر کرنے کا کیا طریقہ کار ہے اور کچی آبادیوں کے پلاٹوں کو کس ریٹ کے حساب سے ریگیولر کرنے کے لئے کتنی رقوم کے چالان جاری ہوتے ہیں۔جس پر محکمے کے سیکریٹری شارق احمد نے پی اے سی چیئرمین کو بتایا کے سندھ بھر میں 14 سو کچی آبادیاں ہیں جن میں سے 582 کچی آبادیاں کراچی میں موجود ہیں۔
اس موقعے پر چیئرمین پی اے سی نثار کھوڑو نے محکمے کے افسران سے سوال کیا کے کچی آبادیوں میں موجود کتنے افراد کو مالکانہ حقوق کی سندیں جاری ہوئی ہیں اور اس متعلق کتنی رقوم کے چالان جاری ہوئے ہیں جس پر محکمے کے ڈاریکٹر فنانس بلال شیخ نے پی اے سی کو بتایا کے کراچی میں 250 سو روپے فی گز کے حساب سے 120 گز کے کچی آبادی کے پلاٹ کو ریگولر کرنے کا چالان جاری کیا جاتا ہے تاہم مختلف علاقوں اور مختلف اضلاع کے ریٹس مختلف ہیں۔مگر 2021ع سے لوگ چالان کی فیس جمع نہیں کر پا رہے ہیں اس لئے سندیں جاری ہونے کا عمل سست روی کا شکار ہے جس پر پی اے سی چیئرمین نثار کھوڑو نے پوچھا کے کراچی میں کچی آبادی کے پلاٹوں کی قیمت لاکھوں میں ہے اور یہ کیسے ہوسکتا ہے کے وہاں رہنے والے لوگ 250 روپے فی گز کے حساب سے بھی چالان کی رقم ادا نہیں کرپا رہے ہوں ؟
نثار کھوڑو نے کہا کے ہم چاہتے ہیں سندھ میں موجود کچی آبادیوں اور گاوں کو ریگیولر کرکے وہاں رہائش پذیر افراد کو مالکانہ حقوق دئے جائیں۔انہوں نے کہا کے موجودہ کچی آبادیوں کے علاوہ نئی کچی آبادیاں بڑھنے کا رجحان ختم ہونا چاہئے اور جو نئی کچی آبادیاں بڑھتی جارہی ہیں ان کو روکا کیوں نہیں جاتا۔؟ اس موقع پر چیئرمین پی اے سی نثار کھوڑو نے محکمے کو ہدایت کی کے سندھ میں کتنی کچی آبادیاں ہیں اور اب تک کتنی کچی آبادیوں کو رگیولر کیا گیا ہے وہ تمام ڈیٹا پی اے سی کو فراہم کی جائے اور کچی آبادیوں میں موجود کتنے افراد کو مالکانہ حقوق کی سندیں جاری ہوئی ہیں اس سمیت ریگیولرائیزیشن کے طریقے کار اور مالکانہ حقوق کے لئے سندوں کی مد میں کتنی رقوم کے چلان جاری ہوتے ہیں وہ تمام تفصیلات پر مبنی ریکارڈ پی اے سی کو دس دنوں میں فراہم کیا جائے۔اور اجلاس ریکارڈ فراہم ہونے تک دس دنوں تک ملتوی کیا گیا۔