اسلام آباد(صباح نیوز)چھبیسویں آئینی ترامیم کا مسودہ سینٹ میں پیش کر دیا گیا۔ چئیرمین یوسف رضا گیلانی کی زیرِ صدارت سینیٹ کا اجلاس شروع ہونے پر اسحاق ڈارنے قواعد وضوابط معطل کرنے کی تحریک پیش کردی۔وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ایوان سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آئینی ترمیم کیلئے کمیٹی بنائی گئی، کمیٹی میں کافی بات چیت کی گئی، اپوزیشن نے بھی کمیٹی میں بحث میں حصہ لیا اور ایک مسودہ پر اتحادی جماعتوں کا اتفاق ہوا، یہ ایک متفقہ بل ہے جس پرکامران مرتضی کی ترامیم بھی ہیں۔اس کے بعد وزیرقانون اعظم نزیرتارڑ نے آئین میں ترمیم کا بل سینیٹ میں پیش کردیا۔
وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے 26 ویں آئینی ترمیم بارے میڈیا کو بتایا کہ 26 نکاتی متفقہ مسودہ ہے جو پارلیمان کی خصوصی کمیٹی نے منظور کیا تھا اور جس پر پہلے سیاسی اتفاق رائے کروایا گیا تھا۔ جے یو آئی کی سود سے متعلق تجویز کو آئینی ترمیم میں شامل کیا گیا ہے، یکم جنوری 2028 سے سودی نظام کا خاتمہ ہوجائے گا۔ سپریم کورٹ نے بھی سود کے خاتمے سے متعلق آبزرویشن دی تھی۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ 26ویں آئینی ترمیم کے تحت جوڈیشل کمیشن کے سربراہ چیف جسٹس ہوں گے۔ 4 سینئر ترین ججز جوڈیشل کمیشن کا حصہ ہوں گے، بینچ کی تشکیل کا اختیار بھی جوڈیشل کمیشن کے پاس ہوگا۔ویں آئینی ترمیم کے مسودے کی وفاقی کابینہ سے منظوری کے بعد وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ جے یو آئی ف نے اس مسودے میں پانچ ترامیم تجویز کی ہیں جن کا تعلق آئین میں موجود اسلامی شقوں میں وضاحت کے لیے ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس کی تعیناتی کے لیے 12 رکنی کمیٹی بنائی جائے گی، جس میں آٹھ ایم این ایز اور چار سینیٹر شامل ہوں گے۔وزیرِ قانون کے مطابق اس کمیٹی میں حکومت اور حزبِ اختلاف کی متناسب نمائندگی ہوگی۔ یہ کمیٹی دو تہائی اکثریت کے ساتھ جو چیف جسٹس کے لیے نام تجویز کرکے وزیرِ اعظم کو بھیجے گی۔ چیف جسٹس کی مدت ملازمت تین سال یا ریٹائرمنٹ کی عمر یعنی 65 سال تک مقرر کیا گیا ہے۔وزیر قانون کے مطابق ان تجاویز میں وفاقی شرعی عدالت کے ججوں کی تقرری کے بارے میں ایک شق شامل کی گئی ہے۔اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر عملدرآمد کا دورانیہ دو سال سے کم کرکے ایک سال تجویز کی گئی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ شریعت کورٹ کی سود کے متعلق فیصلے کو پالیسی میں شامل کرنے کے لیے اسے آئین میں شامل کیا گیا۔انھوں نے کہا کہ صوبوں میں آئینی بینچوں پر عملدرآمد کے لیے متعلقہ صوبائی اسمبلی میں سادہ اکثریت سے اس کی منظوری دی جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ تجویز پی پی پی کی جانب سے پیش کی گئی تھی۔وزیرِ قانون کے مطاق پی پی پی کا کہنا تھا کہ اس صوبے کی اسمبلی کو حق ہونا چاہیے کہ اگر اس صوبے کی ہائی کورٹ کی آئینی بینچ تشکیل دینا چاہے تو وہ کر سکے۔
ان کا کہنا تھا کہ آئینی بینچوں کی تشکیل کا اختیار چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں جو جوڈیشنل کمیشن بنایا گیا ہے اس کے پاس ہو گا۔اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ اس مسودے کے مطابق جوڈیشل کمیشن میں چیف جسٹس آف پاکستان اور چار سینیئر ترین ججوں کے علاوہ چار پالیمینٹیرینز بھی شامل ہوں گے جن میں سے دو سینیٹ اور دو قومی اسمبلی سے ہوں گے۔ان میں سے ایک سینیٹر اور ایک ممبر قومی اسمبلی کا تعلق حزبِ اختلاف سے ہوگا جبکہ وزیرِ قانون، اٹارنی جنرل اور پاکستان بار کونسل کے نمائندے بدستور اس کمیشن کا حصہ ہیں۔
وزیر قانون کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ اقلیتوں اور خواتین کے مسائل کی نمائندگی کے لیے ایک اقلیتی یا خاتون ممبر بھی شامل کی جائیں گی جن کا تعلق پارلیمان سے نہیں ہوگا۔ اس ممبر کا انتخاب سپیکر اسمبلی کریں گے۔اس کے لیے شرط ہوگی کہ وہ بطور ٹیکنوکریٹ سینیٹر منتخب ہونے کی اہلیت رکھتے ہوں۔ صوبائی جوڈیشل کمیشن کی تشکیل میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے۔ان کے مطابق جوڈیشل کمیشن صوبائی چیف جسٹس کی مشاورت سے ججوں کی کارکردگی کو جانچنے کا فارمولا مرتب کرے گی۔وفاقی اور صوبائی سطح پر آئین اجازت دیتا ہے کہ پانچ پانچ ٹیکنکل ایڈوائزرز رکھ سکتے ہیں۔ اب صوبائی ایڈوائزر کو بھی صوبائی اسمبلی میں پیش ہونا ہوگا۔ چیف جسٹس کی تعیناتی بھی اس آئینی پیکج کا حصہ ہے