صفدر علی چودھری مرحوم کی یاد…تحریر،خالد کاشمیری


معمار ’’نوائے وقت‘‘ مجید نظامی مرحوم و مفقور شرافتوں کے امین اپنے مقام و مرتبے اور ذاتی وجاہتوں کے باعث قومی زندگی کے تمام شعبوں کی مقتدر شخصیتوں کی نظر میں انتہائی احترام اور قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے ملک بھر کی سیاسی، دینی سماجی اور ادبی شخصیتوں میں سے کوئی ایسی نہیں جس نے صحافت کے وقار کو بلند کرنیوالے اس جرأت مند مرد قلندر سے از خود ملنے کی خواہش کا اظہار کر کے شرف ملاقات حاصل نہ کیا ہو۔ مگر مقتدر حلقوں کے سربرآوردہ رہنمائوں کے نیاز مندانہ راہ رسم کے باوجود جناب مجید نظامی مرحوم نے سیاسی جماعتوں کے ایسے کارکنوں کو ہمیشہ قدر و منزلت کی نظر سے دیکھا۔ جو اپنی اپنی جماعتوں میں صدق دل کے ساتھ بے لوث ہو کر ملک میں عدل و انصاف پر مبنی نظام کے قیام کی خاطر سرگرم عمل رہے۔ ایسے مخلص کارکنوں میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی مرحوم کے پرائیوٹ سیکرٹری اور جماعت اسلامی پاکستان کے سابق مرکزی سیکرٹری اطلاعات چودھری صفدر علی بھی شامل تھے۔ چودھری صفدر ان گنے چنے سیاسی کارکنوں میں دیکھے جاتے جو جب چاہتے جناب مجید نظامی مرحوم سے ملنے انکے دفتر آجایا کرتے اور جناب مجید نظامی مرحوم بڑے پیار سے ان کا ذکر کیا کرتے۔
چودھری صفدر کے انتقال پر ملال نے ماضی کے ان گزرے دنوں کی یاد کو تازہ کردیا ہے۔ جب چودھری صفدر علی جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی دفتر ذیلدار پارک اچھرہ میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی مرحوم کی اقامت گاہ پر جماعت کے محکمہ اطلاعات کیساتھ ساتھ مولانا مودودی کے پرسنل سیکرٹری کے فرائض بھی انجام دیا کرتے تھے۔ چودھری صفدر کیا تھے کس طبیعت اور کس کینڈے کے انسان تھے؟ حقیقت یہ ہے کہ چودھری صفدر قومی خدمت سے سرشار ایک بے لوث سیاسی کارکن تھے۔ برسہا برس سید مودودی کی تربیت میں رہ کر عجز و انکسار کے پیکرمیں ڈھل گئے تھے۔ بلاشبہ ان کا خمیر اسلامی جمعیت طلباء سے اٹھا تھا۔ مگر سید مودودی کی صحبت میں رہ کر وہ پانسے کا سونا بن گئے تھے۔ ان کی منکسر المراجی، مرنجاں مرنج شخصیت ہی جناب مجید نظامی مرحوم کو پسند آئی تھی۔ ایک طویل عرصے تک جبکہ جماعت کا دفتر منصورہ میں منتقل نہ ہوا تھا۔ چودھری صدر علی اس وقت تک مختصر سے دفتر میں جماعت کے سیکرٹری اطلاعات کے فرائض انجام دیتے رہے۔ جب جماعت اسلامی کا دفتر اچھرہ سے منصورہ کی وسیع و عریض عمارت میں منتقل ہوا۔

تو بھی چودھری صفدر نہ صرف جماعت کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات رہے بلکہ جماعت کے شعبہ اطلاعات میں کارکنوں کے لحاظ سے توسیع بھی ہوگئی۔ اس دوران وہ کئی ایک مہلک بیماریوں کی زد میں آئے۔ مگر گردوں وغیرہ کے آپریشن کامیاب ہونے پر پوری تندہی اور چابکدستی کیساتھ اپنے دفتری امور انجام دیتے رہے۔ اخبارات کو جماعت اور اسکے رہنمائوں کی سرگرمیوں کے حوالے سے خبریں فراہم کرنے میں انہوں نے جس جانفشانی سے کام کیا اور اپنی خوش اخلاقی، منکسر المزاجی اور مخصوص انداز کی پر خلوص مسکراہٹ کے نتیجے میں اخبار نویسوں سے جو عزت و تکریم پائی اور تعلقات بنائے اس کی مثال کم کم ہی ملے گی۔ ایوب خان کے دس سالہ دور حکومت میں جب ملک کی قریباً سبھی سیاسی جماعتیں بحالی جمہوریت کی خاطر مختلف قسم کے سیاسی اتحاد بنا کر سرگرم عمل ہوتی رہیں تو جماعت اسلامی بھی بحالی جمہوریت کی ایسی ہر تحریک میں اپوزیشن جماعتوں کی شریک سفر رہی۔ ان دنوں حکومت کے زیر سرپرستی نیشنل پریس ٹرسٹ کے اردو اور انگریزی اخبارات بھی شائع ہوتے تھے۔

اور انکی اشاعت بھی قابل ذکر ہوا کرتی۔ ان اخبارات میں حکومت کی ہدایات کیمطابق اپوزیشن جماعتوں کی حکومت مخالف اور جمہوریت کی بحالی کے حق میں خبروں کو نمایاں طور پر شائع کروانا کوئی آسان کام نہ ہوتا تھا۔ اس دور میں ملک میں صرف ایک ہی ٹیلی ویژن چینل تھا جو حکومت کی تحویل میں ہوتا تھا۔ جہاں اپوزیشن رہنمائوں کے بیانات حتیٰ کہ جلسوں کی خبریں بھی نشر ہونے کا تصور محال تھا اس لئے اپوزیشن رہنمائوں کو اپنی بات عوام تک پہنچانے کیلئے جو بھی اخبارات تھے ان کا سہارا لینا پڑا۔ اس قسم کے دور آمریت میں روزنامہ نوائے وقت تو حزب اختلاف کی ترجمانی کا حق ادا کر رہی رہا تھا مگر چودھری صفدر علی اپنی شرافت، حلیمی اور دل لبھانے والے طرز تکلم کی بنا پر نیشنل پریس ٹرسٹ کے اخبار نویس دوستوں سے اس قدر گہرے تعلقات کا ڈول ڈال رکھا تھا کہ انکے اخبارات میں بھی جماعت اسلامی کے رہنمائوں کے بیانات کسی نہ کسی طور شائع ہوا کرتے۔جماعت اسلامی پاکستان کے ممتازرہنما اور معمار نوائے وقت محترم مجید نظامی مرحوم کے قدر دان چودھری غلام جیلانی خلد آشیانی ہوئے تو چودھری محمد صفدر انکی جگہ جماعت کے ترجمان جریدہ ’’ایشیا‘‘ کے ایڈیٹر بنے اور اپنے صحافیانہ فرائض کو انہوں نے جس خوش اسلوبی سے انجام دیا یہ کچھ انہی کا حصہ تھا۔ کسی قسم کی طمع حرص اور لالچ سے بے نیاز اس شخص کو اللہ تعالیٰ نے فقرو استغناکی جس دولت سے مالا مال کیا تھا۔ بارگاہ ایزدی سے اسے یہ سعادت بھی نصیب ہوئی کہ وہ اپنے ایک جواں سال بیٹے مظفر نعیم چودھری کے جام شہادت نوش کرنے پر شہید کا والد بھی بنا۔ مظفر نعیم چودھری تحریک آزادی کشمیر میں عملی طور پر حصہ لینے کی غرض سے بطور خاص مقبوضہ کشمیر جاکر مجاہدین میں شامل ہوئے تھے اور 22 اکتوبر 1993ء کو بھارتی فوج سے خونریز جھڑپ کے دوران جام شہادت نوش کرگئے۔
چودھری محمد صفدر مرحوم دوستوں کے دوست بلکہ نظریاتی اختلافات رکھنے والوں کے بھی دوست تھے۔ بلا شرکت غیر سبھی ملنے والوں پر اپنی دلفریب مسکراہٹ نچھاور کرتے ہوئے مصافحہ کرنے میں پہل کرنا ان کا خاصہ تھا۔ انکے حوالے سے ایک دلچسپ واقعہ کا ذکر کرنا بے جا نہ ہوگا۔ واقعہ یوں تھا کہ غالباً 1967ء میں رمضان المبارک کے آخری دن تھے کہ عیدالفطر جمعتہ المبارک کے دن آتی نظر آئی۔ ایوب خاں سر براہ مملکت تھے انکے وزیروں مشیروں اور حاشیہ پرداروں نے ایوب خاں کے کان بھر ے کہ جمعہ کو عیدالفطر کا ہونا انکے اقتدار کیلئے نیک فال نہیں۔ اس پر ایوب خان کے حکم سے تمام سرکاری مشینری حرکت میں آگئی گویا چاند کو ایک روز پہلے ہی طلوع کرنے کے ’’انتظامات‘‘ ہونے لگے۔ چنانچہ عیدالفطر کا چاند جب پاکستان کے کسی علاقے میں بھی نظر نہ آیا۔

تو رات گیارہ بجے ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی خبروں میں مقامات کا نام لئے بغیر عید کا چاند طلوع ہونے کی خبر نشر کردی گئی۔ راقم ادارہ نوائے وقت سے منسلک تھا۔ میںنے اس سرکاری اعلان عید پر عوامی حلقوں کی رائے حاصل کی۔ اورموقع کی نزاکت کو محسوس کرتے ہوئے اس مسئلے پر ممتاز علماء کرام کی آراء حاصل کرنے کی تگ و دو کرنے لگا۔ رات کوئی ساڑھے گیارہ بجے کا عمل تھامیں ممتاز شیعہ رہنما مولانا سید اظہر حسن زیدی کی اقامت گاہ پر جا کر ان سے ملا۔ مولانا تراویح سے فارغ ہوئے تھے مدعا بیان کیا تو انہوں نے چاند نہ ہونے کے بعد بھی سرکاری طور پر عید کے اعلان کیخلاف اپنا بیان لکھوادیا۔ واپس دفتر آکر امیر جماعت اسلامی مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی (مرحوم) کو فون کیا۔ تو ان کے آفس سیکرٹری چودھری صفدر نے فون سنا اور مولانا سے بات کرائی۔ میں نے کسی تمہید کے بغیر اظہار مدعاکیا، تو بولے چودھری صفدر میرا بیان لیکر آئینگے؟ فون بند کر کے میں خبر مرتب کرنے لگا اور ساتھ ہی کراچی میں مولانا احتشام الحق تھانوی سے فون پر رابطہ کر کے اس حوالے سے ان کا بیان ٹیلی فون پر لکھ لیا۔ پندرہ بیس منٹ ہی گزرے ہوں گے کہ اچانک کمرے کے سکوت کو اس آواز نے توڑا۔’’آپ

خاموشی سے کمال دکھاتے ہیں حکومت کی عید تو خراب کردی‘‘ یہ چودھری صفدر علی تھے اور مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کا بیان میری طرف بڑھاتے ہوئے کہتے چلے گئے۔
نوائے وقت میں نمایاں طور پر اگلے روز عید کا چاند نہ ہونے پر خبر شائع ہوئی اور اسی روز مولانا سید ابوالاعلی مودودی، مولانا احتشام الحق تھانوی اور مولانا سید اظہر حسن زیدی گرفتار کرلئے گئے۔ سب سے پہلے مجھے صفدر علی نے فون کیا اور داد دینے کے سے انداز میں بولے ’’حضور آپ نے سب کو پکڑوا دیا‘‘۔ یہ تھے صفدر علی چودھری جو حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے اور انکی نزاکتوں کو پوری طرح سمجھتے تھے۔ گرفتاریوں پر دیگر باتوں کے علاوہ سیاسی بالغ نظری کا ثبوت دیتے ہوئے صرف ایک جامع تبصرہ حالات لمحہ اس فقرے سے کیا۔ ’’آپکی محنت رائیگاں نہیں جائے گی اب حکمرانوں کے چل چلائو کا وقت شروع ہوگیا ہے۔صفدر علی چودھری کی یادوں سے لاتعداد واقعات وابستہ ہیں۔ صفدر علی اپنی ذات میں ایک انجمن تھا