معیشت اور سیاست: بہار اور خزاں کا پنڈولم…تحریر وجاہت مسعود


رواں برس کے آغاز میں پاکستان سیاسی بے یقینی، معاشی دلدل اور سفارتی تنہائی کے سہ جہتی بحران سے دوچار تھا۔ عام آدمی سے لیکر اہل دانش تک سبھی مایوسی کا شکار تھے۔ نئے مالی سال میں کچھ امید افزا اشارے سامنے آئے ہیں۔ آئی ایم ایف سے آئندہ تین برس کیلئے قریب سات ارب ڈالر کی اعانت منظور کی گئی ہے۔ ایشین ڈویلپمنٹ بینک نے دو ارب ڈالر کا عندیہ دیا ہے۔ ورلڈ بینک نے پاکستانی معیشت میں بحالی کا مثبت امکان ظاہر کیا ہے۔ خیال ہے کہ اس برس معاشی نمو کی شرح چار فیصد کے قریب رہے گی۔ اسٹاک ایکسچینج کا 85000پوائنٹ کی حد عبور کرنا سرمایہ کاروں کے اعتماد کا اشارہ ہے۔ یاد رہے کہ جنوری 2020ء میں اسٹاک ایکسچینج 45200 پوائنٹس پر تھی جو کووڈ 19 کے دوران مارچ 2020 ء کے اواخر میں 27200تک گر گئی تھی۔ 2020وہی برس تھا جب قومی معیشت کی شرح نمو منفی 1.27فیصد رہ گئی تھی۔ 2019 ء میں ہماری شرح نمو 2.50فیصد تھی۔ ان حالات میں پاکستان میں شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن کا سربراہی اجلاس معاشی اور سفارتی سطح پر کسی معجزے سے کم نہیں۔

معیشت محض اعداد و شمار کا کھیل نہیں۔ سیاسی استحکام معاشی ترقی کے راستے کھولتا ہے اور معاشی ترقی سے سماجی خد و خال نمو پاتے ہیں۔ یہ محض اتفاق نہیں کہ 2019ء میں پاکستان میں جرائم کی شرح 3.65فیصد تھی جو 2021ء میں 3.98فیصد ہو گئی۔ جرائم کی یہ شرح اس لیے بھی تشویش ناک ہے کہ اس دوران متعدد ایسے جرائم سامنے آئے ہیں جو قبل ازیں پاکستان میں عام نہیں تھے مثلاً مذہبی بنیادوںپر تشدد اور قتل، نوجوان خواتین کی پراسرار اموات نیز کم عمر بچوں کے ساتھ درس گاہوں میں تشدد اور جنسی زیادتی کے بڑھتے ہوئے واقعات، سماجی ٹوٹ پھوٹ نیز ریاستی عمل داری میں کمی کی علامات ہیں۔ معاشی ترقی کے ان اشاریوں کو ٹھوس امکانات میں بدلنے کے لیے ضروری ہے کہ اپنی سیاسی تاریخ پر ناقدانہ نظر رکھی جائے۔ یہ محض اتفاق نہیں کہ 50ء کی دہائی میں پاکستان کے ساتھ معاشی سفر شروع کرنے والے جنوبی کوریا کی فی کس آمدنی 2021ء میں 35 ہزار ڈالر سے تجاوز کر چکی تھی۔ ہمارے ہمسایہ ممالک میں چین کا معاشی حجم 19کھرب ڈالر اور بھارت کا معاشی حجم 4 کھرب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے۔ ہم نے اپنے پون صدی کے سفر میں خود اپنے شہریوں سے سیاسی نا انصافیاں کی ہیں۔ پاکستان بننے کے ایک ہفتے بعد ہم نے صوبہ سرحد میں ڈاکٹر خان صاحب کی منتخب اور جائز حکومت توڑ دی تھی۔ اس روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے 1958 ء تک کم از کم چھ صوبائی اسمبلیاں تحلیل کی گئیں اور آٹھ وفاقی وزارتیں معزول کی گئیں۔ اس غیر مستحب سیاسی روایت کی وجہ یہ تھی کہ قائداعظم نے اگست 1947ء کو مملکت پاکستان کی سربراہی قبول کی تو متعدد ایسے عوامل تھے جن کی قبل از وقت پیش بینی ممکن نہیں تھی۔

(1) پنجاب اور بنگال کی تقسیم سے تبادلہ آبادی کا مسئلہ کھڑا ہوا۔ (2) مسلم لیگ کی مرکزی قیادت مسلم اقلیتی صوبوں سے تعلق رکھتی تھی۔ مغربی پاکستان کی مقامی سیاسی قیادت کو نام نہاد بیرونی قیادت کی اطاعت قبول نہیں تھی چنانچہ ہر صوبے میں سیاسی کھینچا تانی شروع ہو گئی۔ (3) مشرقی اور مغربی پاکستان میں جغرافیائی فاصلے کے علاوہ سیاسی، لسانی، ثقافتی اور معاشی اختلافات موجود تھے جنہیں نوزائیدہ مملکت پاکستان نے سنجیدگی سے حل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ برطانوی ہند کی فوج نوآبادیاتی اصولوں پر قائم کی گئی تھی جس میں اقلیتی اور دور دراز علاقوں سے غیر متناسب نمائندگی کے ذریعے مقامی آبادی پر حکومت کی جاتی تھی۔ پاکستان میں مشرقی بنگال کی آبادی 56 فیصد تھی لیکن فوج میں 1970ء تک مشرقی بنگال کا حصہ بمشکل چھ فیصد رہا۔ 1958ء میں فوج نے براہ راست حکومت سنبھالی تو مشرقی پاکستان کا احساس محرومی بڑھ گیا۔ مشرقی پاکستان کی سیاسی قیادت ابتدا ہی سے جانتی تھی کہ غلام محمد، محمد علی بوگرہ اور چوہدری محمد علی جیسے کرداروں کے پس پشت فوج کی طاقت کارفرما تھی۔ سیاسی فیصلہ سازی سے خارج کیے جانے کے علاوہ معاشی محرومی کا احساس بھی اپنی جگہ موجود تھا۔ پچیس برس میں پاکستان کو ملنے والی بیرونی امداد کا 87 فیصد حصہ مغربی پاکستان پر صرف ہوا۔ دسمبر 1971ء کے واقعات نے واضح کر دیا کہ وفاق پاکستان کو مذہبی جذبات کی بجائے سیاسی اور معاشی انصاف کی بنیاد ہی پر قائم رکھا جا سکتا ہے لیکن نئے پاکستان کی قیادت نے یہ سبق سیکھنے سے انکار کر دیا۔

عوام کو حقیقی سیاسی اور معاشی مسائل سے بے خبر رکھنے کے لیے مقتدر حلقوں میں مذہبی قیادت کی ناجائز سرپرستی کی گئی جس کے نتیجے میں سیاسی قیادت مذہبی نعروں کے سامنے پسپا ہوتی چلی گئی۔ پاکستان کے دولخت ہونے کے بعد ہماری دوسری بڑی غلطی افغان جنگ میں شریک ہونا تھا۔ افغانستان کے ساتھ ہمارے تعلقات کبھی خوشگوار نہیں تھے لیکن نصف صدی پر پھیلی افغان جنگ نے مغربی سرحد کو غیر ضروری طور پر متنازع بنا دیا۔ اس سے پاکستان کے اندر سیاسی عمل کمزور ہوا۔ معیشت پیداواری عمل کی بجائے غیر ملکی امداد کی محتاج ہو گئی۔ مقامی سرمایہ کار پے در پے حادثوں کے نتیجے میں ملکی معیشت سے مایوس ہو گیا۔ مختلف غیر مستحکم یا غیر آئینی حکومتوں نے قلیل مدتی مفاد کے لیے ایسے قضیے کھڑے کیے جنہوں نے سیاسی عمل، سماجی ہم آہنگی اور ریاستی عمل داری کو مفلوج کر کے رکھ دیا۔ سیاسی مفادات کے لیے لسانی اور فرقہ ورانہ تنظیمیں کھڑی کی گئیں۔ نتیجہ یہ کہ عدلیہ، انتظامیہ اور سیاسی قیادت کی ساکھ تباہ ہو گئی۔ آج کے پاکستان میں اگر کہیں معاشی امید کے آثار نظر آتے ہیں تو انہیں ٹھوس شکل دینے کا واحد راستہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے ہاتھوں جو گڑھے کھودے ہیں انہیں اجتماعی اتفاق رائے کی روشنی میں ختم کیا جائے۔ مجوزہ آئینی ترمیم پاکستان میں سیاست اور عدلیہ میں اختیارات کی علیحدگی کے اصول کا تسلسل ہے۔ اس ایک اقدام سے ہم سیاسی عمل کو جمہوری دائرے میں لا کر عدلیہ کو غیر ضروری بوجھ سے آزاد کر سکتے ہیں۔ ملکی منظر پر بہار اور خزاں میں پنڈولم کی یہ روایت اب ختم ہونی چاہیے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ