مشکلات کے باوجود پاکستان کے معاشی اشاریے بہتر ہوئے ہیں : آئی ایم ایف

 اسلام آباد(صباح نیوز)آئی ایم ایف پروگرام اور توسیعی فنڈ کی سہولت(ای ای ایف)حکومتی نظام میں ڈھانچہ جاتی اصلاحات کے ذریعے ایک ترقی پسند پاکستان کا تصور پیش کرتا ہے جس سے عوامی خدمات میں بہتری، نجی شعبے کا کردار بڑھے گا، ہمارامقصد کم آمدنی والے طبقات کو فائدہ پہنچانا ہے ۔ یہ باتیں پاکستان کے لئے آئی ایم ایف کی نمائندہ ایستھر پیریز روئز نے پالیسی ادارہ برائے پائیدارترقی کے زیر اہتمام پاکستانی معیار زندگی اور اقتصادی لچک کو بلند کرنے کے موضوع پر ایک مکالمہ سے خطاب کرتے ہوئے کہیں۔انہوں نے تسلیم کیا کہ پاکستان نے معاشی اہداف مکمل کر کے جو معاشی استحکام حاصل کیا ہے اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے مذید کہا کہ مجموعی طور پر ایس بی اے کی ملکیت نے 2023 کے وسط سے قابل ذکر تبدیلی کو ممکن بنایا ہے۔ پالیسی سازی میں اعتماد میں بہتری آئی ہے، شرح نمو مستحکم ہوئی ہے اور کرنٹ اکاونٹ خسارے میں کمی کے ساتھ دانشمندانہ مانیٹری پالیسی کی وجہ سے افراط زر میں بھی ڈرامائی طور پر کمی آئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ زرمبادلہ کے ذخائر اپنی کم ترین سطح سے بڑھ گئے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ ای ای ایف کے کامیاب نفاذ کے لئے تمام متعلقہ شعبوں میں مسلسل مضبوط پالیسیوں کی ضرورت ہے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ ای ای ایف 2024 کے فیچرز کا آغاز معاشی بحالی سے ہوا جبکہ اس میں سابقہ انتظامات سے سبق سیکھنے، زراعت جیسے نئے شعبوں سے ٹیکس کے اہداف میں اضافے کے ساتھ محصولات کو متحرک کرنے، نئے قومی مالیاتی معاہدے کے ذریعے صوبوں کی باضابطہ شمولیت کی تجویز دی گئی ہے جو محصولات میں اضافے کے لیے ان کے آئینی مینڈیٹ کو عملی جامہ پہنائے گا۔انہوں نے توانائی کے شعبے کی حکمت عملی کا بھی مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ترقی کے ایجنڈے کے ساتھ لاگت کے پہلو میں اصلاحات پر بھی توجہ مرکوز کی جانی چاہئے ۔ قبل ازیں اپنے افتتاحی کلمات میں ایس ڈی پی آئی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر عابد قیوم سلہری نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ریزیڈنٹ نمائندے نے اپنے حالیہ مضمون میں ای ای ایف پر کیس کو پاکستانی معیار زندگی کو بلند کرنے کی سہولت کے طور پر پیش کیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کے لئے مائیکرو اکنامک اور میکرو اکنامک استحکام کے اشاریوں کو منظم کرنے کے لئے توازن کو یقینی بنانا ایک چیلنج ہے۔خصوصی گفتگو کا اختتام وقفہ سوالات کے ایک وسیع سیشن کے ساتھ ہوا جس میں ماہرین تعلیم، سول سوسائٹی، پریکٹیشنرز اور میڈیا نے شرکت کی