پاکستان سے کشمیر کا رشتہ کیا۔۔۔۔تحریر: سردار عبدالخالق وصی

پاکستان و کشمیر نہ صرف جغرافیائی اعتبار سے ایک دوسرے کے قریب ھیں بلکہ معاشرتی،تہذیبی،سماجی اور ثقافتی لحاظ سے بھی باھم یکجان و دو قالب ھیں کشمیر کی شناخت پاکستان سے قدیم ھے لیکن قسمت پاکستان سے جڑی ھوئی ھے مجھے ان الفاظ کی ادائیگی کی ضرورت اس لئے محسوس ھوئی کہ 8/ اکتوبر 2005 کے زلزلہ کی انیسویں سالگرہ کے سلسلہ میں آزاد جموں وکشمیر میں بالخصوص اور پاکستان کے متاثرہ علاقوں میں باالخصوص تقاریب کا اھتمام ھوتا ھے جہاں ھم ان گزرے لمحات کو یاد کرکے اپنے عزیزوں کی جدائی پر غمگساری کا اظہار بھی کرتے ھیں اور اس زلزلے سے منسلک واقعات و مواقعات Opportunities پر اظہار تشکر و امتنان بھی کہ قربانیوں کے ثمرات سے قوموں کی تعمیر وترقی اور خوشحالی میں کتنی مدد ملتی ھے۔
زلزلہ 2005 میں 75 ھزار کے قریب افراد شہید ھوئے جن میں سے آزاد کشمیر کے اضلاع مظفرآباد،باغ،نیلم،ھٹیاں،
پونچھ و دیگر میں پچاس ھزار کے قریب افراد لقمہ اجل بنے ان میں زیادہ تعداد سکولوں، کالجوں و یونیورسٹی آف آزاد جموں و کشمیر میں زیر تعلیم بچوں بچیوں کی تھی۔ ھزاروں افراد بے گھر ھوئے کروڑوں اربوں روپے کی جائیدادیں تباہ ھوئیں اگر کشمیر کے پڑوس میں پاکستان نہ ھوتا تو مشکلات کی اس گھڑی میں کشمیریوں کی مدد کو کون آتا اھل پاکستان کراچی سے گوادر تک کشمیریوں کے ریسکیو کو پہنچے اس میں عام آدمی سے لیکر خواص تک پاکستان آرمی نے تو اپنے جوانوں کی نعشیں چھوڑ کر آزاد کشمیر پر توجہ مرکوز رکھی۔زلزلہ سرحدخیبر پختونخواہ میں بھی آیا لیکن پاکستان کے عوام،حکومت ،افواج پاکستان اور اداروں کا فوکس آزاد جموں وکشمیر رھا۔آزاد جموں وکشمیر پر جب بھی کوئی آفت آتی ھے پاکستان کی توجہ آزاد جموں وکشمیر پر ھوتی ھے۔
آزاد جموں وکشمیر کی ترقی کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں رھتی ھے حالیہ تحریک میں وزیراعظم پاکستان محمد شہباز شریف کی طرف ایک ھی نشست میں 23 ارب روپے کے فنڈز کی فراھمی کوئی معمولی واقعہ نہیں ھے۔یہ وہ موقع تھا جب معلوم ھو رھا تھا کہ پاکستان سے کشمیر کا رشتہ کیا ھے اس رشتہ کی تفصیلات بیان کرنے کا یہ مضمون احاطہ نہیں کرسکتا لیکن اس سے اندازہ ضرور لگایا جاسکتا ہے۔
پاکستان و آزاد جموں وکشمیر کا یہ خطہ زلزلوں کی فالٹ لائن پر واقع ھے جہاں کسی وقت بھی اللہ نہ کرے اس طرح کا سانحہ رونما ھوسکتا ھے جس کے لئے قومی و مقامی سطح پر ایسے حفاظتی و حادثاتی اقدامات کی تربیت و تدابیر سے آشنائی لازم و ناگزیر ھے۔سوشل مکینک کنسلٹسی فرم نے اس سلسلے میں تعلیمی اداروں کو زیادہ فوکس کیا کیونکہ گزشتہ زلزلے میں زیادہ نقصان تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم بچوں اور سٹاف کا ھوا انکی تربیت کی طرف توجہ وقت کا اھم تقاضا ھے۔ اس سلسلے میں ضلع پونچھ کی سطح پر ڈسٹرکٹ منیجمنٹ کے ساتھ ڈسٹرکٹ ایجوکیشن افیسر پونچھ بابر ایاز،ڈویثرنل ڈائرکٹر کالجز و سکولز اخلاق شمسی، ریحانہ شاہ محمد شہناز گردیزی، سرکاری و پرائیویٹ اداروں کے منتظمین و اساتذہ کرام،شہری دفاع،پولیس محکمہ صحت عامہ،سیاحت، و دیگر تمام اداروں ،سول سوسائٹی،الیکٹرک، پرنٹ و سوشل میڈیا کے ایکٹیوسٹس کے تعاون سے اس تقریب کا اھتمام ھوا اس تقریب کے پس منظر میں جاوید خان اور محکمہ تعلیم کے ذمہ دران کے تعاون و راھنمائی میں دس ھزار کے قریب طلباء و طالبات اور اساتذہ کو ایسے سانحات سے نبٹنے کے لئے تربیت دی گئی ھے جو ایک بہت بڑا اقدام ھے اس کی تحسین بھی واجب ھے اور اسکے لئے ڈپٹی کمشنر پونچھ ڈسٹرکٹ ایجوکیشن افیسرز،سوشل مکینک کنسلٹینسی فرم کی خدمات قابل تحسین ھیں۔ راولاکوٹ کے دس سرکاری و پرائیویٹ اداروں جس میں پوسٹ گریجویٹ کالجز مردانہ و زنانہ،بوائز ھو گرلز ھائی و مڈل سکول دریک، پائلٹ ھائی سکول راولاکوٹ جبکہ پرائیویٹ اداروں میں ویثرن سکول ،زینتھ ول ،ریڈ فاؤنڈیشن سکول ،نشینل سکول سسٹم،ایکسپلور سکول راولاکوٹ شامل ھیں کے پرنسپلز اور سٹاف کو سکول سیفٹی ٹرافیز و ایوارڈز دئیے گئے۔ میں چار ھزار سے زاھد بچوں اور انکے اساتذہ کو شریک involve کیا گیا۔مختلف سٹالز لگائے گئے اگرچہ بارش باعث تمام ایونٹس دیکھے نہیں جاسکے لیکن اداروں کی تیاری اور پارٹیسپیشن بھرپور تھی۔
اس دن کی مناسبت سے آزاد کشمیر میں ھر سال عام تعطیل اور دعائیہ تقاریب کا اھتمام ھوتا ھے۔
اس سال ان تقاریب میں قدرے جدت نظر آئی شاھد ھمارے ھم دم دیرینہ سکریٹری سیرا (State Earth Quake Rehabilitation Authority)SERA مسعود الرحمن نے اس میں نئی روح ڈالی اور راولاکوٹ میں ڈپٹی کمشنر پونچھ ممتاز کاظمی جو ڈسٹرکٹ ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی کے ھیڈ بھی ھیں انکا ضلع پونچھ راولاکوٹ کی قربان ساز و تاریخ ساز روایات کے شایان شان تقاریب کے اھتمام کا خصوصی ذوق و شوق بھی رکھتے ھیں۔ راولاکوٹ اور گردو نواح میں جہاں کہیں کوئی ثقافتی فیسٹیول ھو،سیاحتی و زرعی پروموشن کا کوئی ایونٹ ھو،کھیلوں کی سرگرمیوں اور ادبی و تعلیمی کانفرنسوں و سیمیناروں کا انعقاد ھو اسکے پس منظر میں وہ نمایاں ھوتے ھیں پونچھ کے خصوصی سیاسی مد و جزر میں انہیں مشکلات و جواب دہی کا سامنا بھی رھتا ھے لیکن وہ اپنی مصروفیات سے اپنی دلچسپی و ذمہ داری کے ان مشاغل کے لئے وقت نکال لیتے ھیں۔ اس بار ڈسٹرکٹ منیجمنٹ اتھارٹی کے زیر اہتمام زلزلہ متاثرین سے اظہار یکجہتی کی انیسویں سالگرہ کے موقع پر انکے زریعے سوشل مکینک کنسلٹسی کے چئیرمین جاوید خان کے پیغام موصول ھوا کہ ڈپٹی کمشنر پونچھ ممتاز کاظمی اور انکی خواھش ھے کہ میں بھی اس تقریب میں شریک ھوں۔
میری جاوید صاحب سے باوجودیکہ انکا تعلق میرے قریبی گاؤں بگلے پاچھیوٹ سے ھے زیادہ نشست و برخاست نہیں رھی لیکن مجھے اس تقریب میں جا کر اندازہ ھوا کہ موصوف اس فیلڈ کے ایک ایسے ایکٹیوسٹ ھیں کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کی انجام دہی میں خود سوتے ھیں نہ دوسروں کو آرام سے سونے دیتے ھیں ایک تقریب ختم کرتے ھیں تو دوسری کے incentives لیکر دفاتر میں براجمان رھتے ھیں اور انکی گفتگو سے لیکر فعل و عمل میں کہیں وقفہ نظر نہیں آتا ھمیں ھر شعبہ زندگی میں ایسے متحرک و بیدار مغز کمٹیڈ جوانوں کی ضرورت ھے جو ھمہ وقت مصروف عمل رہ کر معاشرے کے لئے آسانیاں و سہولتیں بہم پہنچانے کے جذبہ سے سرشار ھوں۔
منعقدہ تقریب کی صدارت کی ذمہ داری مجھے سونپی گئی حالانکہ میں سمجھتا ھوں کہ اسکا استحقاق منتظمین کانفرنس میں سے کسی کا بنتا تھا لیکن قہر درویش پر جان درویش کے مصداق مجھے ھی اس کا سزاوار گردانا گیا۔ اس تقریب میں سرکاری و پرائیویٹ تعلیمی اداروں سے وابستہ طلبا و طالبات اساتذہ خواتین و بچوں کی کثیر تعداد نے شرکت کی تقریب سے ڈپٹی کمشنر پونچھ ممتاز کاظمی،ڈسٹرکٹ پولیس افسر ریاض مغل، مکینک کنسلٹینسی کے ماھر سردار جاوید خان،عابد خان،محکمہ تعلیم ،مال،پولیس و میڈیا کے نمائندوں نے خطاب کیا جبکہ صدارتی کلمات کی ادائیگی میرے ذمہ تھی اختصار سے تقریب کے اھتمام پر ڈسٹرکٹ منیجمنٹ اتھارٹی،سکولز کالجز منیجمنٹ،سوشل مکینک کنسلٹینسی کے ماھر جاوید خان اور جملہ دیگر کی کاوشوں پر خراج تحسین کے ساتھ اس سانحہ کے شکار خاندانوں سے اظہار یکجہتی کے ساتھ پاکستان کے عوام و حکومت وقت،بالخصوص عساکر پاکستان اور انکے ادارے،بین الاقوامی سربراھان و ادارے جنکی مدد اور اخراجات کثیر سے آزاد کشمیر کو جدید سہولیات بہم پہنچائی گئیں اور ھماری ضروریات کما حقہ پوری کرنے پر ان سب کا شکریہ ادا کیا گیا اور ایسے سانحات کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنی انفرادی،ادارہ جاتی اور حکومتی ذمہ داریوں پر توجہ مبذول کرائی گئی۔