ملک میں معاشی حوالے سے بہتری کے آثار نظر آنا شروع ہو گئے لیکن مستقبل کے متعلق غیر یقینی کی دھند اب بھی برقرار ہے۔ دعوے، دھمکیاں اپنی جگہ مگر کسی بھی پہلو کو زمینی حقائق سے ہٹ کر نہیں دیکھا جا سکتا۔ یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم سہمی ہوئی حکومت اور پر تشدد احتجاج پر تلی پی ٹی آئی دونوں کے لیے پھندا بن چکی ہے۔ ترمیم ہو گئی تو پی ٹی آئی اور اس کے سہولت کاروں کے ہاتھ کٹ جائیں گے۔ ترمیم نہ ہوئی تو حکومت کی بقا خطرے میں پڑ جائے گی۔ حالات کو اس نازک موڑ تک لانے میں سب سے زیادہ قصور کس کا ہے اور لوگ کیا کہہ رہے ہیں؟ اس حوالے سے ارباب اختیار کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ سب سے پہلے تو یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ سیاسی بدتمیزی کے سونامی کے دوران پی ٹی آئی کے مقابلے میں پیپلز پارٹی نے نہ صرف اپنا وجود برقرار رکھا، سیاست بچائی بلکہ حکومتوں کے مزے بھی لوٹ رہی ہے۔ جے یو آئی کی سیٹیں کم ہوئیں، وہ اپوزیشن میں جا بیٹھی لیکن اس کی سیاسی حیثیت اور موثر سٹریٹ پاور آج بھی برقرار ہے۔ حکومتی اور اپوزیشن پارٹیاں دونوں مولانا کے در پر حاضری لگوانے پر مجبور ہیں۔ اس ماحول میں سب سے زیادہ نقصان مسلم لیگ ن کا ہوا اور کہنے والے تو یہ تک کہہ رہے ہیں کہ ن لیگ اپنی آخری سیاسی اننگ کھیل رہی ہے۔ عوام میں گھل مل کر رہنے والے جانتے ہیں کہ ن لیگ کی حکومت بننے کے بعد لوگوں کی تنقید کی توپوں کا سارا رخ شہباز شریف کی طرف تھا، مریم نواز وزیر اعلی بنیں تو ان پر بھی نکتہ چینی شروع ہو گئی۔ تیسرے مرحلے میں عوام نواز شریف کو بھی نہیں بخش رہے۔آخری اور خطرناک مرحلہ یہ ہے کہ ملک میں عدم استحکام کی صورتحال پر موثر طریقے سے قابو نہ پانے پر اب ہر کوئی اسٹیبلشمنٹ کی قیادت پر انگلیاں اٹھا رہا ہے۔ کیا مضحکہ خیز ماحول ہے کہ ایک طرف تو پی ٹی آئی اور اس کے سہولت کار حکمرانوں اور ان کے سرپرستوں کے خوب لتے لے رہے ہیں اور دوسری جانب ان کے اپنے حامی بھی اپنی ناراضی کا کھلم کھلا اظہار کر رہے ہیں۔ مسلم لیگ ن اس حد تک عوام بیزار اور غیر سیاسی ہو جائے گی کسی نے سوچا تک نہ تھا۔ شہباز شریف کا انداز حکمرانی شروع سے ہی غیر سیاسی ہے۔ نواز شریف کی خرابی صحت کے جواز کو درست مان لیا جائے تو عوامی سیاست مریم نواز کو بحال کرنا تھی لیکن وہ اس وقت عام لوگوں تو کیا اپنی پارٹی سے بھی کٹ کر رہ گئی ہیں۔ بڑھتی ہوئی عدم مقبولیت کسی کو بھی مکمل طور پر سیاسی حوالے سے غیر متعلقہ اور غیر اہم کر کے رکھ دیتی ہے۔ افراد ہوں، جماعتیں یا ادارے ہر کسی کو اپنے اعمال کی قیمت خود چکانا پڑتی ہے۔ اسلام آباد پر اپنی حالیہ یلغار کے بعد بظاہر پی ٹی آئی کی احتجاجی سیاست کو نقصان پہنچا ہے لیکن یہ تو سب نے دیکھ لیا کہ تمام تر حفاظتی بندوبست کے باوجود شہر اقتدار میں پر تشدد مظاہرے ہو گئے، پتھراو، لاٹھی چارج، آنسو گیس کے شیل، ایک پولیس اہلکار کی ہلاکت اور سو سے زائد زخمی ہو گئے۔ یوں بڑی خبر بن گئی۔ جیل میں بند بانی پی ٹی آئی کو اسٹیبلشمنٹ نے تیار ہی ملک میں انتشار پیدا کرنے کے لیے کیا تھا۔ قیدی نمبر 804 کے لیے یہی بہت ہے کہ جیل میں بیٹھ کر دی جانے والی کال پر بڑا ہنگامہ کھڑا ہو گیا۔ اپریل 2022 میں عمران حکومت کے خاتمے کے بعد سے سیاسی انتشار روکنے کے لیے کوئی ڈھنگ کی حکومتی پالیسی سامنے نہیں آئی۔ اب کہیں جا کر یہ احساس کیا گیا ہے کہ بانی پی ٹی آئی جیل میں ہے تو سلوک بھی قیدیوں والا ہی ہونا چاہیے۔ یہی سوچ کر روزانہ کی جانے والی پریس کانفرنسوں پر پابندی لگائی گئی ہے۔ عدلیہ کو آئینی حدود کے اندر رکھنے کے حوالے سے جو اقدامات کیے جا رہے ہیں وہ کتنے موثر ثابت ہونگے، یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ اگلے ممکنہ چیف جسٹس منصور علی شاہ اور ان سات ہم خیال ساتھی ججوں نے اپنا ذہن واضح کر دیا ہے کہ وہ 2024 کے عام انتخابات کو کالعدم قرار دیں گے۔ آئین ری رائٹ کرنے کا سلسلہ جاری رہے گا۔ اس حوالے سے حکومت کی جوابی حکمت عملی ٹھوس نہ ہوئی تو وہ خود بکھر جائے گی۔ حالیہ ہنگاموں میں پھر ثابت ہو گیا کہ یو ٹیوبروں کے نام پر اسٹیبلشمنٹ نے ففتھ جنریشن وار کے مجاہدین کی جو فورس تیار کی ہے وہ پرتشدد مسلح گروہ سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ یہ ایک طرف تو ہجوم کو حملوں پر اکساتے ہیں پھر فوٹیج کے ایسے حصے سوشل میڈیا پر ریلیز کرتے ہیں جس میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ولن کے طور پر دکھایا جاتا ہے۔ کے پی کے اور بلوچستان میں دہشت گردی کا اژدھا پھنکار رہا ہے مگر انتشار پسند جماعت نے وزیر اعلی کے پی کے کو اسلام آباد پر حملوں کا ٹاسک سونپ رکھا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ گنڈا پور وکٹ کے دونوں جانب کھیل رہے ہیں لیکن اس کا سارا نقصان ریاست اور عوام کو ہی پہنچ رہا ہے۔ حالیہ دھاوے کے دوران سادہ لباس میں کے پی کے پولیس اہلکاروں کے مسلح دستے پنجاب اور اسلام آباد پولیس پر آنسو گیس کے شیل بھی فائر کرتے رہے۔ افغان باشندوں کو ساتھ لے کر وفاقی حکومت پر چڑھائی کرنے کی جو مثال قائم کی گئی ہے اس کے بعد بھی سخت ترین کارروائی نہ کی گئی تو اس کا اگلا مرحلہ مسلح تصادم کی صورت میں ہی نکلے گا۔ لاشوں کی متلاشی پی ٹی آئی کو زندہ رہنے کے لیے ایسے ہی موقع کی تلاش ہے۔ یہ تو ثابت ہو چکا کہ موجودہ حکومت اپنا دفاع کر سکتی ہے اور نہ ہی اپنا ساتھ دینے والوں کو تحفظ فراہم کر سکتی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ میں موجود ایسے عناصر جو صدق دل سے خیال کرتے ہیں کہ پی ٹی آئی کسی طور اقتدار کے لیے موزوں نہیں یقینا وہ اس نتیجہ پر بھی پہنچ چکے ہوں گے اگر سب کچھ ہم نے ہی کرنا ہے تو حکومت کس مرض کی دوا ہے۔ ملک میں اقتدار کا اگلا منظر نامہ آئینی ترامیم سے مشروط ہو چکا۔ اس کے بعد ہی فیصلہ ہو گا کہ پھندا کس کے گلے میں فٹ ہو گا؟۔
بشکریہ روزنامہ نئی بات