ذاکر نائیک یا علامہ اقبال؟ … تحریر : سہیل وڑائچ


میری تربیت میں علمائے کرام اور مشائخ عظام کی کفش برداری شامل ہے، علمائے کرام ہمارے سروں کے تاج اور ہماری آخرت کاسہارا ہیں ہمیں جو تھوڑی بہت دین کی سمجھ ہے وہ انہی علما ومشائخ کے وجود مسعود سے ممکن ہوئی ہے۔ پوری مسلم دنیا میں علما کا یہ احترام ہر طرف موجود ہے۔ میں تو کسی بھی عالم دین سے ملوں تو جھک کر ملتا ہوں، میرے والد صاحب تو مجھ پر زور دیتے تھے کہ گھٹنوں کو ہاتھ لگاؤں۔ حضرت ڈاکٹر ذاکر نائیک کا میرے دل میں انتہائی احترام ہے وہ قرآن کی ایک ایک آیت کو جس طرح کھول کربیان کرتے ہیں اس سے قلب و ذہن کے دروازے وا ہو جاتے ہیں وہ مذہب اسلام کی سچائی اور انسان دوستی کیلئے ایک طاقتور ترین آواز سمجھے جاتے ہیں دیگر مذاہب کے مقابلے میں اسلام کی حقانیت کو جس طرح وہ ثابت کرتے ہیں اس میں ان کا شاید ہی کوئی ثانی ہو۔ احمد دیدات کے بعد آج وہ واحد مسلمان ہیں جو عیسائیوں ،ہندوؤں اور یہودیوں کو ایسا مسکت جواب دیتے ہیں کہ وہ لاجواب ہو جاتے ہیں، اپنی انہی خوبیوں کی وجہ سے وہ اب تک ہزاروں لوگوں کو دائرہ اسلام میں داخل کر چکے ہیں میرے جیسے گناہگار تو ان کے احسانات کا بدلہ تک نہیں اتار سکتے۔ ان سب معروضات کے بعد میں ڈرتے ڈرتے یہ سوال اٹھانا چاہتا ہوں کہ ایسے میں جب کہ غزہ اور لبنان میں تباہی پھیلی ہوئی ہے اور اسرائیل جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے مسلم ممالک کو چن چن کر نشانہ بنا رہا ہے کیا ایسے میں حضرت ڈاکٹر ذاکر نائیک کو پاکستان بلا کر ان مصائب سے نکلنے کا کوئی حل حاصل کیا جاسکتا ہے؟ اگر آج مسلم امہ کے زوال کی وجہ ایمان کی خرابی ہے تو پھر حماس جیسے مذہب پر سختی سے کاربند لوگ ہی کیوں تباہ ہو رہے ہیں؟ حزب اللہ جیسے کٹر مذہبی سپاہی ہی کیوں عذاب میں مبتلا ہیں؟ اس وقت عالم اسلام اور امہ کو دینی نہیں دنیاوی مسئلہ درپیش ہے۔ بالکل وہی صورتحال ہے جو غلام ہندوستان میں مسلمانوں کی تھی۔ دیوبند، بریلی، اہل حدیث اور شیعہ مکتب فکر کے بڑے بڑے اکابر ملت موجود تھے مگر مسلمانوں کے مسائل کا حل داڑھی منڈے اقبال اور جدید تعلیم یافتہ مسٹر جناح نے دیا۔ آج بھی ہمیں کسی حضرت ڈاکٹر ذاکر نائیک کی نہیں بلکہ ایک نئے مسٹر جناح اور سرمحمد اقبال کی ضرورت ہے، آج مناظرے کی ضرورت نہیں ہمیں تنازعے کا حل بتانے والے کی ضرورت ہے۔

حضرت ڈاکٹر ذاکر نائیک سے میرا نہ کوئی مذہبی اختلاف ہے نہ مسلکی اور نہ ہی ذاتی بلکہ مجھے موقع ملاتو ان کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کر کے ان سے ایمان اور آخرت کے حوالے سے کچھ سیکھنے کو سعادت سمجھوں گا مگر مسئلہ ٹائمنگ کا ہے۔ جنازے کے وقت عید کی نماز نہیں پڑھی جا سکتی۔ اس وقت ایشو یہ ہے کہ امت مسلمہ اپنے اوپر نازل کردہ جنگ سے کیسے نکلے؟جدید ٹیکنالوجی اور سائنس کا مقابلہ کیسے کرے؟ ایسے میں ہمیں ڈاکٹر ذاکر نائیک کی نہیں کسی مدبر سیاستدان اور کسی بڑے سائنسدان کی ضرورت ہے۔ یادش بخیرسرسید احمد خان مغلیہ سلطنت کے زوال پذیر ہونے کے باوجود اس کی عظمت رفتہ کی داستانیں آثار الصنادیداور آئین اکبری کے نام سے لکھ رہے تھے،انہوں نے اپنے والد مرحوم کے دوست اسد اللہ خان غالب سے ایک کتاب کے بارے میں پیش لفظ کا تقاضا کیا تو انہوں نے فارسی نظم لکھ بھیجی جس کا لب لباب یہ تھا کہ ان پرانے دساتیرکو چھوڑو اور دیکھو مغربی دنیا میں کون سے نئے آئین لکھے گئے ہیں ،سائنس اور ٹیکنالوجی نے وہاں کیا کیا ترقی کی ہے اس کو اپناؤ۔ اور پھر اس نصیحت یا تجربے سے سرسید احمد خان کی زندگی اور سوچ میں ایک انقلاب آگیا اور انہوں نے روایتی علما کی سوچ سے انحراف کرتے ہوئے مسلمانوں کو انگریزی زبان اور سائنس کی تعلیم دلانے کا مشن شروع کردیا۔ اگر دیو بند، لکھنو اور بریلی کے دبستانوں کی سنی جاتی تو وہ تو جدید تعلیم کو زہر قاتل قرار دے رہے تھے یہ جدید تعلیم ہی تھی جس نے اقبال اور جناح تیار کئے اور پھر ان ہی نے پاکستان کے خواب کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔

جہاں تک دینی معاملات کا تعلق ہے مفتی اعظم پاکستان مفتی تقی عثمانی، مفتی سواد ِاعظم مفتی منیب الرحمان، حضرت علامہ ساجد میر اور ملت جعفریہ کے قائد راجہ ناصر جیسے بلند پایہ علمائے کرام کی موجودگی میں پاکستان کے لوگوں کی مذہب سے وابستگی اور پیروی کو فی الحال کوئی بڑا خطرہ درپیش نہیں ان چند بڑے ناموں کے علاوہ ہر شہر اور گائوں میں غیور اور جرات مند علمائے کرام اور قابل احترام مشائخ عظام کی ایک پوری جماعت اس ملک کے گناہ گار مسلمانوں کی درست سمت میں رہنمائی کیلئے ہر وقت کوشاں و سرگرم رہتی ہے۔ایک طرف توہم غزہ و بیروت کی کربلا سہہ رہے ہیں دوسری طرف کیاہم پھر سے اس بحث میں پڑ جائیں کہ نماز ہاتھ کھول کرپڑھنا درست ہے یا ہاتھ باندھ کر؟ کیا ڈاکٹر ذاکر نائیک کی آمد سے انہی متنازعہ امور کو ہوا نہیں ملے گی؟ کیا امت مسلمہ کو یاد نہیں کہ سقوط بغداد کے وقت جب ہلاکو خان مسلمانوں کے سروں سے مینار تعمیر کر رہا تھا تو تب بھی ہم فروعی مناظروں میں الجھے ہوئے تھے اس وقت کے مناظر اعظم اپنے اپنے عقائد کے حق میں دلائل کے انبار لگا رہے تھے اور منگول فوجی ان کے عقائد سے قطع نظر سب مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ رہے تھے،کیا ہم پھربغداد کی تاریخ دہرانے کے درپے ہیں؟ کیاسلطنت عثمانیہ کا زوال بھول گئے؟ کافی((COFFEEکے مسلمان یا کافر ہونے پر فسادات ، تصویر کے اسلامی اور غیر اسلامی ہونے پر جھگڑے، گھڑیال کو بدعت قرار دینے کا واقعہ اور شہزادے کا چوک میں گھڑیال کا کلہاڑے سے قتل عام کرکے جشن فتح منانے کا اعلان، کیا ہم پھر انہی تاریک راہوں کی طرف لوٹ رہے ہیں؟۔ کیا سقوط ڈھاکہ یاد نہیں جب مغربی اور مشرقی پاکستان کے دو بھائیوں میں وہ تعصب کی لڑائی ڈالی گئی کہ بھارت کو سقوط ڈھاکہ کا دن دکھانے کا موقع مل گیا۔ کیا یہ وقت پاکستان کے مختلف مکاتب فکر میں اتحاد کا ہے یا یہ ثابت کرنے کا کہ رفع یدین درست ہے یا نہیں، مزار پر جا کر دعا مانگنی جائز ہے یا نہیں یا پھر رسول ِاکرم ۖ کو غیب کا علم تھا یا نہیں، مولانا حضرت اپنی یہ قادر الکلامی کسی اور وقت تک اٹھا رکھیں پھر آپ اپنے عقائد کی حقانیت سب پر ثابت کرلیجئے گا اورباقی سب گناہ گاروں کو راہ راست پر لے آیئے گا ،ابھی تو یہ وقت اتحاد کا ہے ہمیں ایک نئے اقبال اور نئے جناح کی ضرورت ہے کسی ایسے مولانا، حضرت یا ڈاکٹر کی نہیں جو فرقہ وارانہ مسائل پر اتھارٹی ہو، ہمیں تو وہ چاہیے جو مغربی دنیا کے مقابل کھڑا ہونے کا طریقہ بتائے، ہمارے اتحاد کا ذریعہ بنے،کوئی راستہ نکالے کہ غزہ اور بیروت کی تباہی رکے، ایسا فارمولا بتائے کہ جس سے ایران محفوظ اور پرامن رہ سکے۔ ایسے اقدامات بتائے جس سے پاکستان کا ایٹمی پروگرام محفوظ رہ سکے اور یہ سوچے امت مسلمہ کیسے متحد ہوگی، اس میں معاشی تعاون کیسے ہوسکتا ہے، ہم ٹیکنالوجی اور سائنس میں اسرائیل اور امریکہ کی مسابقت میں کیسے آ سکتے ہیں۔؟ اس وقت مناظر کی نہیں مدبر کی ضرورت ہے، بحران میں مردِ بحران چاہیے ہوتا ہے ماہر علم الکلام نہیں۔ امت مسلمہ کو اس وقت اتحادکی ضرورت ہے ایسے لیڈر کی ضرورت ہے جو مسلمانوں کو جوڑے جواتفاقات تلاش کریاختلافات کونہ ڈھونڈے، کیا ڈاکٹر ذاکر نائیک اس کام کیلئے موزوں ہیں؟

ہمیں اس موقع پر کسی ایسے مرد مومن اور زیرک نگاہ کو پاکستان بلانا چاہیے تھا جو اقبال کی طرح خطبات مدارس دے کر مسلمانوں کو نئی دنیا میں سر اٹھا کر چلنے کا کوئی حل بتاتا، کوئی ایسا مہمان آتا جو بتاتا کہ اسرائیل کی ڈیجیٹل جنگ کا مقابلہ کس تکنیک سے کرنا ہے، ہمارے مذہبی مقرر کیا جانیں اسرائیل کے غیر مرئی مصنوعی ذہانت یونٹ 8200کامقابلہ کیسے کرنا ہے؟ مناظر کیتو فرشتوں کو بھی علم نہیں کہ مصنوعی ذہانت کے پروگرام لونڈر اور گوسپل کس طرح چن چن کر فلسطینیوں اور لبنانی مسلمانوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ مصنوعی ذہانت کے کسی ماہر کو بلائیں ،کسی ٹیکی TECHY کو بلائیں ، ہمارا مسئلہ مذہبی نہیں سائنسی ہے، جناب!!

بشکریہ روزنامہ جنگ