آرمی ویلفیئر ٹرسٹ کے استعمال کے لئے سرکاری طور پر خریدی گئی 13کنال17مرلے زمین کی قیمت زیادہ کرنے کے معاملہ پر دائر نظرثانی درخواست جرمانے کے ساتھ خارج

اسلام آباد(صباح نیوز)سپریم کورٹ آف پاکستان نے آرمی ویلفیئر ٹرسٹ کے استعمال کے لئے اسلام آباد میںسرکاری طور پر خریدی گئی 13کنال17مرلے زمین کی قیمت زیادہ کرنے کے معاملہ پرڈیفنس ہائوسنگ اتھارٹی، اسلام آبادکی جانب سے سپریم کورٹ کے فیصلہ کے خلاف دائر نظرثانی درخواست جرمانے کے ساتھ خارج کردی۔جبکہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ کہ آئین کے آرٹیکل 187کے تحت سپریم کورٹ کو مکمل انصاف کرنے کااختیار ہے کہیں یہ رقم بڑھ نہ جائے۔ 2لاکھ روپے قیمت کم ہے کیااس کو بڑھادیں۔ جس قیمت پر زمین بیچوگے اس کا چوتھا حصہ کم کرکے رقم دے دو، کروڑوں روپے دینا پڑیں گے۔ اگر زمین لینی ہے جاکرمارکیٹ ریٹ پر خریدیں، کوئی ایسے معاملات کوچیلنج بھی نہیں کرتا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس نعیم اخترافغان اور جسٹس شاہد بلال حسن نے ڈیفنس ہائوسنگ اتھارٹی ، اسلام آباد کی جانب سے محمد صدیق اوردیگر کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔

درخواست گزار کی جانب سے سینئر وکیل محمد منیر پراچہ اور راشد محمود سندھوایڈووکیٹ پیش ہوئے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کاوکیل محمد منیرپراچہ سے مکالمہ کرتے کرتے ہوئے کہناتھاکہ کتنا جرمانہ کریں ، اس میں مئوکل کانہیں وکیل کاقصورتھا۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ جس سے جرمانہ لگتا ہے اس سے نہیں پوچھا جاتا۔ چیف جسٹس نے وکیل راشد محمود سندھو کواختیار دیا کہ وہ بتائیں محمد منیر پراچہ پر کتنا جرمانہ کریں۔ اس پر راشد محمود سندھو کی جانب سے کچھ نہ بتانے پر چیف جسٹس نے انہیں ہدایت کہ وہ جاکرکرسی پر بیٹھ جائیں۔ جسٹس کاکہناتھا کہ سب سے مہنگی اورسب سے سستی زمین کتنے میں خریدی۔ اس پر محمد منیرپراچہ کا کہنا تھاکہ سب سے مہنگی ایک لاکھ 14ہزار580روپے او ر سب سے سستی 67979روپے فی کنال خریدی۔محمدمنیر پراچہ کہنا تھاکہ ریفری کورٹ نے قیمت بڑھا کر2لاکھ روپے فی کنال کردی جوکہ جمع کروادی گئی۔چیف جسٹس کاکہناتھا کہ 2لاکھ روپے قیمت کم ہے کیااس کو بڑھادیں۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 187کے تحت سپریم کورٹ کو مکمل انصاف کرنے کااختیار ہے کہیں یہ رقم بڑھ نہ جائے۔چیف جسٹس کامحمد منیرپراچہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ کتنے میں زمین آگے بیچیں گے۔

محمد منیر پراچہ کاکہنا تھا کہ کل 13کنال سے زائد زمین ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ خرچہ کتنا کرنا ہے، سڑکیں بنانی ہیں، پلاٹنگ کرنی ہے ، اشتہار دینا ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ جس قیمت پر زمین بیچوگے اس کا چھوتھا حصہ کم کرکے رقم دے دو، کروڑوں روپے دینا پڑیں گے۔ محمد منیر پراچہ کاکہنا تھا کہ درخواست پر میرٹ پر خارج کردیں۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ایک سڑکوں اوردیگر عوامی فلاح کے منصوبوں کے لئے سرکاری طور پر زمین حاصل کی جاتی ہے یہ دوسری قسم ہے جس میں اُس سے زبردستی زمین کھینچو پلاٹ بنائو اوربیچو ، آپ عوامی مفاد والے کھاتے میں نہیں آتے،آپ کمپنی بھی نہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ اگر زمین لینی ہے جاکرمارکیٹ ریٹ پر خریدیں، کوئی ایسے معاملات کوچلنج بھی نہیں کرتا۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ 4لاکھ روپے مدعا علیہ نے مانگے ہوں کے 2لاکھ اس کودے دیئے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ میں اتنی بڑی گستاخی کرسکتا ہوں کہ محمد منیر پراچہ کوجرمانہ لگائوں۔

چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ خود پراپنی مرضی سے جرمانہ عائد کریں اور اپنے مرضی کے خیراتی ادارے کوجمع کروائیں۔ چیف جسٹس کاحکم لکھواتے ہوئے کہناتھا کہ 20فروری 2024کے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف ڈی ایچ اے اسلام آباد کی جانب سے نظرثانی درخواست دائر کی گئی۔آرمی ویلفئر ٹرسٹ کے لئے 13کنال17مرلے زمین خریدی گئی تھی جو کہ تحلیل ہوگیا ہے اورتمام اثاثے اور چیزیں ڈی ایچ اے اسلام آباد کو منتقل ہوگئے ہیں۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ وکیل روسٹرم پرآکرکھڑے ہوجائیں گے کام نہیں
کریں گے۔چیف جسٹس کاوکیل محمد منیر پراچہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھاکہ اپنے آپ خود جرمانہ عائد کریں بے شک ایک روپیہ ہی کریں۔ اس پر منیر پراچہ کاکہناتا کہ اپنے آپ پر کم ہی جرمانہ کروں گا۔اس کے بعد محمد منیر پراچہ نے اپنے اوپر 5ہزار روپے جرمانہ عائد کیا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ رقم اپنی مرضی کے خیراتی ادارے کواداکریں۔ عدالت نے نظرثانی درخواست خارج کردی۔ چیف جسٹس کامحمد منیر پراچہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ میرے استاد ہیں اور اتنے بڑے وکیل ہیں، میں کم ازکم ایک لاکھ روپے جرمانہ توآپ کوکرتا۔