امریکی صدارتی امیدوار بننے سے پہلے ٹرمپ کا شمار مشہور اور رنگین ارب پتیوں میں ہوتا تھا

 واشنگٹن(صباح نیوز) برطانوی نشریاتی  ادارے بی بی سی کے مطابق امریکی صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کاامریکہ کی صدارت کے لیے امیدوار بننے سے کہیں پہلے ان کا شمار ملک کے مشہور اور رنگین ارب پتیوں میں ہوتا تھا۔پانچ نومبر 2024، کو صدارتی انتخابات میں ان کا مقابلہ کملا ہیرس سے ہوگا بی بی سی رپورٹ کے مطابق ایک زمانے میں، ان کے امریکہ کے صدر بن جانے کو ایک ایسی بات سمجھا جاتا تھا جس پر یقین کرنا مشکل ہو لیکن اب 78 سالہ ٹرمپ تیسری بار صدارتی انتخاب میں حصہ لینے جا رہے ہیں۔جب ٹرمپ 2016 میں پہلی بار صدارتی انتخاب لڑ رہے تھے تو ان کے امیدوار بننے کے بارے میں بہت سے سوالات تھے اور ان کی کامیابی کے بارے میں شبہ کی بہت سی وجوہات بھی تھیں۔ان کی متنازع انتخابی مہم میں، تارکینِ وطن پر سختی سب سے اہم مسئلہ تھا۔

اس کے علاوہ ان کی بطور ایک مشہور شخصیت زندگی بھی سوالوں میں گھری ہوئی تھی۔لیکن انھوں نے تمام پیشن گوئیوں کو غلط ثابت کیا اور رپبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار بننے کی دوڑ میں بے باک مہم کی مدد سے تجربہ کار سیاستدانوں کو پچھاڑ دیا اور پھر ایک قدم آگے بڑھ کر انھوں نے ہلیری کلنٹن کے خلاف صدارتی انتخاب بھی جیت لیا۔ان کا پہلا صدارتی دور تنازعات سے بھرپور رہا جس کے باوجود انھوں نے حیران کن طریقے سے سیاسی میدان میں واپسی اختیار کی اور حالیہ مہم انھیں ایک بار پھر امریکہ کے وائٹ ہاوس پہنچا سکتی ہے۔لیکن وہ یہاں تک کیسے پہنچے؟نیویارک میں جائیداد کے کاروبار سے منسلک فریڈ ٹرمپ کے بچوں میں ٹرمپ کا چوتھا نمبر تھا۔ بیپناہ خاندانی دولت کے باوجود انھوں نے اپنے والد کی کمپنیوں میں چھوٹی موٹی ملازمتیں کیں اور جب ڈونلڈ ٹرمپ 13 سال کے تھے تو ان کے والد کو ان کے کمرے میں ایک بٹن سے کھلنے والا چاقو ملا تو انھوں نے فورا ان کی اصلاح کے لیے انھیں ملٹری سکول روانہ کر دیا۔ڈونلڈ ٹرمپ بیس بال ٹیم کے کپتان کی حیثیت سے اچھے کھلاڑی ثابت ہوئے اور انھیں صفائی ستھرائی کے لیے نیٹ نیس اینڈ آرڈر کا اعزاز بھی ملا لیکن ملٹری اکیڈمی میں وہ قریبی دوست بنانے میں ناکام  رہے۔

1964 میں سکول سے فارغ ہونے کے بعد گلیمر کی دنیا سے بہت زیادہ متاثر ہونے کے سبب ان کے ذہن میں فلم سکول جانے کا خیال مچلنے لگا لیکن انھوں نے فورڈہم یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور پھر دو سال بعد پینسلوینیا یونیورسٹی کے وارٹن بزنس سکول منتقل ہو گئے۔یہیں سے وہ کاروبار سنبھالنے کے لیے اپنے والد کی پسندیدہ اولاد بنے۔ انھیں ان کے بڑے بھائی فریڈ ٹرمپ جونیئر پر ترجیح دی گئی تھی جنھوں نے پائلٹ بننے کا فیصلہ کیا تھا اور پھر 43 برس کی عمر میں کثرتِ شراب نوشی کی وجہ سے وہ وفات پا گئے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کہتے رہے ہیں کہ بھائی کی موت ہی ان کی شراب اور سگریٹ ترک کرنے کی وجہ بنی۔جائیداد کی تعمیر اور خریدوفروخت کے کاروبار میں قدم رکھنے کے بارے میں، ٹرمپ کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنے والد سے 10 لاکھ ڈالر قرض لے کر کاروبار شروع کیا اور بعد میں، وہ خود ان کے کاروبار میں شامل ہو گئے۔ان کے والد رہائشی عمارتوں کی تعمیر کا کاروبار کرتے تھے۔ ٹرمپ نے نیویارک میں اپنے والد کے غیر منقولہ جائیداد کے کاروبار میں اضافہ کیا اور پھر 1971 میں اس کمپنی کی باگ ڈور سنبھالی اور اس کا نام ٹرمپ آرگنائزیشن رکھ دیا۔ان کے والد کا انتقال سنہ 1999 میں ہوا تھا۔ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ وہ اپنے والد سے بہت متاثر تھے۔ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی کمپنی کے کاروبار کو نیو یارک شہر میں بروکلین اور کوئینز میں رہائشی عمارتوں کی تعمیر سے مین ہٹن میں بڑے تعمیراتی منصوبوں تک پہنچا دیا۔ انھوں نے قدیم کموڈور ہوٹل کو گرینڈ حیات میں تبدیل کیا اور ففتھ ایوینیو پر علاقے کی مشہور ترین عمارتوں میں سے ایک، 68 منزلہ دی ٹرمپ ٹاور بنائی۔اس کے بعد وہ اپنے خاندانی نام پر ہی ایک ایک کر کے عمارتیں تعمیر کرتے رہے۔

ٹرمپ پیلس، ٹرمپ ورلڈ ٹاور، ٹرمپ انٹرنیشنل ہوٹل اینڈ ٹاور۔ یہ فہرست طویل ہے اور آج ممبئی، استنبول اور فلپائن میں بھی ٹرمپ ٹاورز موجود ہیں۔انھوں نے تفریح کی دنیا میں بھی قدم رکھا اور یہاں بھی اپنی سلطنت قائم کی۔ 1996 سے 2015 تک وہ مس یونیورس مقابلوں کے مالک تھے۔ اس کے علاوہ وہ مس یو ایس اے ، مس ٹِین یو ایس اے جیسے مقابل حسن کے منتظم بھی تھے۔2003 میں، ٹرمپ این بی سی ٹی وی شو اپرینٹس میں نمودار ہوئے۔ اس شو میں ، امیدواروں نے ٹرمپ کی کمپنی میں نوکری حاصل کرنے کے لیے مقابلہ کیا۔ انھوں نے شو کے 14 سیزنز میں کام کیا اور دعوی کیا کہ اس کے لیے ٹی وی کمپنی نے انھیں 213 ملین ڈالر ادا کیے۔ اس شو کے دوران ان کا روایتی جملہ یو آر فائرڈ (یعنی تمھیں نوکری سے فارغ کیا جاتا ہے) بہت مشہور ہوا۔ٹرمپ نے بہت ساری کتابیں لکھی ہیں اور اس کا اپنا برانڈ بھی ہے جو ٹائی سے لے کر پانی کی بوتلوں تک ہر چیز کا کاروبار
کرتا ہے۔ فوربز کے مطابق ، ٹرمپ کے کل اثاثوں کی مالیت چار ارب ڈالر ہے۔ٹرمپ نے کم از کم چھ مواقع پر کاروباری بینک رپٹسی یعنی دیوالیہ پن ظاہر کیا اور ان کے متعدد منصوبے، جن میں ٹرمپ یونیورسٹی اور ٹرمپ سٹیکس شامل ہیں، ناکام رہے ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے تین مرتبہ شادی کی تاہم ان کی سب سے مشہور اہلیہ ایوانا زیلنیکووا تھیں جو کہ ایک چیک ماڈل اور ایتھلیٹ تھیں۔ ان کے تین بچے ہوئے، ڈونلڈ جونیئر، ایوانکا اور ایرک۔ٹرمپ کے لیے 1990 ان کی اہلیہ سے بہت ہی مہنگی طلاق پر ختم ہوا کیونکہ ان کی اہلیہ کو ان کے ایک معاشقے کا علم ہو گیا تھا۔عدالتی مقدمے کے دوران، جو اخباروں کی شہ سرخیوں کی زینت بنا رہا، ٹرمپ کی سابقہ اہلیہ نے گھریلو تشدد کے الزامات بھی عائد کیے تاہم بعد میں انھوں نے ان الزامات کی سنجیدگی کو کمتر دکھانے کی کوشش کی اور ٹرمپ پر بننے والی ایک نئی فلم میں اس تنازع کا احاطہ بھی کیا گیا ہے۔1993 میں ٹرمپ نے اداکارہ مارلا میپلز سے شادی کی۔ ان کی ایک بیٹی ٹفنی ہے اور یہ شادی بھی 1999 میں طلاق پر ختم ہوئی۔ ٹرمپ نے سلووینیا سے تعلق رکھنے والی اپنی موجودہ اہلیہ میلانیا ناس سے 2005 میں شادی کی اور ان کا ایک بیٹا بیرن ولیم ٹرمپ ہے۔تاہم غیر ازدواجی تعلقات اور جنسی نوعیت کے الزامات نے ان کا پیچھا نہیں چھوڑا۔ رواں سال دو مختلف عدالتوں میں جیوری نے فیصلہ سنایا کہ ٹرمپ مصنفہ ای جین کیرول کی جانب سے جنسی ہراسانی کے الزامات کی تردید کر کے ہتک عزت کے مرتکب ہوئے ہیں اور ٹرمپ کو مجموعی طور پر 88 ملین ڈالر ہرجانہ ادا کرنے کو بھی کہا گیا۔

وہ اس فیصلے کے خلاف اپیل کر چکے ہیں۔ٹرمپ کا ایک اور تنازع سٹورمی ڈینیئل نامی پورن انڈسٹری کی ایک سابق اداکارہ سے جڑا ہے جن کا دعوی ہے کہ 2006 میں ڈونلڈ ٹرمپ نے ان کے ساتھ سیکس کیا اور پھر صدارتی امیدوار بن جانے کے بعد ٹرمپ نے اپنے وکیل مائیکل کوہن کے ذریعے ایک لاکھ 30 ہزار ڈالر اس شرط پر ادا کیے کہ وہ ٹرمپ سے تعلق کو ظاہر نہیں کریں گی۔ اس ادائیگی کو چھپانے کے الزام میں ٹرمپ کو مجرم قرار دیا جا چکا ہے۔صدارتی امیدوار  سنہ 1980 میں نشر ہونے والے ایک انٹرویو میں 34 سالہ ٹرمپ کہتے ہیں کہ سیاست اوچھی زندگی ہے اور یہ کہ زیادہ باصلاحیت لوگ کاروباری دنیا کا رخ کرتے ہیں۔تام 1987 میں ٹرمپ صدارتی امیدوار بننے کے بارے میں سوچنے لگے تھے۔ سنہ 2000 کے انتخابات سے قبل وہ ریفارم پارٹی کی جانب سے صدارتی دوڑ میں شامل ہونے پر غور کر رہے تھے اور پھر سنہ 2012 میں ری پبلکن پارٹی کے امیدوار کی حیثیت سے بھی انھوں نے الیکشن میں حصہ لینے کا سوچا۔ٹرمپ کا شمار ان افراد میں کیا  جاتا ہے جنھوں نے سابق امریکی صدر براک اوباما کی جائے پیدائش سے جڑے سازشی نظریے کا شدت سے پرچار کیا اور 2016 تک انھوں نے اس بات کو تسلیم نہیں کیا کہ یہ سب جھوٹ پر مبنی تھا۔ انھوں نے ان خیالات کا اظہار کرنے پر کبھی معافی نہیں مانگی۔جون 2015 میں ٹرمپ نے باضابطہ طور پر وائٹ ہاس تک پہنچنے کی کوشش کا آغاز کیا اور اعلان کیا کہ امریکی خواب مر چکا ہے تاہم انھوں نے وعدہ کیا کہ وہ اس خواب کو زندہ کر سکتے ہیں۔ٹرمپ نے صدارتی دوڑ میں شامل ہوتے ہوئے اپنی دولت اور کاروباری کامیابیوں کو گنوایا، میکسیکو پر منشیات، جرائم اور ریپ کرنے والے سرحد پار بھیجنے کا الزام دھرا اور ساتھ ہی ساتھ وعدہ کیا کہ وہ میکسیکو سے جڑی سرحد پر باڑ لگا کر سبق سکھا دیں گے۔ میڈیا کے ساتھ ساتھ ٹرمپ مداحوں اور نقادوں کی برابر توجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہے اور امریکہ کو پھر سے عظیم بنانے کے نعرے کے ساتھ انھوں نے ری پبلکن پارٹی میں تمام حریفوں کو باآسانی پچھاڑ دیا۔

یوں ٹرمپ ڈیموکریٹ پارٹی کی امیدوار ہیلری کلنٹن کے سامنے آ کھڑے ہوئے۔صدارتی انتخابات سے قبل مہم متنازع رہی جس کے دوران ایک لیک ہونے والی آڈیو میں انھیں جنسی ہراسانی پر فخر کرتے ہوئے سنا گیا۔ انتخابات سے قبل ٹرمپ ہر سروے میں ہی پیچھے دکھائی دے رہے تھے۔تاہم تمام تر اندازوں اور تجزیہ کاروں کو ٹرمپ نے ایک تجربہ کار سیاست دان کو حیران کن طریقے سے شکست دیتے ہوئے غلط ثابت کیا اور 20 جنوری 2017 کو امریکہ کے 45ویں صدر منتخب ہو گئے۔ٹرمپ کی صدارت کے پہلے چند گھنٹوں میں ہی اندازہ ہو چکا تھا کہ یہ دور کتنا ڈرامائی ہو گا کیوں کہ اکثر وہ باضابطہ اعلانات کے لیے سوشل میڈیا کا سہارا لیتے اور غیر ملکی سربراہان مملکت سے کھلے عام جھگڑتے بھی دکھائی دیے۔ٹرمپ نے اہم موسمیاتی تبدیلی اور تجارتی معاہدوں سے دست بردار ہونے کا اعلان کیا، سات مسلم اکثریتی ممالک سے لوگوں کی امریکہ آمد پر پابندی لگائی، چین سے تجارتی جنگ چھیڑی، ریکارڈ ٹیکس چھوٹ کا اعلان کیا اور مشرق وسطی سے تعلقات کو یکسر تبدیل کر دیا۔تقریبا دو سال تک ان کو ایک اور تنازع کا سامنا بھی رہا جس میں ایک خصوصی وکیل 2016 کے انتخابات میں ٹرمپ کی مہم اور روس کے درمیان مبینہ اشتراک کی چھان بین کرتے رہے۔ اس معاملے میں 34 افراد پر فرد جرم بھی عائد ہوئی جس میں کمپیوٹر ہیکنگ سے لیکر مالیاتی جرائم جیسے الزامات شامل تھے لیکن ان میں ٹرمپ شامل نہیں تھے۔ تاہم تفتیش میں کسی قسم کا مجرمانہ اشتراک ثابت نہیں ہو سکا تھا۔زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ ٹرمپ امریکی تاریخ میں مواخذے کا سامنا کرنے والے تیسرے صدر بن گئے۔ اس کی وجہ  وہ الزام تھا کہ انھوں نے ایک غیر ملکی حکومت پر اپنے حریف جو بائیڈن کے خلاف مواد تلاش کرنے کے لیے دبا ڈالا تھا۔

امریکی ایوان نمائندگان، جہاں مخالف ڈیموکریٹ جماعت کی اکثریت تھی، میں ان کا مواخذہ کیا گیا تاہم سینیٹ میں، جہاں ٹرمپ کی جماعت ری پبلکن پارٹی اکثریت میں تھی، یہ تحریک ناکام رہی۔2020 میں انھیں کورونا وبا پر حکمت عملی کی وجہ سے تنقید کا سامنا رہا جب امریکہ میں اموات کی تعداد بڑھی اور ٹرمپ کی جانب سے ایسے متنازع بیانات سامنے آئے جن میں انھوں نے مشورہ دیا کہ یہ تحقیق کرنے کی ضرورت ہے کہ آیا ڈس انفیکٹینٹ جسم میں انجیکٹ کرنے سے وائرس کا علاج کیا جا سکتا ہے۔اکتوبر میں ٹرمپ خود بھی کورونا وائرس سے متاثر ہوئے اور انھیں اپنی صدارتی الیکشن کی مہم میں وقفہ کرنا پڑا تھا۔اگرچہ اس سال انھیں سات کروڑ 40 لاکھ ووٹ ملے، جو اب تک کسی امریکی صدر کو ملنے والے سب سے زیادہ ووٹ ہیں، وہ 70 لاکھ ووٹوں سے اپنے حریف جو بائیڈن سے شکست کھا بیٹھے۔نومبر 2020 سے جنوری 2021 تک ٹرمپ نے مہم چلائی کہ ووٹ چوری ہوئے اور الیکشن میں دھاندلی ہوئی۔ ان کے ان دعووں کو 60 سے زیادہ عدالتی مقدمات میں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔تاہم نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے چھ جنوری کو ٹرمپ نے اپنے مداحوں اور سپورٹرز کو دارالحکومت واشنگٹن میں جمع کیا اور انھیں کیپیٹل پر اکھٹا ہونے کی تاکید کی جہاں کانگریس کی جانب سے جو بائیڈن کی فتح پر باضابطہ مہر ثبت کی جانی تھی۔ان کے حامیوں کا اجتماع ہنگامے میں تبدیل ہوا جس کے دوران ٹرمپ کے نائب صدر سمیت اراکین اسمبلی کی جان کو خطرہ لاحق ہوا اور ٹرمپ کو تاریخی دوسرے مواخذے کا سامنا ہوا۔ اس بات بھی وہ سینیٹ میں بچ گئے لیکن مشکل سے۔اس دن کی وجہ سے ٹرمپ کو دو مختلف مقدمات کا سامنا ہے۔کیپیٹل ہل واقعے کے بعد محسوس ہو رہا تھا کہ ٹرمپ کا سیاسی کریئر ختم ہو چکا ہے۔ ان کے بہت سے حامیوں سمیت عطیہ دینے والوں نے بھی آئندہ ان کی حمایت نہ کرنے کا اعلان کیا اور بہت سے قریبی اتحادیوں تک نے ان سے منھ موڑ لیا تھا۔ٹرمپ نے روایت توڑتے ہوئے بطور سابق صدر جو بائیڈن کی تقریب حلف برداری میں شرکت نہیں کی اور اپنے خاندان کو فلوریڈا منتقل کر دیا۔ تاہم مداحوں کی ایک فوج اب بھی ان کے ساتھ تھی جس کے باعث ری پبلکن پارٹی میں ان کا اثرورسوخ کم نہ ہو سکا۔

شاید ٹرمپ کی صدارت کا سب سے اہم لمحہ ان کا صدارتی دور ختم ہونے کے بعد آیا ان کے نامزد کردہ تین دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے ججوں کی مدد سے سپریم کورٹ نے 50 سال پرانے اسقاط حمل کے حق کو ختم کر دیا۔ایسے میں ٹرمپ نے ایک بار پھر صدارتی امیدوار بننے کا اعلان کیا اور جلد ہی اپنی جماعت میں دوسرے امیدواروں پر حاوی ہو گئے۔ ٹرمپ نے اپنی مہم کا آغاز کیا تو انھیں اکانوے مقدمات کا سامنا تھا جن میں چار فوجداری نوعیت کے مقدمات بھی شامل تھے تاہم ان کی جانب سے مقدمات کو طول دینے کی حکمت عملی کامیاب رہی ہے۔اب تین مقدمات ایسے ہیں جنھیں الیکشن سے قبل نہیں سنا جائے گا جبکہ کمزور نوعیت کے الزامات پر مبنی ایک مقدمہ میں انھیں سزا سنائے جانے کا عمل نومبر تک موخر ہو چکا ہے۔13 جولائی کو ایک 20 سالہ مسلح نوجوان نے پنسلوینیا میں انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ کو قتل کرنے کی کوشش کی۔ تھامس میتھیو کروکس نے ایک قریبی چھت سے آٹھ گولیاں چلائیں جن میں سے ایک نے ٹرمپ کے دائیں کان کو زخمی کیا۔ حملہ آور کو سنائپرز نے ہلاک کر دیا تھا۔چند ہی دن بعد ری پبلکن جماعت کے کنونشن میں ان پر تعریفیں نچھاور کی گئیں اور انھیں باضابطہ طور پر جماعت کا امیدوار نامزد کر دیا گیا۔ تاریخی اعتبار سے کم مقبول صدر جو بائیڈن سے ٹرمپ کا سامنا ہونا تھا لیکن وہ الیکشن سے دست بردار ہو گئے جس کے بعد ان کی جماعت نے نائب صدر کملا ہیرس کو نامزد کیا۔ٹرمپ نے تب سے کملا ہیرس کو تنقید کا نشانہ بنایا ہوا ہے تاہم سروے دکھاتے ہیں کہ کملا ہیرس نے بھی مقبولیت حاصل کی ہے اور اس وقت دونوں میں سخت مقابلہ ہے۔ٹرمپ نے اپنے حامیوں سے کہہ رکھا ہے کہ پانچ نومبر 2024، جو الیکشن کا دن ہو گا، ہمارے ملک کی تاریخ کا سب سے اہم دن ہو گا۔