جموں وکشمیر میں وزیراعظم نریندر مودی کے سیاسی بیانیے کی شکست ہوگئی ہے بی بی سی

سری نگر(صباح نیوز)برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مطابق جموں کشمیر کی نئی حکومت ایک میونسپلٹی جیسی ہو گی جہاں وزیراعلی کو صرف اسی فائل پر دستخط کرنا ہوں گے جسے گورنر ہاوس سے گرین سگنل ملے گا۔ نئی دہلی کے نمائندے لیفٹیننٹ گورنر کو امن و قانون، مالیات، اور دوسرے اہم معاملوں میں بااختیار بنایا گیا ہے۔کابینہ کے اجلاس کے ایجنڈا دو دن پہلے گورنر ہاوس بھیجنا ہو گا۔ اسی طرح پولیس محکمے کی کمان براہ راست نئی دلی کے پاس رہے گی، حکومت کسی منصوبے پر رقم مخصوص کرنے کے لیے بھی لیفٹیننٹ گورنر کی محتاج ہو گی۔ بی بی سی کے مطابق جموں وکشمیر میں انتخابات مکمل ہوگئے ہیں ۔انتخابی نتائج میں کشمیر کی سب سے پرانی سیاسی جماعت نیشنل کانفرنس کو دہائیوں بعد صوبائی اسمبلی میں ملنے والی برتری کو خطہ کشمیر سے متعلق انڈین وزیراعظم نریندر مودی کے سیاسی بیانیے کی شکست سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔

مودی حکومت کی طرف سے مسلسل یقین دہانیوں کے باوجود جموں کشمیر کے لیے باقاعدہ ریاست کا درجہ ابھی تک بحال نہیں کیا گیا ہے۔اس دوران لیفٹنٹ گورنر کے اختیارات میں توسیع کی گئی ہے۔ اکثر حلقے کافی عرصے سے کہہ رہے ہیں کہ جموں کشمیر کی نئی حکومت ایک میونسپلٹی جیسی ہو گی جہاں وزیراعلی کو صرف اسی فائل پر دستخط کرنا ہوں گے جسے گورنر ہاس سے گرین سگنل ملے گا۔سینیئر صحافی اور تجزیہ نگار شیخ قیوم کا بھی یہی خیال ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ یہ حکومت وزرا کی، وزرا کے لیے اور وزرا کے ذریعے ہو گی۔جبکہ صحافی ریاض ملک کہتے ہیں کہ لیفٹیننٹ گورنر کو امن و قانون، مالیات، اور دوسرے اہم معاملوں میں بااختیار بنایا گیا ہے۔کابینہ کے اجلاس کے ایجنڈا دو دن پہلے گورنر ہاوس بھیجنا ہو گا۔ اسی طرح پولیس محکمے کی کمان براہ راست نئی دلی کے پاس رہے گی، حکومت کسی منصوبے پر رقم مخصوص کرنے کے لیے بھی لیفٹیننٹ گورنر کی محتاج ہو گی۔واضح رہے بی جے پی جموں سے 29 سیٹیں حاصل کر کے نیشنل کانفرنس کے بعد دوسری بڑی پارٹی کے طور پر ابھری ہے۔سنہ 2014 کے الیکشن میں بی جے پی کو جموں سے 25 سیٹیں ملی تھیں۔

بی جے پی اس بار پہلے کی نسبت اپنی سیٹوں کی تعداد میں چار سیٹوں کا اضافہ کرنے میں کامیاب رہی ہے۔مبصرین کہتے ہیں مودی حکومت نے پہلے ہی گورنر کو پانچ اراکین کو اسمبلی ممبر کے طور نامزد کرنے کا اختیار دیا ہے۔ یہ نامزد ممبران پاکستان کے ہندو مہاجرین اور کشمیری پنڈتوں پر مشتمل ہوں گے۔ریاض ملک کہتے ہیں کہ یہ پانچ بھی اگر بی جے پی کے ممبران کے ساتھ جوڑ دیے جائیں تو اسمبلی میں بی جے پی کی عددی قوت 34 تک پہنچ جائے گی اور اگر بعض آزاد امیدواروں نے بھی بی جے پی کی حمایت کی تو حکومت کو ایک نہایت طاقتور اپوزیشن کا سامنا ہو گا، جو حکومت کی جینا حرام کر سکتی ہے۔ جموں وکشمیر کے انتخابات کی خاص بات یہ تھی کہ وزیراعظم نریندر مودی اور ان کی پارٹی کے رہنما پہلی مرتبہ ہندو چیف منسٹر بنانے اور جموں کشمیر میں اقتدار حاصل کرنے کے مسلسل دعوے کر رہے تھے۔

اِن انتخابات میں فاروق عبداللہ اور عمرعبداللہ کی نیشنل کانفرنس نے راہل گاندھی کی انڈین نیشنل کانگریس کے ساتھ انتخابی اتحاد کیا تھا۔نیشنل کانفرنس اپنے بل بوتے پر 40 سے زیادہ سیٹوں پر فتح حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی جبکہ کانگریس چھ سیٹیں جیت پائی۔اس طرح 90 سیٹوں پر مشتمل جموں کشمیر اسمبلی میں نیشنل کانفرنس اور کانگریس کے اتحاد نے واضح اکثریت حاصل کی ہے۔