شاعری کی دنیا میں احمد فراز کے بعد، اب کبھی افتخار عارف کوسن کر دل بہلا لیتی ہوں۔ موسیقی کے سلسلے میں پاکستان میں کوئی گانے والی رہی نہیں، کوک اسٹوڈیو سنو۔ اور انڈیا میں ایک ہی گانے والی ایسی عظیم ہستی تھی جس کو سنتے ہوئے بڑے ہوئے، جوان ہوئے اور اب بھی بڑھاپے میں چلتے چلتے سن کر ایک طرف مینا کماری یاد آتی تھی تو دوسری طرف میرے لال دوپٹے والی عظیم گلوکارہ لتاجی، یاد آتی تھیں اب میں بڑھاپا اوڑھے کس کی گائیکی اور کس سے شعر سنوں۔ ٹی وی کو لتاجی کی وجہ سے کل سارے دن دیکھا اور سوچا، اب پھر یادیں سمیٹنے بیٹھ جائوں گی، ہرنئے جانے والے کےساتھ یادوں کا جو الہ مکھی اور بھڑک اٹھتا ہے۔
لتاجی کی زندگی میں جتنی دفعہ میں بمبئی گئی۔ مجھ سے پولیس کے سربراہ اور شاعر قیصر خالد نے لتاجی کے فلیٹ کے سامنے سے گزرتے ہوئے، ہمیشہ کہا ’’ چلیں آپ کو لتاجی سے ملوادیں میں ٹال جاتی۔ اتنی بڑی آرٹسٹ کی زندگی میں لوگوں کی بنائی بے ہودہ کہانیاں سنی تھیں۔ کبھی کوئی کہتا لتاجی کو ساحر لدھیانوی سے عشق تھا۔ ادھر دلی میں امرتا پریتم سے متعلق ساحر جی کے عشق کی کہانی، لوگ گھڑ لیتے اور پھر اس کو پھیلاتے، پاکستان میں یار لوگوں نے سلامت علی خاں کی لتاجی سے محبت کی فرسودہ کہانی، زبردستی پھیلائی ہوئی ہے۔ پہلے عینی آپا سے متعلق خودساختہ کہانیاں سنتے تھے۔ مگر لتاجی نے کبھی عینی آپا کی طرح ان لغویات کا جواب نہیں دیا۔ لتاجی نے بھی نورجہاں کی طرح بچپن ہی میں گانا سیکھ لیاتھا۔ ان کے پہلے استادان کے والد تھے۔ جنہوں نے اپنی ساری بیٹیوں کواس فن سے آشنا کیا۔ لتاجی کے اندر سیکھنے کا وہ مادہ تھا کہ ہر موسیقار اور ہر شاعر سے،گانے کی ریہرسل سے پہلے لفظوں کی ادائیگی سمجھتی اور پھر گائیکی انگ خود بھی وضع کرتیں۔ نورجہاںاور مہدی حسن کو سن کر خوش بھی ہوتیں اور سیکھتی بھی تھیں۔ انہوں نے ایک دفعہ کہاتھا کہ گزشتہ صدی کے ستر سال تو میرے ہیں۔ چنچل شعروں کے بارے میں وہ خو دکہتی تھیں، یہ آشا بہتر گاسکتی ہیں۔ باقی بہنوں کو بھی آگے بڑھنے کی تربیت دی مگر خاندان کا نام تو ایک ہی شخص روشن کرتا ہے۔ آشا بھی بہت اچھا گاتی اور آر۔ڈی۔ برمن نے توان کو کمال محبت سے میوزک دیا مگر یہ لتاجی تھیں کہ تعریف کرنے کے لیے وہ نورجہاں اور مہدی حسن کو بھی گاتیں۔ کسی نے کہاتھا کہ ایک دفعہ بھی لتاجی پاکستان آجاتیں تو دونوں ملکوں کے مسائل ہی ختم ہوجاتے، دیکھا نہیں، انڈیا کیا پاکستان کے ہر گھر میں لتاجی کو دیکھنے کے لیے، ٹی وی بھی آن رہا۔ جب پاکستان کے میڈیا سے ان کے فن کے بارے میں بے معنی سنگرز کی باتیں اور تعریفیں سننے کو ملیں تو سر شرم سے جھک گئے۔ وزیروں کے ارشادات تو سونے پہ سہاگہ تھے۔ ساری دنیا ان کو دیکھ کر شرمندہ ہوئی کہ سر کی ادائیگی جنہیں نہیںآتی۔ وہ لتا جی پراپنے بودے کلمات سے ہمارے دلوں کو ہلا رہے تھے۔ موسیقی تو عالمگیر ہوتی ہے۔ ہم دونوں ملکوں میں میڈیا ئی رابطے بھی نہیں۔ معلوم نہیں کس قدر جان پر کھیل کر بی بی سی کی طرح ہمارے چینلوں نے لتاجی کو یاد کیا۔
کیا خوبصورت شخصیت تھی۔ ہمیشہ سفید ساڑھی راجستھانی بارڈر اور پلو کے ساتھ بغیر میک اپ کیے ہوئے دنیا بھر میں انڈیا کا نام مشہور کیا۔ ان کا نام تو گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں لکھا گیا ہے کہ انہوں نے ہندوستان کی ساری زبانوں میں گایا۔ کچھ غزلیں بھی گائیں،ہر دفعہ جب غزل گانے لگتیں تو کہتی تھیں’’ کاش میں مہدی حسن کی طرح گاسکتی‘‘۔
سرحدوں کی پابندیوں نے، سارے فنون اور سروں کو زنجیر پہنا دی تھی اور اب یہ منظر دیکھنے کو ملا کہ شاہ رخ نے سورۃ فاتحہ پڑھی اور پھونکا تو طرح طرح کے الزام لگائے جانے لگے۔
لتاجی پچاس کی دہائی میں ہمارے کلا سیکی فنکاروں کوبہت محبت سے سنتی اور دیوتا کی طرح ان کی عزت اور آئوبھگت کرتیں۔ ایک دفعہ بمبئی میں استاد سلامت، نزاکت علی خاں پرفارم کررہے تھے کہ سلامت صاحب پر فالج کا حملہ ہوا، یہ لتاجی تھیں جنہوں نے ان کو فوری اسپتال میں داخل کروایا اور جب تک وہ زیر علاج رہے، ان کا ہر قسم کا خرچہ، عقیدت کے طور پر بخوشی اٹھایا، میڈم نورجہاں سے ان کی سرحدوں کے اوپر ملاقات کو ساری میڈیا ایجنسیوں نے عالمی سطح پر سر اہا۔ میڈم انڈیا گئیں تو دلیپ کمار اور لتاجی نے ان کے لیے آنکھیں بچھائیں۔ فیض صاحب سے، جب بھی وہ بمبئی جاتے، لتاجی اور سارے موسیقار ملنے آتے اور ان سے کلام سنتے۔ ایک دفعہ باتوں باتوں میں نوشاد صاحب نے بتایا کہ لتاجی، ہر گیت کو سن کر، لوکیشن پوچھتیں اور یہ بھی پوچھتیں کہ یہ اداسی کا گیت ہے کہ عشق اور جوانی کا،پھر وہ تلفظ پر زور دیتیں۔
بہت تعریف کے قابل ہے کہ لتاجی کا جنازہ، سرکاری سطح پر اٹھایا گیا۔ مودی صاحب نے بھی شمولیت کی۔ اور صرف فلم سے متعلق لوگ نہیں۔ غریب سے غریب بھی ہاتھ میں پھول لیے موجود تھا۔ پاکستان میں بھی ہر گھر میں کہ جہاں لتا کی آواز گونجتی تھی، وہاں سارا دن اس کی ہی آواز کو عقیدت سے سنا گیا۔ مجھے اس وقت نورجہاں بہت یاد آئیں ہماری سب کی خواہش تھی کہ میڈم کا جنازہ لاہور میں اٹھایا جاتا، تقریب ایسی ہوتی جیسے کہ مصر میں ام کلثوم کے جنازے میں سربراہان شریک ہوئے تھے بیٹیوں نے لاہوریوں کا یہ حق چھین لیا اور کراچی میں راتوں رات دفنا دیا ان کا گھر ویسے تو وہ خود ہی زندگی میں فروخت کرگئی تھیں۔ اب وہاں بہت اونچی بلڈنگ بن گئی ہے۔کاش کوئی مصور اس چوک میں میڈم نورجہاں کا پورٹریٹ بنا کر لگا دے ویسے تو میں نے حکومت سے استدعا کی تھی کہ ولنسٹن مارکیٹ کو نورجہاں میوزیم بنادے۔سب جانتے ہیں کہ اب کوئی نورجہاں نہیں آئیگی، اب کوئی لتا نہیں آئیگی۔
ہمیں تو یہ بھی توفیق نہیں کہ ہمارے عظیم مصوروں، موسیقاروں، لکھاریوں اور سائنسدانوں کے پورٹریٹ کم ازکم میوزیم ہی میں لگا دیے جائیں۔
ہماری نئی نسل کو تو ملکہ موسیقی روشن آرا بیگم ہوںکہ خواجہ خورشید انور کے نام ہی نہ گھروالوں نے سکھائے ہوں گے اور نہ نصاب کے حوالے سے ان کے استادوں نے۔
فن کی کھیتی بھی اسی طرح اجڑرہی ہے جیسے ہماری کھیتیاں، شور زدہ زمینوں کی شکل اختیار کررہی ہیں۔
بشکریہ روزنامہ جنگ