جمیل اطہر قاضی صاحب نے کتاب “مسئلہ قادیانیت” کے ٹائیٹل پر بہت خوبصورتی سے محمدﷺ – وَمَا اَرسَلنٰکَ اِلا رَحمَتَ الِلعالَمِین سے آغاز کیا ہے اور پوری کتاب میں تمام تحریریں، مضامین موضوع کا احاطہ کرتے ہیں۔
جناب جمیل اطہر قاضی صاحب آسمانِ صحافت کے تابندہ ستارہ ہیں، آپ کی ساری زندگی قلم و قرطاس کے ساتھ جُڑی رہی ہے اور بڑی عرق ریزی سے حالات و واقعات اور حقائق کو ضبطِ تحریر میں لاتے ہیں۔ صحافتی پیشہ ورانہ جہاد میں اُن کا 60 سال کی مدت میں اکابرین، مشاہیر، سیاسی قائدین اور صحافتی محاذ کے نامور قدآور صحافیوں سے قریبی اور گہرا تعلق رہا ہے۔ اِس اعتبار سے وہ 60 سال سے یا 1970ء کے بعد سے ہر واقعہ، تحریک، عوامی، صحافتی جدوجہد کے عینی شاہد بھی ہیں اور فعالیت کے ساتھ اِن کا حصہ بھی رہے۔ عملاً 1953ء میں تحریکِ تحفظِ ختمِ نبوتؐ کے جلسہ میں قادیانیت کے خلاف 12 سال کی عمر میں نظم پڑھنے پر گرفتاری سے اِن کی جدوجہدِ زیست کا آغاز ہوگیا، الحمدُ للہ! آج بھی فعال ہیں اور حالات کے ہر پہلو، کڑی اور پسِ منظر پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ اس حیثیت سے جناب جمیل اطہر قاضی صاحب سینئر صحافی، ایڈیٹر، کالم نویس، تجزیہ نگار، سماجی معاشرتی اصلاح اور رابطوں کے علمبردار ہیں۔
قادیانیوں کو غیرمسلم قرار دینے کی گولڈن جوبلی تقریبات کے موقع پر منظرِ عام پر آنے والی جناب جمیل اطہر قاضی صاحب کی کتاب “مسئلہ قادیانیت” اُن سمیت مختلف اکابرین ، مصنفین کی تالیفات اور اُن کے تعارف پر مشتمل ہے، جو اسلامیانِ پاکستان اور شمع رسالت کے پروانوں کے لیے ایک بیش قیمت اور خوبصورت تحفہ ہے، جس پر میں انہیں مبارکباد پیش کرتا ہوں ۔ 1080 صفحات پر مشتمل خوبصورت طباعت اور دلکش سرورق کیساتھ اس شاندار اشاعت پر ادارہ “قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل” کے ذمہ داران و کارکنان، بالخصو ص علامہ عبدالستار عاصم صاحب کی کاوشیں بھی لائقِ صد تحسین ہیں۔ اُمید ہے کہ دینی، سیاسی قائدین، ذمہ داران و کارکنان، سکول، کالجز اور یونیوسٹیوں سمیت مدارس کے طلباء و طالبات، صحافی و دانشور، ، علماء و مفکرین اور محققین سمیت عام مسلمان اس بیش قدر نسخہ سے بھرپور استفادہ کریں گے۔
جناب جمیل اطہر قاضی صاحب کی کتاب “مسئلہ قادیانیت” قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل کے زیرانتظام و انصرام بہت اہم موقع پر شائع ہوئی ہے ، پورے ملک میں گولڈن جوبلی تقریبات کی بہار آئی ہے۔ اِس کتاب/تدوین پر تبصرہ کے حوالہ سے چند گزارشات ضبطِ تحریر میں آئی ہیں۔
عقیدہ توحید کے بعد عقیدہِ ختمِ نبوتؐ مسلمانوں کا سب سے بڑا عقیدہ ہے ۔ عقیدہِ ختمِ نبوتؐ کی دینی، آئینی، قانونی، سماجی حیثیت ہے۔ قرآن مجید کی متعدد آیات و احادیثِ مبارکہ سے عقیدہ ختمِ نبوت ثابت ہے، جس پر پوری اُمتِ مسلمہ کا اجماع ہے:
مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَٰكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا (لاحزاب:40)
ترجمہ: محمد (ﷺ) تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں، لیکن آپ رسول اللہ اور خاتم النبیین ہیں۔ اورا للہ تعالیٰ ہر چیز کو خوب جانتا ہے۔
(تمام مفسرین کا اس پر اتفاق ہے کہ خاتم النبیین کے معنی یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کو منصبِ نبوت پر فائز نہیں کیا جائیگا)۔
اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا ؕ (المائدہ: 3)
ترجمہ: آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کردیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کرلیا ہے۔
حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”میری امت میں تیس (30) جھوٹے پیدا ہوں گے، ہر ایک یہی کہے گا کہ میں نبی ہوں حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں، میرے بعد کوئی کسی قسم کا نبی نہیں۔“(ابوداؤد، ترمذی)۔ اس حدیث شریف میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لفظ ”خاتم النبیین“ کی تفسیر ”لانبی بعدی“ کے ساتھ خود فرمادی ہے۔
“رسالت و نبوت کا سلسلہ ختم ہوگیا، اب میرے بعد نہ کوئی رسول آئے گا، نہ کوئی نبی آئے گا “(حدیثِ مبارک بروایت حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ)
“میں قصرِ نبوت کی آخری اینٹ ہوں، میں آخری نبی یعنی خاتم النبیین ہوں” (حدیثِ مبارک)۔
عقیدہ ختمِ نبوت کی اہمیت کا انداز اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جھوٹے مدعی نبوت مسیلمہ کذاب کی سرکوبی کے لیے خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورِ خلاف میں بھیجے گئے 40 ہزار کے لشکرِ اسلام میں سے 1200 صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جامِ شہادت نوش کیا جن میں بڑی تعداد حفاظ و قراء صحابہؓ کی تھی، جبکہ تمام غزوات و سرایا میں شہید ہونے والے جملہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی کل تعداد 259 بنتی ہے۔
جب پنڈت نہرو نے قادیانیت کے حق میں بیانات دیے تو علامہ اقبالؒ نے نہرو کو خط بھی لکھا اور ایک سلسلہ مضامین شائع کیا کہ قادیانیت کیا ہے اور اسلام کیا ہے۔ اور مطالبہ کیا کہ جس طرح انگریز نے سکھوں کو ہندوؤں سے الگ مذہب قرار دیا تھا اِسی طرح وہ initiative لےکر قادیانیوں کو مسلمانوں سے الگ قرار دے۔
برصغیر پاک و ہند میں مرزا غلام احمد قادیانی کی اسلام دشمن سرگرمیوں اور کفریہ نظریات کے خلاف اکابر علمائے کرام، مشائخِ عظام کی جدوجہد تاریخی اہمیت رکھتی ہے۔ اس جدوجہد میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی، مولانا امین احسن اصلاحی، مولانا مفتی محمود، مولانا منظور احمد چنیوٹی، مولانا ثناء اللہ امرتسری، مولانا انور شاہ کاشمیری، پیر مہر علی شاہ گولڑوی، مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری، آغا شورش کاشمیری سمیت دیگر اکابر علماء و مشائخ کی خدمات قابلِ ذکر ہیں۔
1953 ء میں اُس وقت پاکستان کے قادیانی وزیرخارجہ ظفراللہ خان نے یہ بات کہہ دی کہ جو اسلام عام مسلمانوں کا ہے (نعوذ باللہ) وہ مردہ اسلام اور قادیانیت (نعوذ باللہ) زندہ اسلام ہے۔ اس پر اسلامیانِ پاکستان تڑپ اُٹھے اور فتنہ قادیانیت کے خلاف ایک بار پھر ملک گیر جدوجہد کا آغاز ہوگیا۔ 1953ء ہی میں مولانا مودودیؒ کو فتنہ قادیانیت کے خلاف ”قادیانی مسئلہ“ نامی کتاب لکھنے کی پاداش ایک بار پھر گرفتار کر لیاگیا اور فوجی عدالت نے اُنہیں سزائے موت سنادی،جس پر نہ صرف پاکستان بلکہ پورے عالم اسلام سے شدید رد عمل آیا۔سزائے موت پر مولانا مودودیؒ سے رحم کی درخواست دائر کرنے کا کہا گیا، مگر انہوں نے صاف انکار کر دیا۔حکومت نے مولانا کی سزائے موت کے خلاف ہمہ گیر احتجاج اور ردعمل سے مجبور ہو کر ان کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر دیا، بالآخر 29اپریل1955ءکو آپ رہا ہوئے۔
قادیانیوں کو غیرمسلم قرار دینے کی بنیاد 2 مئی 1974ء کو پیش آنے والے ایک واقعہ سے پڑی۔ اس روز نشتر میڈیکل کالج ملتان سٹوڈنٹس یونین کے مطالعاتی /تفریحی دورہ کے سفر پر چناب نگر کے راستے بذریعہ ٹرین پشاور جا رہے تھے کہ چناب نگر ریلوے سٹیشن پر قادیانیوں نے اپنا کفریہ لٹریچر اُن میں تقسیم کرنے کی کوشش کی۔ طلبہ نے یہ لٹریچر لینے سے انکار کیا اور ایمانی غیرت کا ثبوت دیتے ہوئے ریلوے سٹیشن پر ختم نبوتؐ زندہ باد کے فلک شگاف نعرے لگائے۔ طلبہ کا یہ قافلہ جب 29 مئی کو واپسی کے سفر پر روانہ ہوا تو چناب نگر کے قادیانی سٹیشن ماسٹر نے طے شدہ منصوبہ کے مطابق خلاف ضابطہ مخصوص جگہ پر ٹرین چناب نگر (ربوہ) ریلوے سٹیشن پر رکوالی جہاں سینکڑوں مسلح افراد، جن میں قادیانیوں کے قصر خلافت کے معتمدین‘ تعلیم الاسلام کالج کے طلبہ‘ اساتذہ اور بعض قادیانی دکاندار بھی شامل تھے، نے لاٹھیوں، سریوں، ہاکیوں، کلہاڑیوں اور برچھیوں سے مسلح ہوکر ٹرین کی بوگی میں موجود نشتر میڈیکل کالج کے طلبہ پر حملہ کر دیا جس سے 30 نہتے طلبہ شدید زخمی ہوئے۔ اس واقعہ کا ملک بھر میں سخت ردعمل ہوا ، بالخصوص اسلامی جمنعیت طلبہ نے کسی طرف سے تعاون حاصل نہ ہونے پر اپنی بنیاد پر اور عشقِ رسولؐ اور عقیدہ ختمِ نبوتؐ کے تحفظ کے لیے طویل مدت سے جاری تحریک کو منزل تک پہنچانے کا آغاز کیا، ملک بھر خصوصاً پنجاب میں بڑے جلسے اور ریلیاں شروع ہوگئیں۔ رفتہ رفتہ اِس میں زور اور جوش و خروش بڑھتا گیا لیکن فیصلہ کُن مرحلہ پر دینی رہنماؤں اور اکابرینِ مِلت نے اِس تحریک کی قیادت سنبھال لی، اِس طرح دینی جماعتوں کی اپیل پر پاکستان کے مختلف شہروں میں پرجوش ہڑتالوں اور مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ قادیانیوں کو غیرمسلم اقلیت قرار دینے کا مطالبہ زور پکڑ گیا۔ اس وقت قومی اسمبلی میں جید علماء کرام مولانا شاہ احمد نورانی‘ مولانا مفتی محمود‘ مولانا عبدالمصطفیٰ اظہری‘ پروفیسر غفور احمد ، محمد اعظم فاروقی، صاحبزادہ صفی اللہ اور مولانا عبدالحق (اکوڑہ خٹک) بطور رکن قومی اسمبلی موجود تھے جنہوں نے سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے قائدین کا ایک ہنگامی اجلاس بلایا جس میں تحفظ ختم نبوتؐ کی تحریک کے لیے مجلس عمل تشکیل پائی۔ یوں اس پلیٹ فارم سے منظم انداز میں تحریک تحفظ ختم نبوتؐ کا آغاز ہوا ۔ مولانا شاہ احمد نورانیؒ نے قومی اسمبلی کے 44 ارکان کے دستخطوں کے ساتھ قادیانیوں کو غیرمسلم اقلیت قرار دینے کا بل اسمبلی میں پیش کردیا۔ انہوں نے 30 جون کو مجلس عمل کی متفقہ طور پر منظور کی گئی ایک قرارداد بھی اسمبلی میں پیش کی چنانچہ پوری قومی اسمبلی کو خصوصی کمیٹی کا درجہ دیکر بل پر بحث شروع کر دی گئی۔ اسمبلی کی کارروائی کے دوران مرزا ناصر احمد اور مرزا صدرالدین کو بھی بلوایا گیا جن پراٹارنی جنرل یحییٰ بختیار نے جرح کی اور قادیانی قائدین کے اس موقف پر کہ وہ قادیانیوں کے سوا سب کو غیرمسلم سمجھتے ہیں‘ حکومت نے وزیر قانون عبدالحفیظ پیرزادہ کے ذریعے ایک آئینی ترمیم اسمبلی میں پیش کر دی جس میں قادیانیوں کو غیرمسلم اقلیت قرار دینے کا تقاضا کیا گیا۔ یہ آئینی ترمیم7 ستمبر 1974ء کو متفقہ طور پر منظور کرلی گئی۔ اس ساری کارروائی میں قومی اسمبلی نے اڑھائی ماہ کے عرصہ میں 28 اجلاس بلائے اور 96 گھنٹوں پر مشتمل مجموعی نشستیں ہوئیں۔ یہ امر واقعہ ہے کہ تمام مسالک کی مذہبی اور سیاسی قیادتوں نے قادیانیوں کو آئین پاکستان کے تحت غیرمسلم اقلیت قرار دلانے میں نمایاں کردار ادا کیا۔
7 ستمبر 1974ء کو قومی اسمبلی میں 130 ووٹوں کے ساتھ اتفاق رائے سے منظور کی گئی آئینی دفعہ 106 کی ترمیم کے تحت قادیانی اور لاہوری گروپ کو اقلیتوں کی فہرست میں شامل کیا گیا اور آئین کی دفعہ 260 میں ایک نئی شق کا اضافہ کیا گیا جس کے تحت طے کیا گیا کہ ہر فرد جو حضرت نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی داعی نبوت کو پیغمبر یا مذہبی مصلح مانتا ہو‘ وہ آئین اور قانون کے تحت مسلمان نہیں۔ اس آئینی ترمیم کی منظوری پر وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی بجا طور پر اپوزیشن کی جانب سے بھی تحسین کی گئی کیونکہ انہوں نے 24 جولائی کو اعلان کر دیا تھا کہ جو قومی اسمبلی کا فیصلہ ہوگا‘ وہ ہمیں منظور ہوگا۔ متذکرہ آئینی ترمیم کی قومی اسمبلی اور سینٹ سے متفقہ منظوری کے بعد بالآخر 7 ستمبر 1974ء کی رات آٹھ بجے ریڈیو پاکستان نے یہ خبر نشر کی کہ مرزائیوں کو قومی اسمبلی اور سینٹ نے متفقہ طور پر غیرمسلم اقلیت قرار دے دیا ہے۔
فتنہء قادیانیت آج بھی اتحادِ امت میں نقب لگانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا اور قادیانی آج بھی متعلقہ آئینی ترمیم سے سرکشی کا راستہ اختیار کرکے خود کو مسلمان کہلوانے پر بضد ہیں۔ دنیا بھر کی این جی اوز، عالمی مغربی طاقتوں کی طرف سے قادیانیوں کی پشت پناہی کے باعث آج تک امتناعِ قادیانیت اور تحفظِ ختمِ نبوت سے متعلق قوانین کے تحت سزا پانے والے مجرمان کو پاکستانی عدالتوں سے مجرم قرار دیے جانے کے باوجود سزا نہیں ہوئی۔ آسیہ مسیح ملعونہ کا کیس دنیا کا واحد کیس ہے جس کو بیرونِ ملک فرار کروانے کے لیے کیس کے وقت وقوعہ کو ڈسکس ہی نہیں کیا گیا۔
رواں سال فروری میں سپریم کورٹ میں زیر سماعت مبارک ثانی قادیانی کیس میں ماتحت عدالتوں سے دی گئی سزا سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دے دی، جس پر دینی سیاسی جماعتوں، تمام مکاتبِ فکر کی نمائندہ تنظیموں، وکلاء برادری اور پوری قوم کی طرف سے سخت ردعمل سامنے آیا۔ تمام مکاتبِ فکر کی نمائندہ ملی یکجہتی کونسل، اکابر علماء و مشائخ اور اسلامی نظریاتی کونسل نے اس فیصلے میں موجود نقائص کی نشاندہی کی اور اس حوالے سے اپنی تحریری گزارشات سپریم کورٹ کو ارسال کیں۔ چنانچہ حکومت کی طرف سے عدالت عظمیٰ میں ایک بار پھر نظر ثانی درخواست دائر کی گئی۔ فاضل عدالت نے اس درخواست پر تمام مکاتبِ فکر کے علماء کرام کا موقف سنا اور چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس قاضی فائر عیسیٰ نے اپنے فیصلہ میں سرزد ہونے والی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے اس فیصلہ کے دو متعلقہ پیرا گراف حذف کرادیئے جس پر ملک بھر میں یومِ تشکّر منایا گیا،تاہم تفصیلی فیصلے کا تاحال انتظار ہے۔
آج بھی اسلام دشمن قوتوں کے ایما پر بعض مغربی ممالک میں اسلاموفوبیا کو فروغ دیا جارہا ہے اور اظہار رائے کی آزادی کی آڑ میں توہینِ رسالت، توہینِ قرآن اور شعائر اسلامی کی بے حرمتی کے کلچر کو فروغ دیا جا رہا ہے ۔ دوسری طرف پاکستان میں تمام اقلیتوں کو آئین کے تحت مکمل آزادی حاصل ہے۔ دنیا کی تمام اقلیتیں اپنی مذہبی حیثیت تسلیم کرتے ہیں لیکن قادیانی واحد ایسی اقلیت ہیں جو ضد اور ڈھٹائی کیساتھ اپنے آُپ کواصل مسلمان اور باقی 2 ارب مسلمانوں کو (نعوذ باللہ) مرُدہ سمجھتے ہیں۔ آئین کی واضح شق سے انکاری کوئی بھی فرد اس آئینی پروٹیکشن کا اہل نہیں رہتا، جس طرح کہ قادیانی کررہے ہیں۔ بنیادی انسانی حقوق سےمتعلق قوانین بھی کسی کو یہ اجازت نہیں دیتے کہ وہ مادر پِدر آزادی کے تحت جو چاہے کرے۔ جب پاکستان سمیت دنیا کے کسی بھی ملک میں قانون کے رِٹ کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا تو قرآن و حدیث اور آئین کے رِٹ کو کیسے چیلنج کیا جاسکتا ہے؟؟
عقیدہِ ختمِ نبوتؐ کا مطلب یہی ہے کہ خاتم الانبیاء والمرسلین حضرت محمد مصطفٰی ﷺ کی بعثت کے بعد انبیاء و رُسل کی آمد کا آسمانی سلسلہ ختم ہوچکا، اب قیامت تک آپﷺ ہی اللہ کے نبی اور رسول ہیں۔