شٹاپو ۔۔۔ تحریر: محمد اظہر حفیظ

لائلپور میں شٹاپو آٹھ خانہ کھیل ہوتا تھا جس کو اچھل کود کر پار کرنا ہوتا تھا۔ فری کھیل تھا جہاں مرضی لائنیں لگاؤ اور ہوجاو شروع یہ ایسا کھیل تھا جو بندہ اکیلا بھی کھیل سکتا تھا۔
کچھ دن پہلے پتہ چلا کہ جب عہدے بڑے ہو جائیں تو شٹاپو کے خانے بھی بڑے اور زیادہ ہو جاتے ہیں۔ پاکستان کے کچھ علاقوں میں شٹاپو بارہ خانوں کا بھی ہوتا ہے ۔ یہ کھیل کچھ دن پہلے اسلام آباد میں کھیلا گیا ایک اکیلے آدمی نے بارہ خانوں کاشٹاپو میریٹ ہوٹل کے سامنے لکیرا پیدل چلتا ہوا خالی جیب آیا اور اس کو اچھل کود کر پار کر گیا۔
مجھے وہ وقت یاد آیا جب میں نشے میں چور گلی محلے کی نالیوں کے پاس پڑا انکو نہر سوویز سمجھتا رہتا تھا۔ پاس سے گزرتی گاڑیاں ہارن بجاتیں تو میں سمجھتا کہ شاید بحری جہاز ہارن دے رہے ہیں۔ اسی طرح ایک دوست شٹاپو کھیلتے کھیلتے بارہ ضلعے پار کر گیا۔
اب پتہ نہیں انکا جب نشہ اترا ہوگا تو کیا حال ہوگا۔
سنا تھا ایک بندر جنگل میں صبح صبح نکلتا اور سب کو نیک عمل کرنے کی تلقین کرتا۔ دیکھو نشہ کرنا بری عادت ہے یہ مضر صحت ہے، اپنی ضرورت سے بڑے جانور شکار مت کریں نیک عمل کریں اور نیکی کی ترغیب دیں۔ اب سارے جانور روزانہ اس کا انتظار کرتے اور بندر انکو نیکی کی باتیں بتاتا۔ ایک دن بندر نہیں آیا تو سب پریشان ہوگئے اور کافی دیر انتظار کرنے کے بعد اس کے گھر کی سمت چل پڑے۔ رستے میں اس کی زوجہ محترمہ بندریا مل گئی سب نے یک زبان ہو کر پوچھا۔ ہمارا نیک بندر کدھر ہے۔ بندریا افسردہ سی ہو کر بولی بندر صاحب کی عادت ہے روزانہ نہار منہ افیون کھانے کی ۔ جب نشہ چڑھتا ہے تو میں گھر سے نکال دیتی ہوں کہ گھر میں دھنگا فساد نہ کرے پھر یہ شام کو نشہ اترنے پر گھر واپس آجاتا ہے۔ آج افیون ختم تھی تو وہ گھر پر ہی ہے۔ خطرے کی کوئی بات نہیں۔ اسی طرح کچھ دوست شہد استعمال کرتے ہیں بڑھکیں مارتے ہیں اور جب شہد کا اثر ختم ہوتا ہے تو گھر واپس آجاتے ہیں ۔
لوگ طرح طرح کے گمان کرتے ہیں ۔ جب اخبار میں کام کرتا تھا تو پتہ چلا کہ پولیس بھی نشے کے مریضوں سے پناہ مانگتی ہے انکی تفتیش کرنے سے گریز کرتی ہے ایک دن ایک نشئی چوری کے الزام میں گرفتار ہوا ۔ تفتیشی سے پوچھا کوئی اقبال جرم کیا اس نے ۔ اس نے کہا سر یہ وبال جان ہے اس کو مارو تو مر جاتا ہے تفتیش کیلئے اپنے پلے سے نشہ کروانا پڑتا ہے تب جا کر صاحب تفتیش کے قابل ہوتے ہیں۔ اور تفتیش شروع ہوتی ہے۔
اس لیے یہ ہرگز نہ سوچیں کہ کوئی پولیس کی حراست میں تھا یا ہوگا۔ کوئی نشے میں بھی تو ہوسکتا ہے۔ اگر آپ میرے مضمون سے اختلاف رکھتے ہیں تو ضرور رکھیۓ بس اپنے گھر کے سامنے ایک شٹاپو لکیر لیں اور کھیلیں کیونکہ اس سے زیادہ برداشت نہیں ہوسکتا۔ میری اگلی کتاب پنجاب کی میٹھی ،سریلی اور مدھر گالیوں پر ہے اس کے بعد برصغیر پاک و ہند کی گالیوں کو بھی میں مرتب کررہا ہوں بتانے کا مقصد یہ باور کروانا ہے ۔ کہ گالی دینے سے گریز کریں ورنہ مکمل کتاب بمعہ دیباچہ پیش کردی جائے گی۔ شکریہ
اگر آپکے پاس وقت ہے تو سیاسی شٹاپو ضرور کھیلیں شکریہ۔ پر یاد رکھیں نشے سے احتیاط ہی زندگی ہے