نوجوانوں کو مرکری کے استعمال کے نقصانات کی آگاہی مہم میں شامل کیا جائے ڈاکٹر شازیہ

اسلام آباد(صباح نیوز)میناماٹا کنونشن کے نفاذ پر گول میز مباحثے میں مقررین نے عام عوام اور پالیسی سازوں کو کاسمیٹکس اور دیگر تجارتی مصنوعات میں مرکری کے نقصانات سے آگاہ کرنے کیلئے نوجوانوں کو مرکری کے خطرات اور اس کے استعمال سے ہونے والے نقصان پر آگاہی مہمات میں شامل کرنے کی فوری ضرورت پر زور دیاہے ۔مقررین نے ان خیالات کا اظہار پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی کے زیر اہتمام میناماٹا کنونشن، مرکری والی جلد کو سفید کرنے والی کریمیں اور پاکستان میں پالیسی، قانون سازی اور ضابطہ جاتی صورتحال کے موضوع پر ایک گول میز مباحثہ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔قومی اسمبلی کی رکن اور سابق پارلیمانی سیکریٹری صحت ڈاکٹر شازیہ ثوبیہ سومرو نے بطور مہمان خصوصی اس امر پر زور دیا کہ متعلقہ وزارتیں اور قانون ساز اس مسئلے کی سنگینی کو سمجھنے میں ناکام ہیں۔

انہوں نے زور دیا کہ سوشل میڈیا مہمات کو قومی ہم آہنگی اور یکجہتی کے ساتھ مرکری کے خطرات سے متعلق آگاہی پیدا کرنے کیلئے استعمال کیا جا ئے سینٹر آف ہیلتھ پالیسی انوویشن ایس ڈی پی آئی کی سینئر پالیسی ایڈوائزر ڈاکٹر رضیہ صفدر نے کہا کہ پاکستان مناماٹا کنونشن کا دستخط کنندہ ہونے کے باوجود مرکری والی جلد کو سفید کرنے والی کریموں کے سب سے بڑے پیدا کرنے اور برآمد کرنے والے ممالک میں شامل ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ انسانی جسم میں مرکری کے داخل ہونے سے نیورولوجیکل مسائل اور سنگین صحت کے مسائل جنم لیتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ایس ڈی پی آئی مرکری کے نقصانات پر تحقیق کرنے والا پہلا ادارہ ہے جس نے مرکری کے انسانی صحت پر مضر اثرات کے بارے میں جامع تحقیقی رپورٹیں مرتب کر کے جاری کی ہیں۔ایس ڈی پی آئی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر عابد قیوم سلہری نے اپنے افتتاحی خطاب میں کہا کہ مناماٹا کنونشن اور مرکری کے منفی اثرات ایس ڈی پی آئی کی تحقیقی ایجنڈے کا ایک اہم حصہ رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ملک میں قوانین کی بہتات کے باوجود ان کے نفاذ میں تاخیر ہو رہی ہے۔ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان (ٹی ڈی اے پی) کی ڈپٹی منیجر ثنا کھوکھر نے کہا کہ کاسمیٹکس میں مرکری کے استعمال کو روکنے کیلئے تحقیق اور ترقی کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی کی کمی ہے۔

اس مسئلے کو حل کرنے کیلئے ان کریموں کو نامیاتی اور حلال مرکبات سے تیار کرنے کی ضرورت ہے۔پاک-ای پی اے کی ڈائریکٹر جنرل فرزانہ الطاف شاہ نے اپنے اختتامی کلمات میں کہا کہ مرکری والی جلد کو سفید کرنے والی کریموں کا استعمال نوجوان لڑکیوں میں تیزی سے بڑھ رہا ہے، جو نہایت تشویشناک ہے اور خواتین کی صحت کے لیے طویل مدتی اور شدید نقصان دہ اثرات کا باعث بن سکتا ہے۔فرزانہ الطاف شاہ نے سابق پارلیمانی سیکریٹری صحت کو پارلیمنٹیرینز کو اس معاملے میں شامل کرنے اور اپنے حلقہ انتخاب میں مرکری کے خطرات سے متعلق مہم کا آغاز کرنے کی تجویز دی۔ڈائریکٹر کسٹمز انٹیلی جنس، ایف بی آر، خواجہ خرم نعیم نے کہا کہ پاکستان کسٹمز درآمدات اور برآمدات، ممنوعہ اشیاپر پابندی اور قانون میں شامل دیگر متعلقہ امور کی نگرانی کرتا ہے۔انہوں نے بتایا کہ درآمدی پالیسی 2016 کے مطابق جلد کو سفید کرنے والی کریموں کو پیرا 6 کے تحت ان اشیامیں شامل کیا گیا ہے جن کی کسٹمز کی جانچ ضروری ہے