آئینی ترمیم کے لئے میچ فکسنگ، خرید و فروخت نہیں ہونی چاہیے۔ مولانا فضل الرحمن

اسلام آباد (صباح نیوز)جمعیت علماء اسلام (ف)کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ آئینی ترمیم کے معاملے پرکوئی میچ فکسنگ، خرید و فروخت نہیں ہونی چاہیے، ترمیم پر کسی صورت حکومت کے ساتھ نہیں چلیں گے،شنگھائی تعاون تنطیم  اجلاس  ہونے تک ترمیم کو موخرکر دیا جائے، اپوزیشن بھی اپنی احتجاجی سرگرمیاں فی الحال ملتوی کردے ۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ اسرائیل کی دہشت گردی بڑھ رہی ہے اسرائیلی وحشیانہ ریاستی دہشت گردی کو روکنا امت مسلمہ کا فرض ہے،عالم اسلام کی خاموشی تشویش کا باعث ہے، اسرائیل مغربی دنیا اور امریکا کا اسلحہ استعمال کر رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ آئینی ترمیم کے لیے کہا گیا کہ اتوار کو ہی کرنا ہے ورنہ پیر کو آسمان گرجائیگا، آئینی ترمیم پر کسی بھی صورت حکومت کے ساتھ نہیں چلیں گے، حیرت ہے کہ انہیں آئینی ترامیم میں کس بات کی عجلت ہے ہمیں آئینی ترمیم کے معاملے میں جلد بازی قابل قبول نہیں، 18ویں ترمیم کے لیے ہم نے 9 ماہ سوچ بچار کی تھی۔انہوں نے کہا کہ اگر ہم اور ہمارا ووٹ اتنا قیمتی ہے تو ہماری بات بھی سنی جائے، کوئی میچ فکسنگ، خرید و فروخت نہیں ہونی چاہیے ۔ انھوں نے کہا کہ اس وقت کربناک اور تکلیف دہ موضوع اسرائیل کی وحشیانہ دہشت گردی ہے ،غزہ کے مسلمانوں کا قتل عام کیا جارہا ہے  50 سے 60 ہزار مسلمانوں  کو شہید کردیا گیا،ابھی تک ان کا خون پی پی کر اسرائیل کی  پیاس نہیں بجھ رہی ہے، اب انہوں نے اسے لبنان تک وسیع کر دیا ہے دوسرے اسلامی ممالک تک وہ آگے بڑھ رہا ہے دہشت گردی کا راستہ روکنا امت مسلمہ کا فرض بن جاتا ہے اور ایسے حالات میں امت مسلمہ کی خاموشی یا ان کے حکمرانوں کی جو خاموشی ہے وہ پوری امت مسلمہ کے لیے تشویش کا باعث ہے، ہمیں بڑا واضح موقف لینا چاہیے، عملی اقدامات کرنے چاہیے اور فلسطین کے آزادی اور مسجد اقصی کی آزادی کے لیے مسلمانوں کو ایک متحدہ کمان میں آنا چاہیے،

مشترکہ دفاع میں ان کو ایک پالیسی بنانی چاہیے۔یہ بھی بڑی واضح بات ہے کہ اسرائیل کے ہمنوا بھی  انسانی جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں کس بنیاد پر امریکہ کو یا مغربی دنیا کو انسانی حقوق کی بات کرنے کا حق حاصل ہوگا جبکہ انسانوں کا خون ان کے ہاتھوں سے ٹپک رہا ہے، رویوں میں تبدیلی لانی ہوگی۔اسلامی دنیا کے نامور شخصیات کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، تاہم اسلام کی بقا کے لیے کوئی ہتھیار نہیں ڈالتے وہ آگے بڑھتے ہیں اور اپنی جدوجہد کو جاری رکھتے ہیں، شخصیات آتی ہیں جاتی ہیں،مسلمان اگر زندہ ہے تو توحید پر مر مٹنے کے جذبے کے ساتھ زندہ ہے۔ سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ اس وقت پاکستان میں شنگائی تعاون کانفرنس کی تنظیم کا اجلاس ہو رہا ہے ہم دنیا بھر سے اس تنظیم سے وابستہ ممالک کے سربراہان اور ان کے جو مندوبین ہیں ان کو پاکستان میں خوش آمدید کہتے ہیں،پاکستانی معیشت اس حد تک زمین بوس ہو چکی ہے کہ اس حکومت سے جو ہماری نظر میں عوام کی حقیقی نمائندہ بھی نہیں ہے میں کانفرنس کو پاکستانی معیشت کے لیے ثمر آور بنانے کی صلاحیت موجود نہیں ہے، تاہم امید وابستہ کرتے ہیں کہ شاید پاکستان کے مستقبل کے لیے بھی بہتری کی کوئی نوید دے سکے،حکومت سے کہنا چاہتا ہوں کہ آئینی ترمیم کے بل کو موخر کر دیا جائے تاکہ یہ کانفرنس اب انجام کو پہنچے، اس دوران میں داخلی جو تنازعات ہیں اور سیاسی اختلافات ہیں اور اس کو ہمیں یکجہتی میں تبدیل کر دینا چاہیے اور کسی قسم کے تناظر سے ہمیں بالاتر ہو جانا چاہیے، اپوزیشن سے بھی یہی اپیل ہے کہ  اپنے احتجاج اس دوران نہ کرے، تاکہ اس دوران میں کوئی منفی پیغام ہمارے عوام کے صفوں سے نہ جائے اور مہمانوں کی موجودگی میں قوم ایک صف پر نظر آئے۔

انھوں نے کہا کہ اطلاعات کے مطابق  پی ٹی ایم کے جرگے کے منتظمین پرتشدد ہوا ہے قابل مذمت بات ہے، وہ ایک جرگہ کر رہے تھے ، حکومت کو ذمہ دارانہ رویے اپنانے چاہیے،ہمیں یکجہتی کی طرف جانا چاہیے اور حب الوطنی کے لیے ہمیں ماحول بنانا چاہیے تاکہ لوگ پاکستان کے ساتھ محبت کریں اور یہاں پر جو لوگ اس وقت احتجاج پر ہیں ان کو بھی ہمیں قومی دھارے میں لانے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ پاکستان کو ہم متحد کر سکیں اور پاکستان کو ایک مضبوط ملک بنا سکیں۔جہاں تک اس آئینی ترمیم کا مسئلہ ہے مجھے حیرت ہے اس بات پر کہ انہیں اس بات میں عجلت کس چیز کی ہے اور اس میں کوئی ایمرجنسی مجھے نظر نہیں آرہی، ایک زمانے میں ہمیں کہا گیا کہ اتوار کے دن ہی کرنا ہے ورنہ سوموار آئے گا تو آسمان زمین پہ گر آئے گا، آسمان تو نہیں گرا ایک ستارہ بھی نہیں گرا، تو اس طریقے سے لوگوں پہ ایمرجنسی مسلط کر کے کہ جان لیوا جس طرح بھی وہ چاہے ہو  ہم بل کی منظوری دے دیں، بل کی تفصیلات اصول کی عکاسی نہیں کرتی  ۔تفصیلات اس قابل نہیں ہے کہ اس کو پاس کیا جائے اس کو سپورٹ کیا جائے اور ہم کسی بھی قیمت پر حکومت کے ساتھ چلنے کو آمادہ نہیں ہے،اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر قانون سازی کی کسی کوپروا نہیں  کرنی ہے ۔اسلامی جمہوری پاکستان میں اسلامی قانون سازی کے لیے کوئی جلدی نہیں ہے ، معروضی مفادات، فوری مفادات، سیاسی مفادات میں اتنی جلدی ہوتی ہے کہ راتوں رات آئین میں ترمیم کی جائے۔ آپ کو یاد ہے اٹھارویں ترمیم کے لیے ہم نو مہینے بیٹھے رہے ہیں نو مہینے بیٹھ کر ہم نے مشکل سے ایک ترمیم تیار کی ہے، آج 24 گھنٹے کے اندر اندر ایک ترمیم کے لیے ہمیں کہا جا رہا ہے کہ آپ اس کو پاس کریں، واضح کردیا جلد بازی ہمیں قبول نہیں ہے ۔

انھوں نے کہا کہ  خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں حکومتی رٹ ختم ہو گئی ہے اس رٹ کو برقرار رکھنے کے لیے قوانین بھی موجود ہیں اختیارات بھی موجود ہیں کسی نئی قانون سازی کی ضرورت نہیں ہے ، یہاں پر ملٹری کورٹس کی باتیں بھی ہو رہی ہیں۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ 63 اے کے حوالے سے   فیصلہ آیا ہے عدالت کا فیصلہ ہے ہم قبول کرتے ہیں لیکن بات بنیادی یہ ہے کہ اس میں کوئی میچ فکسنگ نہیں ہونی چاہیے اور یہ سیل پرچیز کا ذریعہ نہیں بننا چاہیے۔سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ  دینی مدارس کی رجسٹریشن بند ہے اور پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ بغیر رجسٹریشن کے مدارس چل رہے ہیں، ان کے اکاؤنٹس بند ہیں تو کہتے ہیں ان کے آمدن کا پتہ نہیں چل رہا ۔کہاں سے اس کو پیسے آرہے ہیں، یہ ساری چیزیں حکومت کی طرف سے ہیں اور اس پر کوئی ایمرجنسی ان کے لیے نہیں ہے، کیوں؟ اس میں باہر کی دنیا سے مغرب کی دنیا سے ان کو شاباش ملتی ہے، جس مسئلے پر ان کو مغرب کی طرف سے شاباش ملتی ہو ان کی کوئی ضرورت نہیں ہے لیکن جہاں سے وہ سمجھتے ہوں کہ ہم نے اپنے مفادات کے لیے ترمیم کرنی ہے تو فورا ترمیم بھی لے آتے ہیں اور قانون سازی کی ضرورت بھی پڑ جاتی ہے،  اتفاق رائے ہونے کے باوجود مدارس کے معاملات کو طے نہیں کیا گیا، جس کو ہم اہمیت دینا چاہتے ہیں ان کو لائیں، ہماری بھی بات سنی جائے،اگر ہم اتنے اہم ہیں اور ہمارا ووٹ اتنا ضروری ہے تو پھر ہمارے مقاصد  ان کے لیے ضروری کیوں نہیں۔! تمہارے مقاصد کے لیے میں کیوں ضروری۔