حجاب کی اہمیت۔۔۔۔۔تحریر روبینہ لیاقت ندیم 


حجاب ایک دینی اصطلاح ہے اور شریعت میں اس کے معنی خواتین کے بدن کے بعض حصوں کو چھپانا ہے۔ اسلام سے پہلے کی اقوام میں بھی حجاب پایا جاتا تھا اور قرآن مجید کی بعض آیات اور ا‎ئمہ طاہرین علیہم السلام کی بعض روایات میں بھی حجاب کی اہمیت اور وجوب کا تذکرہ ہوا ہے

حجاب کا لفظ قرآن مجیدمیں سات بار (اکثر اوقات مانع اور حا‎ئل کے معنی میں) آیا ہے؛ اعراف: ۴۶، اسراء: ۴۵، مریم: ۱۷، احزاب: ۵۳، ص: ۳۲، فصّلت: ۵، اور شوری:۵۱.

سورہ احزاب کی آیت نمبر 53
تفصیلی مضمون: آیت حجاب
سورہ احزاب کی آیت نمبر 53 میں مسلمان مردوں کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ازواج کے سامنے جانے سے منع کیا ہے۔ اس آیت کا نزول گویا نامحرم مردوں کے سامنے عورتوں کیلیے حجاب واجب ہونے کے بیان میں پہلا قدم ہے، جبکہ حجاب کا مفہوم اور اس کے شرعی حدود کو تدریجی طور پر قرآن کی آیتوں کے نازل ہونے کے ساتھ ساتھ بیان کی گئی ہے: وَ إِذَا سَأَلْتُمُوہنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوہنَّ مِن وَرَ‌اءِ حِجَابٍ ذَٰلِكُمْ أَطْہرُ لِقُلُوبِكُمْ وَ قُلُوبِہنَّ (ترجمہ: اور جب تمہیں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بیویوں سے کچھ مانگنا ہو تو پردے کے پیچھے سے مانگا کرو؛ یہ تمہارے اور ان کے دلوں کی پاکیزگی کے لئے زیارہ بہتر طریقہ ہے)۔
اس آیت میں مردوں کو ازواج نبی کے ساتھ پردے کے پیچھے سے (مِنْ وَراءِ حجابٍ) بات کرنے اور پیغمبر اکرم کی بیویوں کو نامحرموں کی نظروں کے سامنے ظاہر نہ ہونے کا حکم ہوا ہے۔ اور اس کام کو طرفین کے لئے بہتر اور مناسب جانا گیا ہے۔ اس آیت مجیدہ میں “حجاب” کا لفظ استعمال ہونے کی وجہ سے یہ آیت، “آیت حجاب” کے نام سے مشہور ہے، اس کا حکم صرف پیغمبر اکرم کی بیویوں کے ساتھ خاص تھا اور دوسری مسلمان عورتیں اس میں شامل نہیں تھیں۔[5].
ابن امّ مکتوم کی حدیث کے مطابق پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی بیویوں کو نابینا مرد کے حضور میں بھی پردے کے پیچھے رہنے کا حکم دیا۔[6] دیگر احادیث بھی اسی معنی میں ہیں[7].
ازواج نبی کا اس حکم پر پابندی سے عمل پیرا ہونا اور صدر اسلام کے مسلمانوں کا اس آیت کو حجاب پر دلیل سمجھنا[8]، اس بات کی تا‎ئید کرتی ہیں کہ شروع میں حجاب واجب ہونے کی حکمت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شان و منزلت کی حفاظت اور ایک طرح سے ان کی بیویوں کا احترام مقصود تھا۔

خودنمائی کی نفی
ہجرت کے پانچویں سال تک کہ یہ آیت اسی سال پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زینب بنت جَحْش سے شادی کے موقعے پر نازل ہوئی تھی،[9] مذکورہ آیت میں ذکر شدہ “حجاب” کسی بھی مسلمان عورت پر واجب نہیں ہوا تھا۔ اگرچہ اس آیت سے پہلے نازل ہونے والی اسی سورہ کی دوسری چند آیتوں میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بیویوں اور دوسری مسلمان عورتوں کو جاہلیت کے دور کی طرح تبرّج (زینت) سے منع ہوا ہے لیکن نہ تبرج اور زینت کی نفی سے حجاب کے حدود اور دائرہ کار کا تعیین ہوتا تھا اور نہ زینت اور تبرج سے پرہیز کرنا حجاب سے بے نیازی کا سبب بنتا تھا۔ بہر حال آیت حجاب عورتوں کے حجاب کے بارے میں کوئی مستقل دلیل نہیں بلکہ پردے کا شرعی حکم اور اس کا محدودہ قرآن مجید کی دوسری آیتوں میں ذکر ہوا ہے۔

سورہ احزاب کی آیت نمبر 59
سورہ احزاب کی آیہ نمبر 59 کے نزول کے بعد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کی بیویوں، بیٹیوں اور مومن عورتوں کو حکم دیا گیا کہ دوسروں کی اذیت سے بچنے اور اپنی شناخت کرانے کیلیے جلباب پہن لیں: یا أَیہا النَّبِی قُل لِّأَزْوَاجِكَ وَ بَنَاتِكَ وَ نِسَاءِ الْمُؤْمِنِینَ یدْنِینَ عَلَیہنَّ مِن جَلَابِیبِہنَّ ذَٰلِكَ أَدْنَیٰ أَن یعْرَفْنَ فَلَا یؤْذَینَ وَكَانَ اللَّہ غَفُوراً رَّحیمًا (ترجمہ: اے نبی! اپنی ازواج او راپنی بیٹیوں اور مومنین کی عورتوں سے کہہ دیجیے: وہ اپنی چادریں تھوڑی نیچی کر لیا کریں، یہ امر ان کی شناخت کے لئے (احتیاط کے) قریب تر ہوگا پھر کو‎ئی انہیں اذیت نہ دے گا اور اللہ بڑا معاف کرنے والا، مہربان ہے۔)
عربی زبان کے ماہرین اور مفسروں نے جلباب کے لئے مختلف معانی ذکر کئے ہیں ان میں سے کچھ یہ ہیں:
سر سے پا‎‎‎ؤں تک ‎ڈھانپنے والا لباس جیسے بڑی چادر
وہ ڈھیلا لباس جو عورتیں کپڑوں کے اوپر پہنتی ہیں جو پاوں تک پہنچتا ہے۔
لحاف، مقنعہ اور سکارف جو عورت کا چہرہ اور سر کو ‎ڈھانپ لیتا ہے۔[10]
بعض روایات[11] سے اخذ ہوتا ہے کہ مردوں کے بعض کپڑوں کو بھی جلباب کہا جاتا ہے۔ اس آیہ شریفہ کے حکم میں جلباب سے مراد پورا بدن ‎ڈ‎ھانپنے والا (جیسے چادر یا لحاف) کپڑا ہونے کا احتمال قوی ہے۔[12]
«ذلک اَدْنی اَن یعْرَفْنَ» یعنی مؤمن عورتیں کن لوگوں سے پہچانی جا‎ئیں اس بارے میں مفسروں کے مابین ایک نظریہ نہیں ہے۔ بعض لوگ آیت شریفہ کی شأن نزول کو مدنظر رکھتے ہو‌‎ئے کہتے ہیں کہ مدینہ کی خواتین کو آوارہ لوگوں کی طرف سے بری حرکات اور آداب و نزاکت کے دا‎ئرے سے باہر کی حرکتوں کا سامنا کرنا پڑا اور اعتراض کرنے پر ان کی طرف سے کنیز سمجھ کر مرتکب ہونے کا عذر پیش کرنے کی وجہ سے جلباب، آزاد عورتوں کو کنیزوں سے پہچاننے اور آوارہ لوگوں کی اذیت اور آزار سے بچنے کے لئے وسیلہ قرار دیا گیا۔[13]. اگرچہ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ کنیزوں کو چھیڑنے سے شارع راضی ہو۔
ان کے مقابلے میں بعض مفسروں کا کہنا ہے کہ جلباب پہننا دوسری عورتوں کے مقابلے میں پاکدامن اور باعفت خواتین کی نشانی ہے۔[14] جبکہ اہل سنت کے بہت سارے مفسرین اور فقہا‌ء[15] اور بعض شیعہ مفسرین اور فقہا‌ء نے بھی حجاب کے الزامی ہونے کو آیہ جلباب سے تمسک کیا ہے۔[16]، جبکہ بعض اور فقہاء کی نظر میں اس آیہ میں یہ حکم نہ واجب ہے اور نہ ہی عام، بلکہ جلباب عورتوں کو پاکدامن اور «آزاد» دکھانے اور انکی شخصیت محفوظ کرنے کا ایک وسیلہ ہے۔[17] اور شاید اسی وجہ سے مدینہ کی بعض خواتین نے اس کا استقبال کیَا
سورہ نور کی آیت نمبر 31
سورہ احزاب کے بعد سورہ نور کی آیت نمبر31 نازل ہونے کے بعد خواتین پر حجاب واجب ہوگیا: وَ قُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ یغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِ‌ہنَّ وَ یحْفَظْنَ فُرُ‌وجَہنَّ وَ لَایبْدِینَ زِینَتَہنَّ إِلَّا مَا ظَہرَ مِنْہا وَ لْیضْرِبْنَ بِخُمُرِ‌ہنَّ عَلَیٰ جُیوبِہنَّ وَ لَایبْدِینَ زِینَتَہنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِہنَّ أَوْ آبَائِہنَّ… وَ لَایضْرِ‌بْنَ بِأَرْ‌جُلِہنَّ لِیعْلَمَ مَا یخْفِینَ مِن زِینَتِہنَّ وَ تُوبُوا إِلَی اللہ جَمِیعًا أَیہ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (ترجمہ: اور مومنات سے کہہ دیجئے کہ وہ بھی اپنی نگاہوں کو نیچا رکھیں اور اپنی عفت کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کا اظہار نہ کریں علاوہ اس کے جو ازخود ظاہر ہے اور اپنے دوپٹہ کو اپنے گریبان پر رکھیں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں سوا‎ئے اپنے شوہروں اور آباء… کے۔ اور خبردار اپنے پاؤں پٹک کر نہ چلیں کہ جس زینت کو چھپائے ہوئے ہیں اس کا اظہار ہوجائے اور صاحبانِ ایمان تم سب اللہ کی بارگاہ میں توبہ کرتے رہو کہ شاید اسی طرح تمہیں فلاح اور نجات حاصل ہوجائے۔)

اس آیت میں با ایمان عورتوں کو حکم ہوا ہے کہ اپنی آنکھوں کو نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، اور عام طور پر ظاہر ہونے والی زینتوں کے سوا‎ئے دوسری زیتوں کو ظاہر نہ کریں اور اپنی چادر کو اپنے گریباں پر ڈال دیں اور زینت کو بعض معین افراد (جو آیت میں ذکر ہو‎ئے ہیں) کے لئے ظاہر کریں اور اپنے پاوں کو ایسے زمین پر نہ رکھیں کہ جس سے ان کی پوشیدہ زینت ظاہر ہوجا‎ئے: یہ آیت فقہاء کے لئے حجاب کے وجوب ثابت کرنے اور اس کے حدود اور دا‎ئرہ کو معین کرنے کے لئے مہم مستند ہے۔ اور حجاب کی بحث احادیث میں بھی اس آیہ شریفہ بالخصوص اس کلمہ «اِلّا ما ظَہرَ» ( ظاہری زینت) کی تفسیر کے حکم میں ہے اور ان کی طرف نگاہ کرنے کے حکم میں ہے۔ [19]. البتہ کبھی کبھار دوسری آیات سے بھی استناد ہوا ہے۔ جیسے سورہ احزاب کی آیت نمبر 33 جس میں تبرج (زینت) سے منع ہوا ہے اور اسی طرح سورہ نور کی آیت نمبر 30 اور 31 آیہ جلباب۔[20]. بعض احادیث میں حجاب کے دوسرے پہلو کی طرف بھی اشارہ ہوا ہے جیسے عمر رسیدہ خواتین کا حجاب، بلوغ کے بعد حجاب کا وجوب، یا بعض خاص قسم کے مرد یا نابالغ بچوں
اسلام عورت کے بننے سنورنے یا فیشن کرنے پر قدغن نہیں لگاتا، بل کہ پردے اور حدود میں یہ سب کچھ کرنے کی اجازت دیتا ہے۔
کسی بھی مذہب کی تعلیمات اس مذہب کی قوم کے سیرت و کردار کی تشکیل کے لیے مرتب کی جاتی ہیں اور ہر مذہب کے مذہبی اصول و قوانین اس کی مذہبی تعلیم و تربیت کی روشنی میں تہذیب و تمدن کے ساتھ مختلف حالتوں میں موجود ہیں۔

تمام مذاہب عالم کی تعلیمات ایک طرف اور دین حق اسلام کی تعلیمات ایک طرف ہیں۔ اسلام ایک مکمل ضابطۂ اخلاق اور دین فطرت ہے، جس کا ہر قانون نہ صرف کردار کی تشکیل کرتا ہے بل کہ افراد کی زندگی کو تحفظ اور روح و قلب کو سکون فراہم بھی کرتا ہے۔ اسلام کے یہ تمام قوانین مرد و زن دونوں پر مساوی نافذ ہوتے ہیں، فرق ان میں صرف صنفی شخصیت کے مطابق ہوتا ہے۔

اسلام نے عورت کے لیے جو احکام و قوانین متعین فرمائے ہیں ان میں سے حجاب یعنی پردے کا حکم نہایت اہم حیثیت کا حامل ہے۔ قدرت کے تمام احکامات کے پیچھے حکمت کار فرما ہے اور اسی میں دراصل انسان کی بھلائی پوشیدہ ہے۔ اگر انسان خود سمجھنا چاہے تو احکامات پردہ بھی بہت سی حکمتوں سے بھرپور ہیں، جو عورت کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔
حجاب بے شمار برائیوں اور عیوب سے بچاتا ہے۔ اہل مغرب کی تقلید کرنے والے اور نام نہاد روشن خیال اس کو معیوب سمجھتے اور اس کو عورت کے لیے ایک قید تصور کرتے ہیں۔ کچھ مغربی ممالک اسلام کی دشمنی میں حجاب و نقاب کو روکنے کے لیے نت نئی پابندیاں عاید کرنے کے لیے آئے دن کوئی نہ کوئی بِل پاس کرانے کے لیے کوشاں رہتے ہیں، اور ایسا وہ صرف اسلام دشمنی میں کرتے ہیں۔ اگر ہم دیگر مذاہب کا بھی مطالعہ کریں تو ہمیں یہ معلوم ہوگا کہ ہندو مذہب میں بھی پردے کا تصور موجود ہے، اور یہ بات قابل ذکر ہے کہ ہندؤوں کی کتب میں بھی اس کا ذکر موجود ہے کہ جب راون سیتا کو اٹھا کر لے جاتا ہے اور رام اس کی تلاش میں مارا مارا پھرتا ہے تو ایسے میں وہ اپنے بھائی لکشمن کو مدد کے لیے بلاتا اور اپنی پریشانی کا ذکر کرتا ہے اور کہتا ہے کہ وہ سیتا کو اس کے ساتھ مل کر تلاش کرے، مگر لکشمن اس کے جواب میں انکار کرتا اور کہتا ہے کہ وہ سیتا کو کیسے پہچانے گا اس نے تو اس کا چہرہ بھی نہیں دیکھا۔ کیوں کہ سیتا اپنا چہرہ چھپاتی تھی اور جب انہوں نے سیتا کو تلاش کیا تو لکشمن نے سیتا کو اس کے پاؤں میں پہنی ہوئی پازیب سے پہچانا۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ ہندو مذہب میں بھی پردے کا تصور ہے اور ان کی مذہبی کتاب میں اس کا ذکر ملتا ہے۔
عورت گھر کی زینت ہے اور عربی زبان میں لفظ عورت کا مطلب ہی چھپا کر رکھنے کے ہیں اور انسانی فطرت ہے کہ وہ اپنی قیمتی متاع کو چھپا کر رکھتا ہے نہ کہ اس کی نمائش کی جائے۔ اسلام عورت کے بننے سنورنے یا فیشن کرنے پر قدغن نہیں لگاتا، بل کہ پردے اور حدود میں یہ سب کچھ کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ زیب و زینت کی جائے مگر حجاب کا خیال رکھا جائے، نامحرموں کے سامنے اس کی نمائش سے پرہیز کیا جائے، تاکہ معاشرے کے دیگر افراد کو گناہوں اور گم راہی سے بچایا جائے۔ شرم و حیا ہی تو دراصل عورت کا حقیقی زیور ہے، افسوس کہ ہم اسلام کی تعلیمات کو بُھلا چکے ہیں اسی وجہ سے تو ذلیل و رسوائی کی طرف چلتے جا رہے ہیں۔
اللہ ہمیں اسوۂ رسول کریم ﷺ پر عمل پیرا ہونے کی توفیق سعید عطا فرمائے۔
کسی بھی مذہب کی تعلیمات اس مذہب کی قوم کے سیرت و کردار کی تشکیل کے لیے مرتب کی جاتی ہیں اور ہر مذہب کے مذہبی اصول و قوانین اس کی مذہبی تعلیم و تربیت کی روشنی میں تہذیب و تمدن کے ساتھ مختلف حالتوں میں موجود ہیں۔ تمام مذاہب عالم کی تعلیمات ایک طرف اور دین حق اسلام کی تعلیمات ایک طرف ہیں۔ اسلام ایک مکمل ضابطۂ اخلاق اور دین فطرت ہے، جس کا ہر قانون نہ صرف کردار کی تشکیل کرتا ہے بل کہ افراد کی زندگی کو تحفظ اور روح و قلب کو سکون فراہم بھی کرتا ہے۔ اسلام کے یہ تمام قوانین مرد و زن دونوں پر مساوی نافذ ہوتے ہیں، فرق ان میں صرف صنفی شخصیت کے مطابق ہوتا ہے۔

اسلام نے عورت کے لیے جو احکام و قوانین متعین فرمائے ہیں ان میں سے حجاب یعنی پردے کا حکم نہایت اہم حیثیت کا حامل ہے۔ قدرت کے تمام احکامات کے پیچھے حکمت کار فرما ہے اور اسی میں دراصل انسان کی بھلائی پوشیدہ ہے۔ اگر انسان خود سمجھنا چاہے تو احکامات پردہ بھی بہت سی حکمتوں سے بھرپور ہیں، جو عورت کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔
حجاب بے شمار برائیوں اور عیوب سے بچاتا ہے۔ اہل مغرب کی تقلید کرنے والے اور نام نہاد روشن خیال اس کو معیوب سمجھتے اور اس کو عورت کے لیے ایک قید تصور کرتے ہیں۔ کچھ مغربی ممالک اسلام کی دشمنی میں حجاب و نقاب کو روکنے کے لیے نت نئی پابندیاں عاید کرنے کے لیے آئے دن کوئی نہ کوئی بِل پاس کرانے کے لیے کوشاں رہتے ہیں، اور ایسا وہ صرف اسلام دشمنی میں کرتے ہیں۔ اگر ہم دیگر مذاہب کا بھی مطالعہ کریں تو ہمیں یہ معلوم ہوگا کہ ہندو مذہب میں بھی پردے کا تصور موجود ہے، اور یہ بات قابل ذکر ہے کہ ہندؤوں کی کتب میں بھی اس کا ذکر موجود ہے کہ جب راون سیتا کو اٹھا کر لے جاتا ہے اور رام اس کی تلاش میں مارا مارا پھرتا ہے تو ایسے میں وہ اپنے بھائی لکشمن کو مدد کے لیے بلاتا اور اپنی پریشانی کا ذکر کرتا ہے اور کہتا ہے کہ وہ سیتا کو اس کے ساتھ مل کر تلاش کرے، مگر لکشمن اس کے جواب میں انکار کرتا اور کہتا ہے کہ وہ سیتا کو کیسے پہچانے گا اس نے تو اس کا چہرہ بھی نہیں دیکھا۔ کیوں کہ سیتا اپنا چہرہ چھپاتی تھی اور جب انہوں نے سیتا کو تلاش کیا تو لکشمن نے سیتا کو اس کے پاؤں میں پہنی ہوئی پازیب سے پہچانا۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ ہندو مذہب میں بھی پردے کا تصور ہے اور ان کی مذہبی کتاب میں اس کا ذکر ملتا ہے۔
عورت گھر کی زینت ہے اور عربی زبان میں لفظ عورت کا مطلب ہی چھپا کر رکھنے کے ہیں اور انسانی فطرت ہے کہ وہ اپنی قیمتی متاع کو چھپا کر رکھتا ہے نہ کہ اس کی نمائش کی جائے۔ اسلام عورت کے بننے سنورنے یا فیشن کرنے پر قدغن نہیں لگاتا، بل کہ پردے اور حدود میں یہ سب کچھ کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ زیب و زینت کی جائے مگر حجاب کا خیال رکھا جائے، نامحرموں کے سامنے اس کی نمائش سے پرہیز کیا جائے، تاکہ معاشرے کے دیگر افراد کو گناہوں اور گم راہی سے بچایا جائے۔ شرم و حیا ہی تو دراصل عورت کا حقیقی زیور ہے، افسوس کہ ہم اسلام کی تعلیمات کو بُھلا چکے ہیں اسی وجہ سے تو ذلیل و رسوائی کی طرف چلتے جا رہے ہیں۔
اللہ ہمیں اسوۂ رسول کریم ﷺ پر عمل پیرا ہونے کی توفیق سعید عطا فرمائے۔ آمین