بوگس دستاویز پر زیروٹالرینس ہے، ہمارے پاس علم غیب نہیں، ہم قانون سے چلتے ہیں،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ


اسلام آباد(صباح نیوز)چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ جہاں بوگس دستاویز جمع کروائیں گے وہاں زیروٹالرینس ہے۔ تعیناتی کے بعد تصدیق کی جاتی ہے کہ جو لکھا ہے درست لکھا ہے، یہ کہنا درست نہیں کہ میں نے جھوٹ لکھا ہے اور میں تعینات ہوگیا ہوں اب مجھے نکال نہیں سکتے۔  5ہزار لوگ کسی پوسٹ کے لئے اپلائی کرتے ہیں توکیا وہ پہلے تصدیق کریں یہ کیسے ممکن ہے۔ کوئی پہلے دوست ہو گا اور بعد میں دشمن بن گیا ہو گااوروہ آکر شکایت کرے گا کہ ڈگری جعلی ہے، کوئی 20سال بعد بھی آکر شکایت کرے گاتوجعلی دستاویزات پر ملازمت سے نکالا جاسکتا ہے۔ ہمارے پاس علم غیب نہیں ہے ہم قانون سے چلتے ہیں، کیس چلنے کے لئے لگتے ہیں، التواہم سے نہ مانگیں، 12سال پرانا کیس ہے۔ قانون کے تقاضے پورے کردیں ہم مفروضوں پر نہیں جائیں گے، یہ حقائق پر چلنے والی عدالت ہے۔ کسی کو بھی تعینات کریں لیکن یہ منطقی ہونا چاہیے، یہ نہیں کہہ سکتے کہ نااہل بھی ہے اوراسے تعینات بھی کیا، یہ عجیب وغریب صورتحال ہے، اس لئے سارے سرکاری اداروں کو تباہ کردیا۔ قانون کے مطابق بھرتی کریں ہم کمپنیاں نہیں چلارہے۔ ہر آدمی اِدھر آکر تقریرکرنے کھڑاہوجاتا ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس نعیم اخترافغان اورجسٹس شاہد بلال حسن پر مشتمل 3رکنی بینچ نے بدھ کے روز مختلف کیسز کی سماعت کی۔ بینچ نے مسعود عباس کی جانب سے حمایت اللہ بیگ اوردیگر کے خلاف زمین کے ملکیت کے تنازعہ پر دائر درخواست پر سماعت کی۔ درخواست گزار کی جانب سے معا ذاللہ برکنڈی بطور وکیل پیش ہوئے۔

چیف جسٹس کاوکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اگر مختارنامہ نہیں توکیس کیوں چلانے آئے ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہمارے پاس علم غیب نہیں ہے ہم قانون سے چلتے ہیں، کیس چلنے کے لئے لگتے ہیں، التواہم سے نہ مانگیں، 12سال پرانا کیس ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ قانون کے تقاضے پورے کردیں ہم مفروضوں پر نہیں جائیں گے، یہ حقائق پر چلنے والی عدالت ہے۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کسی عدالت سے جیتے ہیں یاسب عدالتوں سے ہارے ہیں ، ہم وقت دینے کے لئے نہیں بیٹھے۔ چیف جسٹس کاوکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کیاآپ نے جسٹس فضل کریم کی کتاب پڑھی ہے، قانون شہادت آرڈر پڑھا ہے، قانون کی ڈگری ہے آپ کے پاس؟کیا قانونی معاونت اپنے مؤکل کودے رہے ہیں۔ عدالت نے درخواست ناقابل سماعت قراردیتے ہوئے خارج کردی۔ جبکہ بینچ نے افتخارعباسی کی جانب سے آئل اینڈ گیس ڈویلپمنٹ کمپنی اسلام آباد کے خلاف جی ایم پراجیکٹ تعیناتی کے معاملہ پردائر درخواست پر سماعت کی۔

درخواست گزار کی جانب سے سہیل محمود جبکہ مدعاعلیہ کی جانب سے خرم ممتاز ہاشمی بطور وکیل پیش ہوئے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کیا پروموشن کے معاملات بھی ہائی کورٹ جاتے ہیں، یہ تومحکمانہ پروموشن کمیٹی کاکام ہے۔ مدعا علیہ کے وکیل کاکہنا تھا کہ ڈاکٹر اقبال میمن نے 76نمبر لئے اس لئے انہیں جی ایم پراجیکٹ تعینات کیا گیا جبکہ درخواست گزار افتخار عباسی نے 70نمبر لئے، دونوں امیدوار کامیاب نہیں ہوئے تھے تاہم اقبال میمن کو زیادہ نمبر ہونے کی وجہ سے تعینات کیا گیا انہوں نے ڈیڑھ سال عہدے پر کام کیا جس کے بعد وہ ملازمت سے ریٹائر ہوچکے ہیں۔

چیف جسٹس کاکہنا تھاکہ اگر کوئی بھی اہل نہیں تواشتہار دے دیں، کیاآج کل چیزیں سمجھنا اتنا مشمل ہو گیا ہے،ایک شخص کو نااہل قراردے رہے ہیں اور اسے ہی تعینات کررہے ہیں۔ مدعا علیہ کے وکیل کاکہناتھا کہ جی ایم پراجیکٹس کی پوسٹ خال ہے اور اقبال میمن ریٹائرڈ ہوچکے ہیں، دوبارہ ڈی پی سی ہوگی۔ چیف جسٹس کاکہناتھا کہ یہ چار سال پرانا کیس ہے ہم گھڑی کوواپس نہیں لے جاسکتے۔

چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کسی کو بھی تعینات کریں لیکن یہ منطقی ہونا چاہیے ، یہ نہیں کہہ سکتے کہ نااہل بھی ہے اوراسے تعینات بھی کیا، یہ عجیب وغریب صورتحال ہے، اس لئے سارے سرکاری اداروں کو تباہ کردیا۔ چیف جسٹس کادرخواست گزارسے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ کوہم کیاریلیف دیں۔وکیل کاکہناتھاکہ میرانام زیر غورتولائیں، تعینات کرنا کمپنی کااختیارہے۔چیف جسٹس کا درخواست منظور کرتے ہوئے کہنا تھا کہ قانون کے مطابق بھرتی کریں ہم کمپنیاں نہیں چلارہے، یہ کمپنی ہے سرکاری محکمہ نہیں، یہ ان کی مکمل صوابدید ہے۔ بینچ نے ایم ایس سر تنگی مائننگ کمپنی کی جانب سے ایم ایس خان مائننگ انڈسٹریز اوردیگر کے خلاف نیفرائٹ کے ٹھیکے کے لائسنس کے حوالے سے دائر درخواست پر سماعت کی۔فریقین کی جانب سے قاضی جواد احسان اللہ ، عبدالوحید قریشی اور افتخار احمد بشیر بطور وکیل پیش ہوئے۔

خیبرپختونخوا حکومت کی جانب سے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل شاہ فیصل الیاس اور محکمے کے حکام پیش ہوئے۔ چیف جسٹس کا کہناتھا مدعا علیہ نے کس کوآج ہی وکیل کیا ہے تواس سے ہماراکیا تعلق ہے۔ چیف جسٹس کاکہناتھا کہ جھگڑاحل ہوسکتا ہے کہ نہیں، کیا کہتے ہیں مرغی حرام ہے، معاملہ حل ہوسکتا ہے کہ نہیں بتادیں، ہر آدمی اِدھر آکر تقریرکرنے کھڑاہوجاتا ہے۔جسٹس نعیم اخترافغان کاایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھاکہ آئندہ سماعت پر ساراریکارڈ لے کرآئیں۔چیف جسٹس کاکہناتھا کہ آئندہ سماعت پر مائنز اینڈ منرل ڈیپارٹمنٹ متعلقہ افسر کوریکارڈ کے ہمراہ بھیجے، ایسا افسر بھجوایا جائے جس کو معاملہ کاعلم بھی ہواوروہ عدالت کے سوالوں کاجواب دے سکے، ایسا نہ ہوکہ جوافسر آئے اس کو کسی چیز کاعلم نہ ہو۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت دوہفتے کے لئے ملتوی کردی۔

بینچ نے رفعت ناہید کی جانب سے جعلی ڈومیسائل کی بنیاد پر نوکری سے نکالے جانے کے سروس ٹربیونل کے فیصلہ کوبرقراررکھنے کے سپریم کورٹ کے فیصلہ کے خلاف دائر نظرثانی اپیل پر سماعت کی۔ درخواست میں آئی جی پنجاب پولیس اوردیگر کو فریق بنایا گیا تھا۔ درخواست گزار کی جانب سے نویداحمد خواجہ بطور وکیل پیش ہوئے۔چیف جسٹس کاکہناتھاکہ درخواست گزاروہاڑی کی رہائشی نہیں اور بوگس دستاویزات بھرتی کے لئے پیش کیں، وکیل اگرمگرنہ کریںبلکہ ریکارڈ سے بات کریں، ڈومیسائل کدھر ہے۔

چیف جسٹس کاوکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ جوسوال پوچھ رہے ہیں اس کاجواب تودیں۔ جسٹس نعیم اخترافغان کاکہناتھا کہ عارضی رہائش کاوہاڑی کا سرٹیفکیٹ پیش کردیا ، وہاڑی کی مستقل رہائشی نہیں بلکہ لاہور کی مستقل رہائشی ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ جہاں بوگس دستاویز جمع کروائیں گے وہاں زیروٹالرینس ہے۔ چیف جسٹس کی جانب سے ججز کی بات کے دوران بولنے پر وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کچھ توعدالت کااحترام کریں، درمیان میں بات نہ کریں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ تعیناتی کے بعد تصدیق کی جاتی ہے کہ جو لکھا ہے درست لکھا ہے، یہ کہنا درست نہیں کہ میں نے جھوٹ لکھا ہے اور میں تعینات ہوگیا ہوں اب مجھے نکال نہیں سکتے۔ جسٹس نعیم اخترافغان کاکہناتھا کہ لاہور کاڈومیسائل ہے اور وہاڑی کی عارضی رہائشی تھیں۔

چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ 5ہزار لوگ کسی پوسٹ کے لئے اپلائی کرتے ہیں توکیا وہ پہلے تصدیق کریں یہ کیسے ممکن ہے۔ چیف جسٹس کاکہناتھا کہ اگر کوئی شخص ایل ایل بی کی ڈگری دیتا ہے تواس کو وکالت کالائسنس دے دیا جاتا ہے تاہم پنجاب بار کونسل ڈگری کی تصدیق کرے گی اوراگرڈگری جعلی ثابت ہوئی تووکالت کالائسنس واپس لے لے گی۔ چیف جسٹس کاکہناتھا کہ ہرچیز کی تصدیق پہلے نہیں ہوتی۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کوئی پہلے دوست ہو گا اور بعد میں دشمن بن گیا ہو گااوروہ آکر شکایت کرے گا کہ ڈگری جعلی ہے، کوئی 20سال بعد بھی آکر شکایت کرے گاتوجعلی دستاویزات پر ملازمت سے نکالا جاسکتا ہے۔

چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ مقامی وہاڑی پولیس والے چاہیں تھے اورآپ لاہور لے رہائشی تھے۔ عدالت نے نظرثانی درخواست ناقابل سماعت قراردیتے ہوئے خار ج کردی۔ ZS