اسلام آباد(صبا ح نیوز)وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے سینیٹ اجلاس سے خطاب میں کہا ہے کہ سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ 63 اے میں ہم اس کی تشریح کرتے ہیں کہ کوئی شخص پارٹی ڈسپلن کے خلاف ووٹ ڈالے گا تو وہ بھی کاونٹ نہیں ہوگا اور اسے نااہل بھی کیا جائے گا، اگر اس کا ووٹ گنا نہیں جائے گا تو سزا کس بات کی ہوگی۔چیئرمین یوسف رضا گیلانی کی زیر صدارت سینیٹ اجلاس ہوا، نائب وزیراعظم نے کہا کہ عوام کو انصاف نہیں ملتا، میں حیران تھا جب مجھے وزیر قانون نے بتایا کہ گیارہ گیارہ سال پہلے پٹیشنز ڈالی ہوئی ہیں اور وہ لگی نہیں ہیں اور لوگ اپنی سزا کاٹ کر اپنے گھر پہنچ چکے ہیں، کیا اس ملک میں یہی عدالتی نظام ہے اور کیا لوگوں کو اسی رفتار سے انصاف فراہم کیا جائے گا، ہمیں مل کر ان چیزوں کو ٹھیک کرنا ہوگا اور جب یہ بل لایا جائے گا تو کوئی بھی ذی شعور شخص یہی کہے گا کہ اس میں بہتری ہوگی،
ان کا کہنا تھا کہ ہم وہ قانون سازی کریں گے جو ملکی اور عوامی مفاد میں ہوگی۔جس پر اعظم نذیر تارڑ نے سینیٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملہ پر ایک اپیل لگی ہوئی ہے،جو پارٹی لائن کراس کرے اس پر ریفرنس بھیجیں گے کہ اسکو نااہل کیا جائے، سپریم کورٹ نے کہا کہ 63 اے میں ہم اس کی تشریح کرتے ہیں کہ کوئی شخص پارٹی ڈسپلن کے خلاف ووٹ ڈالے گا تو وہ بھی کاونٹ نہیں ہوگا اور اسے نااہل بھی کیا جائے گا، اگر اس کا ووٹ گنا نہیں جائے گا تو سزا کس بات کی ہوگی۔انہوں نے کہا یہ درخواست گزشتہ ڈیڑھ دو سال سے نظر ثانی میں پڑی ہوئی ہیں، 63 اے کو جس طرح قانون سازوں نے آئین میں مرتب کیا ہے وہ بالکل واضح ہے اس کی تشریح اس کی روح کے منافی نہیں ہوگی تو پھر لوگ اس پر بات کریں گے اور اس قسم کی چیزوں پر اور وضاحت آنی چاہیے۔
سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے اس حوالے سے ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ سزا تب ملے گی جب کوئی جرم ہو،فلور کراسنگ پر ووٹ اگر کاونٹ نہیں ہوتا تو سزا کس کے لیے ہے، سپریم کورٹ نے پنجاب حکومت کیس میں آئین کو نئے سرے سے لکھا ہے، اس کے خلاف نظر ثانی درخواست دائر ہوئے ڈیرھ سال ہوگیا ہے، سپریم کورٹ آئین کو دوبارہ نہیں لکھ سکتی، یہ صرف پارلیمنٹ کا استحقاق ہے۔سینیٹر ایمل ولی خان نے کہا کہ ایک عرصہ سے عدلیہ نے کھلم کھلاآئین کے خلاف جا کر ایک پارٹی کی حمایت کی اور اس کے لیے آئین کو نئے سرے سے لکھا گیا، خارجہ پالیسی عوام کے مفاد کے لیے بننی چاہیے نہ کہ کسی خاص ادارے کے لیے ہونی چاہیے،ہم عوامی مفاد میں حکومت کے ساتھ کھڑے ہوں گے، مسلم لیگ (ن) ووٹ کو عزت دے گی، اور ہم اس کے ساتھ کھڑے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ یہ قانون عوامی مفاد کے لیے نہیں حکومتی مفاد کے لیے ہے، عوامی مفاد کی بات کوئی نہیں کررہا جس میں مہنگائی کا طوفان، ٹیکسز کی بھرمار شامل ہے اور ہم نے سنا ہے ایک نیا منی بجٹ آرہا، جس میں مزید ٹیکسز کی بھرمار ہوگی۔
سینیٹر ایمل ولی خان نے مزید کہا کہ چیئرمین سینیٹ گواہ ہیں اس بات کے جب انہوں نے ہمیں کہا کہ آپ حکومت کا حصہ بننا چاہتے ہیں یا اپوزیشن کا؟ تو میں نے کہا ہم نہ اس حکومت کا حصہ بننا چاہتے ہیں اور نہ اس اپوزیشن کا، سینیٹر شبلی فراز نے جو آج تقریر کی وہ اپوزیشن لیڈر کی نہیں بلکہ پی ٹی آئی لیڈر کی تقریر تھی۔اس سے قبل سینیٹ میں قائد حزب اختلاف شبلی فراز نے کہا کہ اسلام آباد میں باز گشت ہے کہ کوئی آئینی ترامیم لائی جارہی ہیں۔ کسی بھی قانون سازی کے لیے ہمیں یہاں بل پکڑا دیے جاتے ہیں، پڑھے بغیر پاس کردیے جاتے، بل بلڈوز کیے جاتے ہیں، متعلقہ کمیٹیوں کو بل نہیں بھیجے جاتے۔انہوں نے کہا کہ وہ قوانین جو ملک کو چلانے میں مدد دیتے ہیں، یہ ھاوس کی بنیادی ذمہ داری ہے،یہ آئینی و قانونی ذمہ داریاں پوری کرنا تو فخر کی بات ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اگر آپ ملک کے مفاد میں قانون لا رہے ہیں تو ہمارے ساتھ بھی شیئر کریں، آپ کسی خاص طبقہ کے مفادات کے لیے یہ سب کررہے ہیں،ہیجان برپاہے کہ ملک میں آئینی ترامیم لائی جارہی ہیں۔شبلی فراز نے کہا کہ حکومت نے قانون سازی کو خفیہ رکھ کر پہلے ہی متنازعہ بنا دیا ہے، بدقسمتی سے پیپلز پارٹی جمہوری اقدار سے پیچھے ہٹ رہی ہے،پیپلز پارٹی بھٹو کے نظریہ سے ہٹ کر مفادات کی سیاست میں چلی گئی۔
سینیٹر شبلی فراز نے مزید بتایا کہ ملک جن حالات سے گذر رہا ہے وہ دردناک کہانی ہے،اس وقت ملک میں تنا بے یقینی ہے ایسا کبھی نہیں ہوا،بلوچستان امن و امان کی وجہ سے خراب حالات سے گذر رہا ہے۔انہوں نے ایوان کو بتایا کہ دہشتگردی کی وجہ سے خیبرپختونخواہ نے بے تحاشہ قربانیاں دیں،چالیس سال پہلے پرائی جنگ میں دھکیلنے والے پھر خیبرپختونخواہ میں متحرک ہوگئے ہیں،اگر آپ ملک کی بہتری کیلئے قانون سازی کررہے ہیں تو ہمیں بھی دکھائیں۔ان کا کہنا تھا کہ حکومتی ارکان لوگوں کو توڑنے مروڑنے میں لگے ہوئے ہیں، اگر نمبرز ہوں تو کوئی بھی قانون سازی کرسکتے ہیں۔اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ عوام کو بے وقوف مت بنائیں،عوام کے مفاد خوشحالی کے لیے قانون سازی کی جائے،سب سے بڑی جماعت کو دیوار سے لگایا ہے۔انہوں نے کہا کہ وزیر اعلی خیبرپختونخواہ علی امین گنڈا پور کو برا بھلا کہا گیا جس کی مذمت کرتے ہیں، خیبرپختونخواہ کے لوگ علی امین گنڈا پور کے ساتھ کھڑے ہیں، 10 سال ہوگئے کبھی کسی صحافی نے مجھ سے فائدہ نہیں لیا، جلسہ میں گنڈا پور نے مخصوص صحافیوں سے متعلق بات کی جس پر پوری لیڈر شپ نے معذرت کی ہے اور میں بھی صحافیوں سے معذرت کرتا ہوں۔شبلی فراز نے کہا کہ وہ آخر میں کہنا چاہتے ہیں کہ کل جو ھاوس میں ہوا اس کی ہم مذمت کرتے ہیں۔
بعد ازاں، سینیٹ اجلاس کے دوران ایوان میں پاور سیکٹر میں ڈسکوز کے نئے بورڈز سے متعلق توجہ دلا نوٹس پیش کیا گیا۔وفاقی وزیر مصدق ملک نے توجہ دلا نوٹس پر جواب دیتے ہوئے ایوان کو بتایا کہ ہمارے پاس 11 کمپنیاں ہیں، 3 بورڈز کے نوٹیفکیشن نہیں ہوئے جبکہ ہیسکو، سیپکو بورڈ کے نام وزیراعظم کو بھیج دیے ہیں، کابینہ کی منظوری کے بعد نوٹیفکیشن جاری ہو جائے گا، سینیٹ میں حکومتی رکن سرمد علی نے کورم کی نشاندہی کی جس کے بعد اپوزیشن نے کورم کی نشاندہی پر شور شرابہ کیا۔چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی نے موقف اپنایا کہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت کورم کی نشاندہی نہ کرتی،اپوزیشن کی طرف سے کورم کی نشاندہی ہونی چاہیے تھی،اس کے بعد چیئرمین سینیٹ نے 5 منٹ کے لیے گھنٹیاں بجوائیں، اس موقع پر سینیٹر ہمایوں مہمند نے بتایا کہ حکومت کی فرنٹ سیٹس سے کہا گیا کہ کورم کی نشاندہی کرائی جائے جبکہ حکومت یہ ایوان چلنے نہیں دے رہی،کورم کی نشاندہی کے بعد چیئرمین سینیٹ نے اجلاس اتوار کی سہہ پہر 4 بجے تک ملتوی کردیا