نیلسن مینڈیلا دنیا کے ان لوگوں میں شامل ہیں جو تاریخ بن چکے ہیں اور یہ تاریخ ہمیشہ زندہ رہے گی یہ کون تھے کہاں پیدا ہوئے بچپن اور جوانی کیسی گزری اور یہ کس طرح27سال جیلوں میں رہے اور کس طرح جیل سے باہر آ کر انھوں نے جنوبی افریقہ کے عوام کی قیادت کی اور کس طرح ملک کو انگریزوں کے ساڑھے تین سو سال پرانے تسلط سے آزاد کرایا.
یہ کس طرح جنوبی افریقہ کے پہلے سیاہ فام صدر بنے اور پھر کس طرح صدارت میں رہ کر انھوں نے دبی اور مرجھائی ہوئی قوم کو دنیا کی بڑی قوموں میں شامل کیا؟ یہ تمام باتیں یہ تمام حقائق اب پوری دنیا کو ازبر ہو چکے ہیں لہذا انھیں بتانے اور دہرانے کا کوئی فائدہ نہیں یہ ہر چیز اب ڈاکومنٹ ہو چکی ہے لیکن ان ڈاکومنٹس کے باوجود نیلسن مینڈیلا کی زندگی کے چند پہلو اب بھی دنیا کے سامنے نہیں آئے اور میں آج ان درجنوں پہلوؤں میں سے تین پہلو آپ کے سامنے رکھوں گا۔
پہلا پہلو مینڈیلا نے 10 مئی 1994 کوجنوبی افریقہ کے صدر کا حلف اٹھایا یہ اگلی صبح اٹھے جاگرز پہنے ایوان صدر کا گیٹ کھولا اور سڑکوں پر جاگنگ شروع کر دی تھوڑی دور جانے کے بعد انھیں محسوس ہوا کوئی ان کے پیچھے دوڑ رہا ہے انھوں نے رک کر پیچھے دیکھا تو ان کا سیکیورٹی اسٹاف بھی جاگرز پہن کر ان کے پیچھے بھاگ رہا تھا مینڈیلا نے حیران ہو کر ان سے پوچھا کیا آپ لوگ بھی جاگنگ کر رہے ہیں وہ ہانپتے ہانپتے رکے اور بولے جی نہیں سر ہم آپ کی حفاظت کے لیے آپ کے پیچھے بھاگ رہے ہیں مینڈیلا نے ہنس کر جواب دیا یہ میرا ملک اور میرے لوگ ہیں مجھے ان سے کیا خطرہ ہو سکتاہے؟ آپ واپس چلے جائیں میں جاگنگ کر کے واپس آ جاؤں گا لیکن اسٹاف نے واپس جانے سے انکار کر دیا۔
تھوڑی دیر بحث چلی اور اس کے بعد فیصلہ ہوا سیکیورٹی کے صرف دو لوگ ان کے ساتھ جاگنگ کیا کریں گے اور وہ لوگ بھی ایتھلیٹ ہوں گے تاکہ ڈیوٹی کے ساتھ ساتھ ان کی ایکسرسائز بھی ہو جائے یہ ارینجمنٹ پانچ سال چلتا رہا 1999 میں نیلسن مینڈیلا کی صدارتی مدت ختم ہو گئی اور انھوں نے نہ صرف ایکسٹینشن لینے سے انکار کر دیا بلکہ وہ سیاست ہی سے ریٹائر ہو گئے حکومت نے انھیں فادر آف نیشن اور سابق صدر کی حیثیت سے تاحیات پروٹوکول اور سیکیورٹی فراہم کی لیکن مینڈیلا نے یہ کہہ کر انکار کر دیا مجھے اپنے لوگوں سے کیا خطرہ ہو سکتا ہے اور ان کی ذات کا دوسرا پہلو تھا وہ ریٹائرمنٹ کے بعد عام شہری کی زندگی گزارتے رہے۔
وہ کیپ ٹاؤن سے جوہانسبرگ شفٹ ہوگئے اور ان کا زیادہ تر وقت اپنے گاؤں کیونو (Qunu) اور جوہانسبرگ کے درمیان گزرنے لگا وہ شہر میں اکیلے گھومتے رہتے تھے لوگوں سے ملتے جلتے رہتے تھے اور دوڑتے بھاگتے رہتے تھے ان کا زیادہ تر وقت لکھنے پڑھنے میں گزرتا تھا حکومت اس دوران جب بھی ان سے سیکیورٹی پروٹوکول یا ضروریات زندگی کے بارے میں پوچھتی تھی تو ان کا ایک ہی جواب ہوتا تھا تھینک یو مجھے اگر کسی چیز کی ضرورت ہوئی تو میں بتا دوں گا وہ اس دوران ایچ آئی وی کے خلاف مہم بھی چلاتے رہے۔
تنہائی کتب بینی اور تحریر یہ سلسلہ 2005 تک چلتا رہا یہاں تک کہ ایک دن نیلسن مینڈیلا نے اعلان کر دیا آئی ایم ریٹائرنگ فرام ریٹائرمنٹ (میں ریٹائرمنٹ سے ریٹائر ہو رہا ہوں) انھوں نے اعلان کیا ڈونٹ کال می آئی وِل کال یو (آپ مجھے نہ بلائیں میں آپ کو بلاؤں گا) اور پھر وہ ہر انٹرنیشنل فورم پر نظر آنے لگے نیلسن مینڈیلا نے یونیورسٹیوں میں لیکچر بھی دیے وہ عالمی صدور سے بھی ملے اور یو این کے سیشنز سے بھی خطاب کرتے رہے نیلسن مینڈیلا کا یہ دور ان کے انتقال 25 دسمبر 2013 تک جاری رہا اور یہ ان کی زندگی کا تیسرا حیران کن پہلو تھا یہ دنیا کے چند ایسے لوگوں میں شمار ہوتے ہیں جنھوں نے ریٹائرمنٹ سے بھی ریٹائرمنٹ لے لی۔
یہ بھی ایک شخص تھا اور یہ اسی دنیا اسی زمین پر چلتا پھرتا اور سانس لیتا رہا اور عوام کے ساتھ ساتھ پوری دنیا ان کی عزت کرتی تھی کیوں؟ تین وجوہات تھیں پہلی وجہ ان کی چالیس سال کی مسلسل جمہوری جدوجہد اور دوسری وجہ وہ اقتدار سے نہیں چپکے وہ تاحیات صدر رہ سکتے تھے وہ اپنے آپ کو خود ہی ایکسٹینشن دیتے رہتے انھیں کون روک سکتا تھا لیکن وہ ایک بار صدر بنے اپنی مدت پوری کی اور خود کو کرسی سے ہمیشہ کے لیے الگ کر لیا جس کے لیے وہ 27 سال جیل میں رہے۔
وہ اگر اس اعلی ظرفی کا مظاہرہ نہ کرتے اور کرسی کو عزت پر فوقیت دے دیتے تو وہ وقت زیادہ دور نہ ہوتا جب جنوبی افریقہ میں گو مینڈیلا گو کے نعرے لگ رہے ہوتے اور پولیس اور فوج انھیں عوام سے بچانے کے لیے آنسو گیس اور لاٹھی چارج پر مجبور ہو جاتی اور تیسری وجہ ریٹائرمنٹ کے بعد نیلسن مینڈیلا نے قوم پر بوجھ بننے سے انکار کر دیا انھوں نے سیکیورٹی اور پروٹوکول نہیں لیا وہ ایک عام اور سادہ ریٹائر زندگی گزارنے لگے وہ ایک عام سستی سی پتلون اور شرٹ پہنتے تھے اور عام سے گھر میں رہتے تھے ان کی سستی سی شرٹ بعدازاں مینڈیلا شرٹ کے نام سے پوری دنیا میں مشہور ہوئی آپ فرض کیجیے وہ اگر ریٹائرمنٹ کے بعد بھی خود کو صدر سمجھتے رہتے اور بھرپور پروٹوکول کے ساتھ سڑکوں پر نکلتے تو کیا ان کی عزت ہوتی! کیا لوگ انھیں پسند کرتے؟ ہرگز نہیں۔
ہم اب جنوبی افریقہ سے پاکستان آتے ہیں جسٹس گلزار حسین دو سال ایک ماہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس رہ کریکم فروری 2022 کو ریٹائر ہو گئے جسٹس گلزار حسین کی ریٹائرمنٹ سے چار دن قبل رجسٹرار آفس نے وزارت داخلہ کو خط لکھ کر درخواست کی جسٹس گلزار حسین کو ریٹائرمنٹ کے بعد بھی چیف جسٹس کی سیکیورٹی دی جائے ریٹائرڈ چیف جسٹس نے اپنے اور اپنے اہل خانہ کے لیے سفر کے دوران رینجرز کے حفاظتی اسکواڈ کی درخواست بھی کی اور حکومت نے یہ درخواست منظور کر لی اور یوں اب جسٹس گلزار حسین کو چیف جسٹس کے برابر سیکیورٹی اور پروٹوکول دیا جائے گا۔
ان سے قبل یہ سہولت جسٹس افتخار محمد چوہدری، جسٹس میاں ثاقب نثار، جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس تصدق حسین جیلانی بھی لے رہے ہیں اور حکومت ملک کے اکثر ریٹائرڈ ججز کی حفاظت بھی کر رہی ہے۔ اب سوال یہ ہے پاکستان جسٹس گلزار حسین کا ملک ہے، لوگ بھی ان کے ہیں اور یہ نیک نیتی سے پوری زندگی مظلوم عوام کو انصاف بھی دیتے رہے ہیں لہذا پھر انھیں کس سے کیا خطرہ ہو سکتا ہے؟ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اللہ تعالی کے بعد مظلوموں کی آخری امید ہوتے ہیں۔ یہ قلم کی ایک سطر سے وزیراعظم اور صدر تک کو عہدے سے ہٹا سکتے ہیں.
وزیراعظم نے اگست 2019 میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجودہ کی مدت ملازمت میں ایکسٹینشن کی، یہ معاملہ الجھ گیا تھا اور یہ بھی بالآخر سپریم کورٹ اور پھر پارلیمنٹ میں حل ہوا تھا۔آپ اس سے چیف جسٹس کے اختیارات کا اندازہ کر لیجیے جان دینا اور جان لینا اللہ تعالی کا اختیار ہے لیکن چیف جسٹس آف پاکستان کال کوٹھڑی کے کسی بھی مجرم کو آزاد اور کسی بھی آزاد شخص کو کال کوٹھڑی تک پہنچا سکتا ہے۔
میاں نواز شریف کو بھی اقامہ پر عدالت ہی نے نااہل قرار دیا تھا اور یہ اس فیصلے کے بعد بھاری مینڈیٹ کے باوجود سڑکوں اور جیلوں میں خوار ہوتے رہے۔ یوسف رضا گیلانی کو بھی سپریم کورٹ نے نااہل قرار دیا تھا اور یہ وزیراعظم ہاؤس سے ملتان تک پہنچ گئے تھے اور سب سے خوف ناک مثال ذوالفقار علی بھٹو جیسا بین الاقوامی لیڈر بھی عدالتی حکم سے پھانسی پر لٹک گیا تھا لہذا پھر اتنے وسیع اختیارات اور پوری قوم کو انصاف دینے والے شخص کو اپنے ملک میں اپنے لوگوں سے کیا خطرہ ہو سکتا ہے؟
میں حیران ہوں جسٹس گلزار حسین کوریٹائرمنٹ کے بعد اپنے ہی ملک میں سیکیورٹی چاہیے! یہ سرکاری نوکری کی قید سے آزاد ہو چکے ہیں یہ اب سینہ تان کر مارکیٹوں پارکس سڑکوں اور بازاروں میں جائیں یہ دوستوں سے ملیں کافی شاپس اور ریستورانوں میں چائے کافی اور کھانوں کو انجوائے کریں اور قطاروں میں کھڑے ہو کر عام اور آزاد زندگی کا لطف لیں لوگ یقینا آگے بڑھ کر ان کے ہاتھ بھی چومیں گے۔
جھک کر ان کو سلام بھی کریں گے اور ان کے انصاف پر مبنی سنہرے دور کو سیلوٹ بھی کریں گے۔ یہ بات عجیب لگتی ہے یہ ان سلاموں اور سیلوٹس کو انجوائے کیوں نہیں کرنا چاہتے یہ اب بھی قیدی کی زندگی کیوں گزارنا چاہتے ہیں؟ مجھے یہ بات سمجھ نہیں آ رہی میں آج تک یہ بھی نہیں سمجھ سکتا۔ ملک کا ہر طاقتور شخص ریٹائرمنٹ کے بعد گھر میں کیوں قید ہو جاتا ہے۔
یہ عوام کو فیس کیوں نہیں کرتا یہ پبلک میں کیوں دکھائی نہیں دیتا اور یہ جب بھی باہر نکلتا ہے تو اسے سیکیورٹی کی کیوں ضرورت پڑتی ہے اور یہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی اپنے ہی ملک میں خود کو غیرمحفوظ کیوں محسوس کرتا ہے؟ میں یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوں کہیں ایسا تو نہیں ان کی زندگی میں کرسی کے سوا کچھ نہ ہو اور انھوں نے کرسی پر بیٹھ کر بھی لوگوں کو تکلیف اور اذیت کے سوا کچھ نہ دیا ہو؟فیصلہ آپ خود کر لیجیے۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس