سپریم کورٹ میں خاتون اسسٹنٹ پروفیسر کی ترقی کا کیس: خیبرپختونخوا حکومت کی درخواست ایک لاکھ جرمانے کے ساتھ خارج

اسلام آباد(صباح نیوز)سپریم کورٹ آف پاکستان نے خیبرپختونخواکہ ضلع ہری پور سے جنوبی کوریا پی ایچ ڈی کمیسٹری کے لئے جانے والی خاتون اسسٹنٹ پروفیسر مس گلناز بی بی کو ترقی دینے کے حوالہ سے کے پی سروس ٹربیونل کے فیصلے کے پر عمل نہ کرنے اورسپریم کورٹ میں درخواست دائر کرنے پر خیبرپختونخوا حکومت کو ایک لاکھ روپے جرمانہ عائد کردیا۔جبکہ عدالت نے درخواست ناقابل سماعت قراردیتے ہوئے خارج کردی۔

جبکہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ میں توشایدایف ایس سی میں بھی کیمسٹری پاس نہ کرسکتا ، مدعا علیہ خاتون نے توکمیسٹری میں پی ایچ ڈی کررکھی ہے۔ جب اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لئے خاتون کو بیرون ملک جانے کی اجازت دی توسمجھیں چھٹی خودبخود منظورتصور ہوگی۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس عرفان سعادت خان، جسٹس نعیم اخترافغان اور جسٹس شاہد بلال حسن پر مشتمل 4رکنی لارجر بینچ نے جمعہ کے روز چیف سیکرٹری خیر پختونخوا کے توسط سے خیبرپختونخواحکومت کی جانب سے اسسٹنٹ پروفیسرمس گلنا ز بی بی کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔

دوران سماعت خیبرپختونخواحکومت کی جانب سے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل شاہ فیصل الیاس اورمحکمہ کے حکام پیش ہوئے۔شاہ فیصل الیاس کاکہنا تھا کہ یہ پروموشن کاکیس ہے، مدعا علیہ خاتون 845دن کی چھٹی حاصل کرچکی ہے۔سرکاری وکیل کاکہنا تھا کہ ٹربیونل کے پاس فیصلے کااختیار نہیں تھا۔ شاہ فیصل الیاس کاکہنا تھا کہ مدعا علیہ نے جنوبی کوریا سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے۔ جسٹس عرفان سعادت خان کاکہنا تھا کہ یہ جرمانہ لگا کرخارج کرنے کافٹ کیس ہے، پرنسپل اِس کی درخواست رکھ بیٹھ گئی اور اس کانام ڈی پی سی سے نکال حالانکہ اِس نے سارے قانونی کام کئے۔ چیف جسٹس کہنا تھا کہ ایسے لوگوں کی توقدر کرنی چاہیئے، درخواست خارج کریں یا واپس لیں گے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ کی تعلیم کیا ہے۔ اس پر شاہ فیصل الیاس نے بتایا کہ میں نے ایل ایل ایم کررکھا ہے۔ اس پر چیف جسٹس کاکہنا تھا بس۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ میں توشایدایف ایس سی میں بھی کیمسٹری پاس نہ کرسکتا ، مدعا علیہ خاتون نے توکمیسٹری میں پی ایچ ڈی کررکھی ہے۔

چیف جسٹس کہنا تھا کہ جب اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لئے خاتون کو بیرون ملک جانے کی اجازت دی توسمجھیں چھٹی خودبخود منظورتصور ہوگی۔ چیف جسٹس کاحکم لکھواتے ہوئے کہنا تھا کہ خاتون نے کامیابی سے بیرون ملک سے پی ایچ ڈی کرلی اوراب پڑھا رہی ہے، خاتون کو سزادی گئی اور سروس ٹربیونل کے فیصلے پر اب تک عملدرآمد نہیں کیا گیااورسپریم کورٹ سے سروس ٹربیونل کے فیصلے خلاف حکم امتناع بھی نہیں لیا گیا، اس حوالہ سے کوئی جواز پیش نہیں کیا جاسکتا۔ عدالت نے درخواست ناقابل سماعت قراردیتے ہوئے خارج کردی۔جبکہ عدالت نے درخواست دائر کرنے پر خیبرپختونخواحکومت کو ایک لاکھ روپے جرمانہ بھی کردیا۔ جبکہ بینچ نے عبدالستار خان اوردیگر کی جانب سے مسمات گل مینا اوردیگر کے خلاف زمین کے تنازعہ کے حوالہ سے درخواست پر سماعت کی۔درخواست گزار کے وکیل ضیاء الرحمان خان اورایڈووکیٹ آر ریکارڈ تسلیم حسین بھی پیش نہ ہوئے۔

ایک اوروکیل کی جانب سے بتایاگیا کہ ضیاء الرحمان اور اے اورآردونوں کی طبعیت خراب ہے اس لئے التوادے دیں۔ چیف جسٹس کاوکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھا کہ کس کی طبعیت خراب ہوگئی، آپ کیس چلالیں، یہ بات مناسب نہیں کہ 10سال بعد کیس لگتے ہیں توالتوامانگتے ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ آئندہ سماعت پر اگر وکیل کی طبعیت ٹھیک نہ ہوتودرخواست گزارنیاوکیل کریں یاخوددلائل دیں، 10سال سے کیس زیر التواہے۔عدالت نے کیس کی مزید سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی۔ جبکہ بینچ محمد عارف تسلیم کے لواحقین اوردیگر کی جانب سے سلیم اختراوردیگر کے خلاف کیس کی بحالی کے لئے دائر درخواست پر سماعت کی۔ درخواست گزارکی جانب سے مشتاق احمد موہل نے پیش ہوکردلائل دیئے۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کس طرح پاور آف اٹارنی پر فراڈ کی بنیاد پر عمل ہوا، کیا بندوق کی نوک پرکروایا گیا، وہ کہتا ہے تواُس کو بلالیں اُس کوسن لیتے ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کیسے رجسٹرڈ دستاویز سے بھاگ سکتے ہیں، جزباتی ہوکرکیس چلارہے ہیں دلائل دے کرکیس نہیں چلارہے۔

چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ جنرل پاور اٹارنی کامطلب ہے وہ شخص کہیں بھی زمین بیچ سکتا ہے، یہ زمین لندن، ملتان اوربلوچستان کہیں بھی ہوسکتی ہے،جنرل پاورآف اٹارنی تسلیم کرتے ہیں پھر دونوں مل گئے کہ خریدارکوتنگ کرنا ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھاکہ پاور آف اٹارنی میں ذکر کیوںنہیں کیا کہ جھنگ والی بیچ سکتے ہواورقصوروالی نہیں بیچ سکتے۔ چیف جسٹس کاحکم لکھواتے ہوئے کہنا تھا کہ 1988کی جنرل پاورآف اٹارنی ہے، درخواست گزارکی زمین بیچی گئی، تیسرے فریق نے جائیدادخریدی، پاورآف اٹارنی واپس بھی نہیں لی گئی اورنہ کوئی درخواست دی گئی، 6جولائی 1999کو پاورآف اٹارنی کی منسوخی کے لئے درخواست دی گئی۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ایسے پاورآف اٹارنی مت دیں، جس نے جائیدادخریدی ہے اس کاکیاقصور ہے، پہلے پاورآف اٹارنی دیں اور پھر خریدارکوتنگ کرنے کے لئے کیس دائر کردیں پھر 6سال بعد کیس واپس لے لیں اوردوبارہ کیس زندہ کرنے کے لئے درخواست دے دیں۔ عدالت نے درخواست ناقابل سما عت قراردیتے ہوئے خارج کردی۔