تاریخ وہ لوگ رقم کرتے ہیں جو زندگی کا گہرا شعور اَور اِحساس رکھتے ہیں۔ شاعرِ مشرق اقبالؔ کہتے ہیں ؎ تُو اِسے پیمانۂ امروزِ فردا سے نہ ناپ ؍ جاوداں، پیہم دواں، ہر دم جواں ہے زندگی۔ اُن کے ہاں زندگی ایک مقصد سے عبارت ہے جس کا مختلف صورتوں میں اظہار ہوتا رہتا ہے۔
پاکستان جو ایک عظیم الشان مقصد کی قوت سے وجود میں آیا ہے، وُہ اُسی نصب العین کی طاقت سے ترقی اور خوشحالی کی شاہراہ پر آگے بڑھ سکتا ہے، مگر گزشتہ ایک عشرے سے اِس میں اَنہونے واقعات کا ایک تانتا بندھا ہوا ہے۔ سقوطِ ڈھاکہ تو سقوطِ غرناطہ کے بعد اُمتِ مسلمہ کیلئے بہت بڑا تاریخی سانحہ تھا جس کی ہماری قومی غلطیوں نے برسوں پرورش کی تھی۔ اُس اندوہناک سانحے کے نتیجے میں مسٹر ذوالفقار علی بھٹو برسرِاقتدار آئے اور اُنہوں نے بگڑے ہوئے معاملات بڑی حد تک سنبھال لیے تھے، اہلِ وطن کو ایک متفقہ دستور بھی دیا اور لاہور میں اسلامی سربراہ کانفرنس کا بڑی شان و شوکت سے انعقاد کیا۔ اِس کے علاوہ پاکستان کو اَیٹمی طاقت بنانے کا عمل بھی حیرت انگیز سرعت سے تیز کر دیا تھا، مگر اُنہیں ’عقلِ کُل‘ ہونے کا خمار لے بیٹھا۔ وہ اَپنے قریبی ساتھی جناب جے۔اے رحیم سے بھی بہت بےرحمی سے پیش آئے تھے جنہوں نے اُن کی سیاسی جماعت کو اَپنا خونِ جگر دیا تھا۔ اُنہیں مختارِ کُل بن جانے کا بھی بڑا شوق تھا، چنانچہ قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کیلئے اُنہوں نے 1977ءکے انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کے انتظامات کیے۔ اپوزیشن جماعتوں نے انتخابات کے نتائج تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور فوج کے زیرِاہتمام نئے انتخابات کرانے کا مطالبہ زور پکڑتا گیا۔ بھٹو صاحب نے عوامی مطالبہ تسلیم کرنے میں بہت وقت ضائع کر دیا جس کے نتیجے میں ملکی نظم و نسق مفلوج ہو گیا، چنانچہ پاکستان کو خانہ جنگی سے بچانے کیلئے فوج نے اقتدار سنبھال لیا۔
مسٹر بھٹو نوجوانوں میں بےحد مقبول تھے، اِس لیے اُنہیں ٹھکانے لگائے بغیر عسکری قیادت کیلئے حکومت چلانا حددرجہ دشوار ہوتا جا رہا تھا۔ متوسط اور جمہوریت پسند طبقے بھٹو صاحب کی آمریت سے بہت زیادہ تنگ آئے ہوئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جب مارشل لا نافذ ہوا، تو عوامی حلقوں میں مٹھائیاں تقسیم کی گئیں۔ اِس فضا سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے فوجی قیادت نے اعلیٰ عدلیہ سے سازباز کی جس نے نواب محمد احمد خاں قصوری کے قتل کے جرم میں اُنہیں سزائےموت سنا دی۔ حال ہی میں ہماری سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ دیا ہے کہ مسٹر بھٹو کا ٹرائل منصفانہ نہیں تھا۔ بلاشبہ مسٹر بھٹو کا غلط طور پر خاتمہ سیاسی عمل کیلئے بےحد نقصان دہ ثابت ہوا اَور عدلیہ کے وقار کو بھی ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا۔ سب سے بڑا ظلم یہ ہوا کہ فوج کے اندر اِقتدار کی خواہش اور عہدےداروں کو سیاست میں دخل دینے کا چسکا پڑ گیا۔
اِسی غلط روش کے نتیجے میں 2014 کے اوائل میں علامہ طاہر القادری کی روحانی طاقت کے بل بوتے اور خلائی مخلوق کے اشارے پر تحریکِ انصاف کے بانی جناب عمران خان نے اسلام آباد کا محاصرہ کر لیا۔ اُن کا دھرنا کئی مہینے جاری رہا۔ اِس دوران پارلیمنٹ ہاؤس کی عمارت پر قبضہ کر لیا گیا اور اَرکانِ پارلیمنٹ کئی ہفتے عمارت کے اندر مقید رہے۔ وہیں نہاتے، کپڑے دھوتے اور قیام کرتے۔ اُنہیں ہر وقت بلوائیوں کے اندر گھس آنے کا دھڑکا لگا رہتا تھا۔ اُس وقت سپیکر جناب ایازصادق تھے۔ اُنہوں نے دھرنا دینے والوں کے خلاف مقدمات درج کرائے، مگر کسی کو سزا نہ ہوئی۔ یہ ہماری تاریخ کا ایک اَنہونا واقعہ تھا۔ اُس دھرنے میں سپریم کورٹ کے راستے بھی بند کر دیے گئے اور جج صاحبان متبادل راستوں سے عدالت تک پہنچتے رہے۔ اِسی دوران پی ٹی وی کے ہیڈکوارٹر پر دھاوا بولا گیا جس کے باعث نشریات کا نظام درہم برہم ہو گیا۔ یہ راز اَب سبھی کو معلوم ہے کہ 2018ءکے انتخابات میں دھاندلی کے ذریعے جناب عمران خان مسندِ اقتدار پر بٹھائے گئے تھے۔ ساڑھے تین سال اُن کے فوجی قیادت سے تعلقات خوشگوار رَہے، لیکن بعدازاں اُن کی ہرزہ سرائی اور اِنتہائی مایوس کُن حکومتی کارکردگی سے اُن کے درمیان سخت کشیدگی پیدا ہو گئی۔ صاف نظر آنے لگا تھا کہ پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچانے کیلئے تحریکِ انصاف کی حکومت کا خاتمہ ازبس ضروری ہے، چنانچہ اُن کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد آئی جو کثرتِ رائے سے کامیاب ہو گئی۔ اُس وقت سے عمران خان پاکستان کے سب سے مضبوط اور منظم ادارے فوج کے خلاف نفرت بھری زبان استعمال کر رہے ہیں۔
اُن کی جماعت نے اسلام آباد میں 8 ستمبر کو جلسۂ عام کرنے کا اعلان کیا تھا۔ انتظامیہ نے اُس پر ایسی پابندیاں عائد کیں جو تاریخ میں پہلی بار دَیکھنے میں آئیں۔ مثال کے طور پر جلسے کا وقت شام چار بجے سے سات بجے تک مقرر کیا گیا جو بڑا ہی مضحکہ خیز تھا۔ راقم الحروف نے تقسیمِ ہند سے پہلے ایک جلسے میں شرکت کی تھی جس میں سیّد عطااللہ شاہ بخاریؒ عشاء کی نماز کے بعد تقریر کرنے کھڑے ہوئے اور صبح کی اذان پر وہ ختم ہوئی۔ جلسے میں وقت کا تعین نہیں کیا جا سکتا۔ بتایا جاتا ہے کہ جلسہ سات بجے کے بجائے کوئی رات کے دس بجے تک جاری رہا جس میں بڑی سخت اور اِشتعال انگیز تقریریں ہوئیں۔ وزیرِاعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور نے اعلان کیا کہ پندرہ رَوز میں پٹھانوں کا ایک لشکر پنجاب پر حملہ آور ہو گا۔ جلسے کے بعد پولیس نقاب پہن کر پارلیمنٹ ہاؤس میں داخل ہوئی اور تحریکِ انصاف کے دس اہم ایم این ایز گرفتار کر لیے۔ ایسا ہماری تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے جس کے خلاف پارلیمنٹ کے اندر اَور باہر شدید احتجاج ہوا۔ اسپیکر صاحب نے بھی شدید برہمی کا اظہار کیا ہے اور سیکورٹی کے پانچ افراد معطل کر دیے ہیں۔ حکمران جماعت اور اُن کی حلیف جماعتوں کی طرف سے بھی شدید ردِعمل سامنے آیا ہے۔ اِس مسئلے پر گفتگو کرتے ہوئے پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے میثاقِ پارلیمنٹ کی تجویز پیش کی ہے جس کی نائب وزیرِاعظم جناب اسحٰق ڈار نے تائید کی ہےاور سولہ رکنی کمیٹی قائم کرنے کا فیصلہ ہو گیا ہے۔ اِس وقت پارلیمنٹ کے تحفظ، نفرت اور اِشتعال پر مکمل کنٹرول اور ڈیجیٹل دہشت گردی کے سدِباب کی اشد ضرورت ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ