بیوروکریٹس کے بچوں میں سرخاب کے پر لگے ہیں کہ ان کے لئے 25فیصد کوٹہ رکھیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

اسلام آباد(صباح نیوز) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ بیوروکریٹس کے بچوں میں سرخاب کے پر لگے ہیں کہ ان کے لئے 25فیصد کوٹہ رکھیں، کیا پاکستان میں یہی چلتارہے گا، میں نے بھی کام کیا، پشتوں نے بھی کرنا ہے، اسی لئے کام نہیں ہوتا، 25فیصد کوٹے پر نالائق بچے آجائیں گے، میرٹ پرآجاؤ نوکری جیت جائو۔ کبھی توقانون پر پاکستان میں چلیں، بھیک مانگتا ہواآجاتا ہے میرے بچے کونوکری دے دیں۔

سیکشن افسر پاکستان چلارہے ہیں، سیکشن افسر سرکار بھی ہے، مالک بھی ہے۔ یہ کون سااصول ہے کہ میرا باپ نوکری پرتھا تو مجھے نوکری ملے، کون سا قانون ہے، کیا یہ آئین سے متصادم نہیں ہے۔ہم نے فیصلہ دیا کہ متعلقہ اتھارٹی کانام اورعہدہ بھی لکھیں، متعلقہ اتھارٹی کیوں لکھنا شروع ہواتھا، ایک موصوف آئے ضیاء الحق ،افسرا ن دستخط نہیں کرتے تھے، پھر کہا گیا کمپیٹنٹ اتھارٹی لکھ دو، ڈھوٹڈتے رہو کمپیٹنٹ اتھارٹی، کیوں آپ کونوکری ملے دیگر لوگ بھی ہیں، ہم اس قانون سے انکار کرتے ہیں۔

وکیل کوآئین پسند نہ آئے تومجھے تشویش ہونا شروع ہوجاتی ہے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں جسٹس عرفان سعادت خان ، جسٹس نعیم اخترافغان اور جسٹس شاہد بلال حسن پر مشتمل 4رکنی لارجر بینچ نے جمعرات کے روز خیبرپختونخوا حکومت کی جانب سے سیکرٹری ایگریکلچر، پشاوراوردیگر کے توسط سے طاہر مشتاق اوردیگر کے خلاف سرکاری ملازمین کے کوٹے میں بھرتی کے حوالہ سے کیس کی سماعت کی۔

درخواست گزارکی جانب سے پشاور ہائی کورٹ کے 2رکنی بینچ کے فیصلے کو چیلنج کیا گیاتھا۔درخواست گزارکی جانب سے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کے پی شاہ فیصل الیاس جبکہ مدعا علیہ کی جانب سے سید رفاقت حسین شاہ بطو روکیل پیش ہوئے۔ شاہ فیصل الیاس کاکہنا تھاکہ عدالت نے حکم دیا ہے کہ باپ کی وفات پر بیٹے کو ملازمت دی جائے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کس گریڈ کی پوسٹ ہے۔ سید رفاقت حسین شاہ کاکہنا تھا کہ گریڈ5کی پوسٹ ہے۔

چیف جسٹس کامدعاعلیہ کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھاکہ آپ کس ضلع سے ہیں۔ اس پر سید رفاقت حسین شاہ کہنا تھا ضلع ایبٹ آباد سے ہوں۔ شاہ فیصل الیاس کاکہنا تھا کہ یہ پوسٹ 2006میں اپ گریڈہو کر5ہو گیا، 2013میں اشتہارآیا تھا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ یہ کون سااصول ہے کہ میرا باپ نوکری پرتھا تو مجھے نوکری ملے، کون سا قانون ہے، کیا یہ آئین سے متصادم نہیں ہے،قانون کا نام بتادیں، شروع سے آخر تک پڑھیں کس نے جاری کیا ہے۔ اس پرعدالت کوبتایا گیا کہ سیکشن افسر حسین شاہ کی جانب سے جاری کیا گیا ہے۔

چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ سیکشن افسر پاکستان چلارہے ہیں، کس قانون کاتذکرہ ہے، قانون بن گیا ہم پر بھی لازم ہے، سیکشن افسر سرکار بھی ہے، مالک بھی ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہم نے فیصلہ دیا کہ متعلقہ اتھارٹی کانام اورعہدہ بھی لکھیں، متعلقہ اتھارٹی کیوں لکھنا شروع ہواتھا، ایک موصوف آئے ضیاء الحق ، لوگ دستخط نہیں کرتے تھے، پھر کہا گیا کمپیٹنٹ اتھارٹی لکھ دو، ڈھونٹڈتے رہو کمپیٹنٹ اتھارٹی، کیوں آپ کونوکری ملے دیگر لوگ بھی ہیں، ہم اس قانون سے انکار کرتے ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہم قانون کی عدالت ہیں قانون کی باتیں کررہے ہیں، آپ کے توسط سے اس کواڑادیتے ہیں پھر یہ نہیں کریں گے۔

چیف جسٹس کاسید رفاقت حسین شاہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ شاہ صاحب! آج کوئی بات ہوگی کہ نہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ یہ غلط کام کریں توہم بھی ان کی طرح غلط کام کریں، آئین کاسہارالیں گے یانہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ وکیل کوآئین پسند نہ آئے تومجھے تشویش ہونا شروع ہوجاتی ہے، آئین کاآرٹیکل 25پڑھیں۔ چیف جسٹس کاشاہ فیصل الیاس سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ کو بھی آئین پسند نہیں ہماری عدالت میں آئین کی کتاب کے بغیر نہ آیاکریں۔

چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ بیوروکریٹس کے بچوں میں سرخاب کے پر لگے ہیں کہ ان کے لئے 25فیصد کوٹہ رکھیں، کیا پاکستان میں یہی چلتارہے گا، میں نے بھی کام کیا، پشتوں نے بھی کرنا ہے، اسی لئے کام نہیں ہوتا، 25فیصد کوٹے پر نالائق بچے آجائیں گے، میرٹ پرآجائو نوکری جیت جائو۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ جوملازم مرتا ہے اس کی بیوی کوپنشن ملتی ہے اورچھوٹے بچوں کو پنشن ملتی ہے، کیوں اس کو رعایت دی جائے۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کبھی توقانون پر پاکستان میں چلیں، بھیک مانگتے ہوئے آجاتا ہے میرے بچے کونوکری دے دیں، سپریم کورٹ میں بھی یہی چل رہا تھا،میں نے اس سے انکار کیا۔

چیف جسٹس کاسید رفاقت حسین شاہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کیاآپ میرٹ پریقین نہیں رکھتے۔ ہم اس کواڑادیتے ہیں، شاہ صاحب! ہمیں آپ کے بچے کی فکر پڑی ہے، کوٹہ نہ کریں، ویسے حصہ لیں۔ جسٹس عرفان سعادت خان نے مدعا علیہ کے وکیل سے سوال کیا کہ کیااس اشتہار کے بعد اپلائی کیا تھا۔ اس پر سید رفاقت حسین شاہ کاکہنا تھاکہ بعد میں بھی کیا تھا۔ جسٹس عرفان سعادت خان کاکہنا تھا کہ اس اشتہار پر کبھی اپلائی نہیں کیا اورسلیکشن کمیٹی کے سامنے کبھی پیش نہیں ہوئے پھر کس طرح آپ کواس سیٹ پر بٹھا دیاجائے۔ شاہ فیصل الیاس کاکہنا تھا کہ 1مئی2006کو پوسٹ اپ گریڈکردی گئی تھی اوراسے گریڈ5کردیا گیا تھا۔

چیف جسٹس کا حکم لکھواتے ہوئے کہنا تھا کہ پوسٹ کواپ گریڈ کرنے کے معاملہ کوعدالت کی جانب سے نہیں دیکھا گیا۔ سیکشن افسر ریگولیشن ونگ سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے 23مئی2000کو مرحوم ملازمین کے بچوں پر کوٹے پر بھرتی کرنے کانوٹیفکیشن جاری کیا گیا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ انگریزی میں نوٹیفکیشن جاری کریں تواسے سمجھ تولیں اس کامطلب کیا ہے۔ آئین پاکستان کے آرٹیکل 25اور27کہتے ہیں کہ شہریوں کے درمیان کوئی امتیاز نہیں برتا جائے گا۔ حکومت سارے نوٹیفیکیشن واپس لے یہ میرٹ کے نظام کے خلاف ہیں، یہ نوٹیفکیشنز اچھی طرز حکمرانی کے لئے بھی مددگارنہیں۔ عدالت نے پشاور ہائی کورٹ کافیصلہ کالعدم قراردیتے ہوئے خیبرپختواحکومت کی اپیل منظورکرلی۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ اگرمقننہ گنجائش نہیں دیتی توآپ یہ کام نہیں کرسکتے۔