نیپرا سی پی پی اے جی، این ٹی ڈی سی اور آئی پی پیز سے متعلقہ دستاویزات طلب کرکے درخواست گزاروں کوفراہم کرنے کے بعد فیصلہ کرے

اسلام آباد(صباح نیوز)سپریم کورٹ آف پاکستان نے بجلی کے بلوں میں فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ اور سہہ ماہی اجڈجسٹمنٹ کے معاملہ پر نیپر کوہدایت کی ہے کہ وہ سی پی پی اے جی، این ٹی ڈی سی اور آئی پی پیز سے متعلقہ دستاویزات طلب کرکے درخواست گزاروں کوفراہم کرنے کے بعد فیصلہ کرے۔ سپریم کورٹ کے پاس تکنیکی مہارت نہیں اس لئے نیپرا خود متعلقہ دستاویزات کاازخودفیصلہ کرے جس سے مسئلہ کوحل کرنے میں مدد ملے۔ آئی پی پیز سے بھی ریکارڈ درکار ہوتووہ بھی نیپرا طلب کرے۔ نیپراکی ہدایت پر سی پی پی اے جی عمل کرے گی۔ جب نیپرابلائے گاتودرخواست گزارآئیں گے اوریہ مشق کئے بغیر نیپرافیصلہ نہیں کرے گا۔ نیپراشفاف انداز میں کام کرے اور بطوراتھارٹی کام کرے اورجلد فیصلہ کرے۔

جبکہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ سورج کے نیچے نیپرا کے پاس سب کچھ کرنے کا اختیارہے۔ کیا یہ اسٹیٹ سیکرٹ ہیں،آئی پی پیز اورسی پی پی اے سے معلومات لینے میں کیا نقصان ہے، درخواست گزار فیول کی قیمت کے حوالہ سے معلومات مانگ رہے ہیں اس میں غیر قانونی کیا بات ہے۔ مسئلہ حل کریں، مسئلہ پیدا نہ کریں ، ریکارڈ کے بغیر نیپرانے کیسے سماعت کی۔ ٹرک یاسوزوکی وین میں ریکارڈ نیپراکے دفترلے جائیں اورمعاملہ ختم کریں۔ کتنے کا پیٹرول اور فیول خریداسیدھا ساداسوال پوچھیں۔ یہ دیکھنا ہے کہ کس قیمت پر بجلی پیداکررہے ہیں جو بلنگ کادورانیہ ہے وہ دیکھیں گے، گزشتہ 25سال کاریکارڈ تونہیں دیکھیں گے۔ درخواست گزاروں کا آئی پی پیز کی مالی دستاویزات سے کیا تعلق ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس نعیم اخترافغان پر مشتمل 3رکنی بینچ نے واپڈا کی جانب سے بجلی کے بلوں میں فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ اور سہہ ماہی اجڈجسٹمنٹ کے معاملہ پر ایم ایف فلائنگ بورڈ اینڈ پیپر پروڈکٹس لمیٹڈ، لاہور، ایم ایس اے آر انجینئرنگ لاہور، ایم ایس عادل اسٹیل فرنس، گوجروانوالہ،انصاف انجینئرنگ ورکس لاہور، کامران انجینئرنگ ورکس، لاہور، ایم ایس ایس جے اسٹیل ری رولنگ ملز پرائیویٹ لمیٹڈ، شیخوپورہ، شبیر پیپر اینڈ بورڈ پرائیویٹ لمیٹڈ، لاہور، ایم ایس راوی رولنگ ملز پرائیویٹ لمیٹڈ، لاہور اور دیگر کی جانب سے وفاقی حکومت بوساطت سیکرٹری وزارت انرجی، پاورڈویژن ،اسلام آباد اوردیگرکے خلاف دائر 50سے زائد درخواستوں پر سماعت کی۔

دوران سماعت درخواست گزاروں کی جانب سے سابق صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن چوہدری محمد احسن بھون اوردیگر وکلائ،جبکہ نیپرا کی جانب سے افتخارالدین ریاض ایڈووکیٹ اوردیگر متعلقہ حکام پیش ہوئے۔ نیپراوکیل کاکہنا تھا کہ نیپرا میں 3ستمبر کو سماعت ہوئی ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کوئی فیصلہ ہوا ہے یا معاملہ زیر التوا ہے۔ اس موقع پر احسن بھون کاکہنا تھا کہ نیپرا حکام کادرخواست گزاروں کے ساتھ رویہ ٹھیک نہیں اور نیپراوکیل وہاں موجود نہیں تھے۔ اس پر چیف جسٹس نے احسن بھون کومخالطب کرتے ہوئے کہا کہ نیپراوکیل موجود نہیں تھے توآپ بھی وہاں موجود نہیں تھے۔ احسن بھون کاکہنا تھا کہ آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے بھی اسی معاملہ پر سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی ہے ، عدالت سے استدعا ہے کہ آئندہ ہفتے ان درخواستوں کو آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی درخواست کے ساتھ سماعت کے لئے مقررکیا جائے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہم میرٹ پر کیس نہیں سن رہے۔ احسن بھون کاکہنا تھا کہ تعین کے ساتھ ہمیں دستاویزات دے دیں پھر جومرضی فیصلہ کردیں، ہم فیول پرائس کی بنیاد پر قیمتوں میں تبدیلی کاتعین چاہتے ہیں۔ چیف جسٹس کانیپراوکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ اتھارٹی ہیں، آئی پی پیز کو ہدایت دیں کہ وہ تفصیلات فراہم کریں۔

چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کیا یہ اسٹیٹ سیکرٹ ہیں،آئی پی پیز اورسی پی پی اے سے معلومات لینے میں کیا نقصان ہے، درخواست گزار فیول کی قیمت کے حوالہ سے معلومات مانگ رہے ہیں اس میں غیر قانونی کیا بات ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ درخواست گزاروں کاکہنا ہے کہ جوچارج کررہا ہے وہ غلط کررہا ہے۔ نیپراوکیل کاکہنا تھا کہ درخواست گزارآکر ریکارڈ دیکھ لیں، نیپرا نے سی پی پی اے کو ہدایات کردی ہیں۔ چیف جسٹس کانیپراوکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ مسئلہ حل کریں، مسئلہ پیدا نہ کریں، ریکارڈ کے بغیر نیپرانے کیسے سماعت کی۔ چیف جسٹس کانیپراوکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کیوں خودہدایات نہیں دیتے کہ آئی پی پیز ریکارڈ کے کرآئیں ، نیپراغیرجانبداراتھارٹی ہے۔ نیپراوکیل کاکہنا تھا کہ ہمارے پاس پہلے ہی دستاویزات ہیں، درخواست گزارتاخیرکررہے ہیں۔ چیف جسٹس کاکہناتھا کہ نیپراوکیل فیئرنس نہیں دکھارہے، ہم ہدایات جاری کریں گے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ سورج کے نیچے نیپرا کے پاس سب کچھ کرنے کا اختیارہے۔چیف جسٹس کاکہنا تھاکہ مطلوبہ دستاویزات نیپراکے دفتر میں فراہم کی جائیں۔

نیپراوکیل کاکہنا تھا کہ غیر ضروری ریکارڈ بھی مانگا رہے ہیں۔ چیف جسٹس کانیپراوکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کیا کوئی خفیہ دستاویزات ہیں۔ چیف جسٹس کاکہناتھاکہ نیپراکہے گی آپ اس کے سامنے لے آئیں، معاملہ ختم ہونا چاہیئے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھاکہ نیپرا کے سامنے ریکارڈ لے جائیں اگر درخواست گزارلیت ولعل سے کام لیں توپھر ان کو نیپرا کے سامنے ایکسپوز کریں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ اگر غیر ضروری چیزیں مانگیں گے تونیپرااورسی پی پی اے مزاحمت کریں گے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ٹرک یاسوزوکی وین میں ریکارڈ نیپراکے دفترلے جائیں اورمعاملہ ختم کریں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کتنے کا پیٹرول اور فیول خریداسیدھا ساداسوال پوچھیں۔ جسٹس نعیم اخترافغان کاکہنا تھا کہ درخواست گزاروں نے بہت سی چیزیں ایسی مانگی ہیں وہ پالیسی معاملات ہیں اوران کااس معاملہ سے کوئی تعلق نہیں۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ یہ دیکھنا ہے کہ کس قیمت پر بجلی پیداکررہے ہیں جو بلنگ کادورانیہ ہے وہ دیکھیں گے، گزشتہ 25سال کاریکارڈ تونہیں دیکھیں گے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ درخواست گزاروں کا آئی پی پیز کی مالی دستاویزات سے کیا تعلق ہے۔ احسن بھون کاکہنا تھا کہ مالی دستاویزات کابجلی کی قیمت کے تعین میں اہم کردار ہے۔ چیف جسٹس کہ سی پی پی اے تمام متعلقہ دستایزات نیپرا کے دفتر میں فراہم کرے، نیپراخود متعلقہ دستاویزات کافیصلہ کرے، بہت سی غیر متعلقہ دستاویزات بھی مانگی گئی ہیں۔

وکیل نیپراکاکہنا تھا کہ درخواست گزار سوموارکے روز آجائیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ اتفاق رائے سے حکم جاری کردیتے ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ایسی دستاویزات نہ مانگیں کہ کیس ہی نہ چلیں۔ چیف جسٹس کاسماعت کاحکمنامہ لکھواتے ہوئے کہنا تھا کہ نیپرا نے سماعت منعقد کی تاہم درخواست گزاروں کی جانب سے کہا گیا کہ دستاویزات کے بغیر سماعت مکمل نہیں ہوسکتی۔ نیپرانے کہا کہ وہ سی پی پی اے جی اوراین ٹی ڈی سی سے دستاویزات طلب کرے گی۔ سپریم کورٹ کے پاس تکنیکی مہارت نہیں اس لئے نیپرا خود متعلقہ دستاویزات کاازخودفیصلہ کرے جس سے مسئلہ کوحل کرنے میں مدد ملے۔ نیپرادرخواست گزاروں کو متعلقہ ریکارڈفراہم کرے، آئی پی پیز سے بھی ریکارڈ درکار ہوتووہ بھی نیپرا طلب کرے۔ نیپراکی ہدایت پر سی پی پی اے جی عمل کرے گی۔ چیف جسٹس کہنا تھا کہ جب نیپرابلائے گاتودرخواست گزارآئیں گے اوریہ مشق کئے بغیر نیپرافیصلہ نہیں کرے گا۔ نیپراشفاف انداز میں کام کرے اور بطوراتھارٹی کام کرے اورجلد فیصلہ کرے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ماہرین ہی ان چیزوں کاتعین کرسکتے ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ معجزہ ہوگیا سب خوش، احسن بھون بھی آج خوش ہیں، یہ کبھی خوش نہیں ہوتے۔ عدالت نے مندرجہ بالا شرائط کے ساتھ فریقین کے اتفاق رائے سے تمام درخواستیں نمٹادیں۔