اسلام آباد(صباح نیوز)چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ کون ساقانون کہتا ہے کہ جب تک عدالت حکم نہ دے تو خریدی گئی جائیداد کی بقایا رقم ادانہیں کریں گے، اگرعدالت حکم نہ دے توپھر فری میں زمین دے دیں۔ پہاڑ کسی کی ملکیت کیسے ہوسکتا ہے، پورے ضلع کی ملکیت کادعویٰ کردیتے، صرف پہاڑ پر کیسے رُکے۔جبکہ عدالت نے 58کنال 19مرلے زمین کی ملکیت کے حوالہ سے دائر دعویٰ خارج کرتے ہوئے کیس کاپوراخرچ درخواست گزارکواداکرنے کاحکم دے دیا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس نعیم اخترافغان پر مشتمل 3رکنی بینچ نے جمعہ کے روز مختلف کیسز کی سماعت کی۔ بینچ نے غلام حسین مرحوم کے لواحقین اوردیگر کی جانب سے زمین کی ملکیت کے حوالہ سے سہراب اوردیگر کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔چیف جسٹس کادرخواست گزار کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہویے کہنا تھا کہ پہاڑ کسی کی ملکیت کیسے ہوسکتا ہے،کوئی ریونیو ریکارڈ دکھائیں، پورے ضلع کی ملکیت کادعویٰ کردیتے، صرف پہاڑ پر کیسے رُکے۔ چیف جسٹس کاوکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ پوری بات سن لیں کیا بیچ میں بولنا ضروری ہوتا ہے، کیا سوال سنیں گے، اگرسوال بھی نہیں پوچھنے دیں گے توکیسے کیس چلے گا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ تصدیق شدہ کاپی پیش کرکے کسی آرڈر کوثابت کریں گے،سپریم کورٹ میں بیٹھ کرپوراکیس کھول رہے ہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ خان بیگ باچا سے رشتہ جوڑیں کہ آپ جائیداد کے حقدار ہیں، جو گواہ پیش ہوااس نے شجرہ نصب ثابت نہیں کیا۔ جسٹس نعیم اخترافغان کادرخواست گزارکے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ دونوں عدالتوں نے قراردیا کہ آپ یہ ثابت نہیں کرسکے کہ آپ خان بیگ باچاکے وارث ہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ جب جرگے نے مالک قراردیا تودوبارہ ملکیت کادعویٰ دائر کرنے کی کیاضرورت تھی۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہزارسال سے فیتہ چل رہاہے جاکراُس سے زمین کی پیمائش کرلو۔
چیف جسٹس نے درخواست گزار کے وکیل کو ایک ماہ کاوقت دیتے ہوئے کہا کہ عدالتی سوالوں کاتحریری جواب دیں۔ جبکہ بینچ نے محمد امین مرحوم کے لواحقین کی جانب سے رانا محمد حنیف کے لواحقین اوردیگر کے خلاف زمین کی ملکیت کے حوالہ سے دائر درخواست پر سماعت کی۔ درخواست گزارکی جانب سے محمد شاہد تصو ربطور وکیل پیش ہوئے۔ وکیل کی جانب سے بتایا گیا کہ اس کے مئوکل کی جانب سے 58کنال19مرلے زمین 5نومبر1980کو3لاکھ 40ہزار500روپے میں خریدی اور50ہزاربیانہ دیا، مجھے قبضہ دیا گیا اوربعد میں چھین لیا گیا، میرے مئوکل کی جانب سے 27جون1991کو دعویٰ دائر کیا گیا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ باقی پیسے کب دینا تھے۔اس پر وکیل کاکہنا تھا کہ 4ماہ میں دینا تھے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کون ساقانون کہتا ہے کہ جب تک عدالت حکم نہ دے تو خریدی گئی جائیداد کی بقایا رقم کی ادائیگی نہیں کریں گے۔
چیف جسٹس کاوکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ نے ایک ہی کام کرنا ہے پیسے دینا ہیں، اگرعدالت حکم نہ دے توپھر فری میں زمین دے دیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ 4مارچ1989تک پیسے دینا تھے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہم کیس کامیرٹ پر فیصلہ کریں گے۔ چیف جسٹس کاحکم لکھواتے ہوئے کہنا تھا کہ درخواست گزار کے خلاف تین عدالتوں نے فیصلے دیئے، درخواست گزارنے ہائی کورٹ کے حکم پر زمین کی رقم 10اکتوبر2011کو جمع کروائی۔ خریدارنے طے شدہ وقت میں رقم جمع کروانا ہوتی ہے، درخواست گزارنے 22سال بعد رقم جمع کروائی۔ ہم معاملے کاعدالتی نوٹس بھی لے سکتے ہیں ، زمین کی قیمت وقت کے ساتھ بڑھتی رہتی ہے۔ فریقین غیر ضروری مقدمہ بازی میں ملوث ہوتے ہیں اوربے بنیاد اورمن گھڑت مقدمات دائرکرتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کیس کاپوراخرچ درخواست گزارکوادارکرنے کاحکم دیتے ہوئے درخواست ناقابل سماعت قراردیتے ہوئے خارج کردی۔ عدالت نے فیصلے کی کاپی مدعا علیہان کوبھجوانے کاحکم دیا ہے۔