سیاسی مہروں نے زوال کو عروج پہ پہنچادیا : تحریر کشور ناہید


موجودہ بحرانی حکومت ایسے اقدامات یکے بعد دیگرے کیے جارہی ہے کہ جس کو پرانی اردو میں ’آبیل مجھے مار‘ کہتے ہیں، ہم سارے معاملات کو یکے بعد دیگرے بتاکر آگے بڑھتے ہوئے علامہ اقبال کے الفاظ میں یہ تنبیہ کرینگے کہ ’’تو نے یہ کیا غضب کیا، مجھ کو ہی فاش کر دیا۔‘‘ خیر میں اتنی بڑی عالم تو نہیں، مگر ملک کو 77 سال میں کبھی سیاسی، کبھی معاشی، کبھی مذہبی اور کبھی صوبائی نفرت کی دہکتی آگ میں بھسم ہوتے دیکھا۔ ایسی ہی قباحتوں اور ناقابل ِفہم فیصلوں کے باعث، ملک قیام کے 25 برس بعد دو لخت ہو گیا ، بنگلہ دیش بن گیا۔ اس کے حالیہ انجام میں محض سیاست دانوں کا نہیں، ججز اور ممبران اسمبلی کی نالائقیوں اور حسینہ کی شخصی ضد کا بھی کردار ہے کہ آج وہاں کے بحران پر ڈاکٹر یونس نے پاکستان کو بھی مدد کیلئے پکارا ہے۔

ہم اپنے ملک میں ہر روز وزیراعظم کے قوم اور غریبوں کے دکھ میں ملول ہوتے ہوئے اعلانات سنتے ہیں کہ 16گریڈ سے نچلے تمام ڈیڑھ لاکھ افراد، مجبوری ہے مگرنکالے جائیں گے۔ پھرغریبوں کیلئے کم قیمت پر موجود گروسری کو ختم کرنے کا بلاوجہ اعلان، یہ لاکھوں لوگ جہاں سینگ سمائیں وہاں چلے جائیں۔ ٹھہریں، ابھی اور بھی اعلانات ہیں۔ کہا گیا کہ وزیراعظم کے دفترمیں صرف اور صرف ای فائلز آئینگی۔ وہ پوری بیورو کریسی جس نے کمپیوٹر، اپنے دفتروں میں نمائش کیلئے رکھے ہیں۔ وہ کیسے اچانک کمپیوٹرپر پڑھنا، لکھنا سیکھ جائیں گے۔ مجھے یاد آتا ہے کہ کسی مقدمے میں جالب صاحب کی ضمانت کا معاملہ تھا۔ بڑے وکیل صاحب دلائل انگریزی میں دیئے جارہے تھے۔ جج کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا۔ آخر اس نے عاجز آکر وکیل صاحب سے کہا ’’تسی پنجابی وچ دس دیو، کہنا کی چاندے او‘‘۔ وکیل نے کہا ’’ضمانت‘‘ جج نے کہا تو جالب صاحب کولے جائیں مگر کسی اور جج کا اس طرح وقت ضائع نہ کرنا۔ ایسے ہی اسٹیل مل کے معائنےکیلئے جب غیرملکی ماہرین آئے تو ایک گریجویٹ اس کے ہر سوال کے جواب میں کہتا ’’انی پئی ہوئی اے‘‘ جب ماہرین کی سمجھ میں کچھ نہ آیا تو واپس دفتر میں ان کے باس کے پاس جاکر پوچھا ’’یہ کیا بتارہے تھے‘‘۔ باس نے ہنس کر ٹال دیا کہ وہ کہہ تھا “Blind woman is lying”۔ اب تک شوق کا یہی عالم ہے۔ نہ بتاتے ہیں کہ آئی پی پیز کس کے رشتہ دار کےہیں۔ ان سے معاہدے کس نے کیے؟ بجلی کے بل غلط پہنچ رہے ہوں، عوام شور مچائیں تو کوئی ایک بندہ یہ نہیں بتاسکتاکہ بل میں اعداد اگرغلط لکھے گئے ہیں تو وہ ٹھیک کیسے ہونگے کہ جو بے چارے ملازم ہیں۔ ان کا کام تو ساری عمر ہاتھ سے لکھنا، پڑھنا، کاٹنا یا درست کرنا رہا، یہ کام کمپیوٹر سے چند دنوں میں نہیں آسکتا۔ خیر وزیراعظم نے ای فائلیں دیکھنے کا کہہ کر اپنی جان تو چھڑا لی۔ باقی قوم تو انہیں بھگت ہی رہی ہے۔

ہر چند بہت پرانی بات مگر سچ ابھی تک یہی کہتا ہے کہ بھٹو صاحب سے جب بلوچستان کی ایک دم حکومت ختم کرنے اور تبدیلیوں کا پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا تھا کہ یہ سب فوجیوں نے کروایاہے۔ آج تک ہر انسانی اور مالیاتی غلطی کو گزرے ہوئے فوجی سربراہوں کے ذمہ لگاکر، اپنی جان چھڑاتے ہیں۔ ایران کی گیس پائپ لائن کا مسئلہ بھی دیکھ لیں۔ ہم ٹالتے رہے ٹالتے رہے۔ آخر کو ایران نے 18ارب ڈالر کے ہرجانے کا نوٹس دے دیا ہے ۔ مصیبت یہ ہے کہ ہماری ہر حکومت اپنی غلطیوں پر اصرار اور اس کو وقت کی ضرورت کہتی ہے۔ غلط گندم منگائی گئی۔ کوئی غلطی تسلیم نہیں کرتا۔ بلوچستان کی معدنیات، صوبے کو حصہ یا فنڈز دیکر کوئی تو فائدہ پہنچایا ہوتا۔ گزشتہ ہفتے بلوچستان کے دس اضلاع میں راکٹوں سے حملے ہوئے۔ جب جی کرتا ہے ہم اسے خوارج کے ذمے لگا دیتے ہیں اور کبھی ناراض بلوچوں کے نام، ماہل بلوچ خاتون اور کبھی ماہ رنگ بلوچ کو قصوروار قرار دیکر ہم خود ہی بری الذمہ ہوجاتے ہیں۔ آج تک نوریز بابو کو 95 سال کی عمر تک جیل میں رکھنے پر معذرت کی۔ بگٹی صاحب کو جس طرح مارا گیا، کسی نے ذمہ داری لی۔ جو آتا ہے اپنی اپنی اناؤں میں محصور رہتا ہے۔ جب سیلابی کیفیت ہو تو موسم کی خرابی کو بھی انڈیا کے ذمے کہ اس نے دریاؤں میں پانی چھوڑ دیا۔ اب بڑی ردوکد کے بعد مودی صاحب نے شنگھائی کانفرنس میں آنے کی حامی بھری ہے، مگر ساتھ ہی انڈیا کے وزیر خارجہ نے زہر میں بجھا پیغام دیا ہے۔ یہ بھی کہا ہے کہ 77 برس میں ان دونوں ملکوں کے درمیان تو غیرعلانیہ آپریشن ہو چکے ہیں۔ ہمارے کسی بھی ہمسائے سے تعلقات کشیدگی کی حد تک کیوں پہنچے ہوئے ہیں۔ افغانستان نے عورتوں پر جو مزید قدغنیں لگائی گئی ہیں۔ عالمی طاقتیں اس پرچپ سادھے بیٹھی ہیں ۔

ہم نے ہر روز افغانستان میں شرپسندوں کی موجودگی کا اعلان کیا۔ کہنا تو میں یہ چاہتی ہوں کہ جیسے امریکہ نے اسامہ کو چپ کرکے ختم کیا تھا۔ کیا ہم، افغانستان میں موجوددہشت گردوں کو ختم نہیں کرسکتے۔ مجھے خبر ہے میری بات پہ سب ناراض ہونگے مگر ناراض بلوچوں کے ساتھ ہم پچاس برس سےکیا کررہے ہیں۔؟ اب بارشوں کے آلام کو کون سمیٹے گا۔ ساری فصلیں، گھر، گلیاں، سڑکیں سب کچھ برباد ہونے پہ خدا کا قہر کہہ کر مسجدوں میں عاقبت سنوارنے کی دعائیں کی جائیں گی۔ بنگلہ دیش والے تو ہم سے مدد مانگ رہے ہیں۔ ہم کیا کریں۔ ہم تو رشتہ داروں کو دی ہوئی آئی پی پیز پہ پردہ ڈالے جا رہے ہیں۔

بشکریہ روزنامہ جنگ