الشیخ سید علی شاہ گیلانی۔۔۔۔تحریرڈاکٹر خالد القدومی


اس روز یکم ستمبر تھا جب پوری ریاست جموں و کشمیر ایک شعور دہندہ سے محروم ہو رہی تھی۔ مگر اس روز جاتے جاتے بھی سید علی گیلانی ؒاہل کشمیر کو حریت کا درس دے کر جا رہے تھے۔ استقامت کی راہ دکھا کر جا رہے تھے۔ ان کے قید و بند کے 29 برسوں میں اگرچہ گیارہ برس نظر بندی کے اور اٹھارہ برس پکے جیل میں گزرے تھے۔ مگر انہوں نے اپنے شعورِ آزادی کو کبھی اسیر نہ ہونے دیا۔

شیخ سید علی گیلانی ؒخطہ کشمیر میں ان برسوں میں پیدا ہوئے جب دنیا میں نوآبادیاتی دور غلامی کے خلاف آوازیں اٹھنا شروع ہو رہی تھیں۔ مشرق و مغرب میں غلامی کے خلاف تحریکیں شروع ہو رہی تھیں،قربانی و جہد کے راستوں کا انتخاب ہو رہا تھا اور جادہ و منزل کا تعین ہو رہا تھا۔ مگر اس دور میں حق مانگنے اور حق کہنے کی سزا آہنی زنجیریں تھیں۔ یہ معاملہ کسی ایک غلام علاقے یا خطے تک محدود نہ تھا بلکہ چہار سو یہی عالم تھا۔

جنوبی افریقہ کے نیلسن منڈیلا اسی دور کی نشانی تھے۔ قوم کو آزادی دلانے کیلئے 27 برس جیلوں میں گزار دیے۔ مگر اپنی آزادی کی تڑپ کو کمزور نہ ہونے دیا۔ آزادی پسندوں کی قسمت کا کھیل نرالا ہے۔ انہیں آزادی اسیری اور قیدو بند سے گزرے اور جاں سے گزر جانے کے بغیر نہیں ملتی۔ وہ اسیری کی کٹھالی میں پڑ کر کندن بنتے ہیں تو منزل کے حق دار قرار پاتے ہیں۔
نیلسن منڈیلا جنوبی افریقہ میں نو آبادیاتی نظام کیساتھ لڑ بھڑ رہے تھے۔ یہی جوت علی گیلانیؒ نے جموںو کشمیر میں جگائی۔ اسیری میں ان کا زمانہ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو منڈیلا سے بھی زیادہ ہوگا۔ اس راستے پر جو بھی چلا اس کے راستے میں دارو رسن لازم رہیں۔ جموں وکشمیر میں شبیر شاہ، یاسین ملک اور فلسطین میں یحییٰ سنوار سب اسی راستے کے راہی ہیں۔ سب نے اپنی قوم کی آزادی کیلئے ہاتھوں میں زنجیریں پہنی ہیں۔ یحییٰ سنوار حماس کے نئے سربراہ بھی 23 برس صہیونی جیلوں میں گزار چکے ہیں۔ خود حماس کے بانی شہیدشیخ احمد یاسین کی ساری زندگی بھی اسی قید وبند کی دھوپ چھاؤں میں گزری۔ اس لیے ان کی تربیت و صحبت سے فیض یاب ہونے اور تحریک کے ہم رکاب ہونے والوں کو ایسا ہی ہونا چاہیے۔ شیخ احمد یاسین کے زیر قیادت انتفاضۃ کے دنوں سے ہی یہ طے ہو گیا تھا۔

وہی جواں ہے قبیلے کی آنکھ کا تارا
شباب جس کا ہے بے داغ ضرب ہے کاری

بات سید علی گیلانی کی ہو رہی تھی۔ چاہتے تو ریاست جموں و کشمیر میں بعض دوسروں کی طرح کم از کم وزارت عظمیٰ تک پہنچ ہی سکتے تھے۔ کئی بارریاستی اسمبلی کے رکن رہ چکے تھے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے، دبنگ تھے، شعلہ بیان تھے، آتش جوان تھے۔ سارے راستے آسان اور منزلیں قریب ہو سکتی تھیں۔ مگر وہ شیخ عبداللہ یا ان کے پیرو کاروں میں سے کسی ایک کے راہی تھے نہ ان کے مطلوب و مقصود تک خود کو محدود کرنا چاہتے تھے۔

اس لیے جہد کا راستہ اختیار کیا، جہاد کو پسند کیا۔ اسمبلی کی نشست کو اس وقت ٹھکرادیا جب انہی کے ضلع بارہ مولہ میں ایک عام سے درزی اور اس کے معاون کی بھارتی ا فواج کی حراست میں شہادت کو غلامی کی زندگی کا حاصل سمجھ کر اسمبلیوں سے استعفے دے دیے اور پھر چل سو چل قوم کی آزادی کیلئے اپنی زندگی کے 29 برس بھارتی قید و بند میں گزار دیے۔

وہ ہمیشہ یکسو رہے مگر کبھی یک چشم نہ رہے۔ فروری 1990 میں ایک تقریر میں کہہ رہے تھے ’سفر بڑا طویل اور راستہ بڑا کھٹن و دشوار ہے۔ اس لیے ٹھہر ٹھہر کر اور سنبھل کر چلنے کی ضرورت ہے۔‘وہ شاعر کی طرح سوچتے تھے مگر ایک قائد کی طرح عملی آدمی تھے۔ اسی لیے ایک مرتبہ فرما رہے تھے۔ ’’ ا گر آپ کے پاس گاڑی نہ ہو اور سرینگر جانا ہو۔ دوڑ کر تو زیادہ سے زیادہ ایک یا دو کلومیٹر ہی جا سکو گے۔ اس لیے پڑاؤ پے پڑاؤ کرتے ہوئے چلتے رہنے کی ضرورت ہے۔ کچھ زاد راہ ساتھ ہوگا تو سلامتی کیساتھ منزل مل ہی جائے گی‘‘۔

سید علی گیلانی نوجوانوں کے قائد تھے۔ اپنے استدلال اور جوش سے نوجوانوں میں عقابی روح پھونک دیتے تھے۔ یہ کام وہ اپنے دور معلمی سے کر رہے تھے۔ اس لیے جب بھارتی حکومت نے سیاست و جمہوریت کے راستے مسدود کر دیے تو بھی محاذ پر ان نوجوانوں کی بڑی کھیپ قدم بقدم رہی۔ نوجوانوں کی اسی قوت و استقامت اور سیدعلی گیلانی کی قیادت کے ملاپ سے جنم لینے والی آزادی کی سوچ سے گھبرا کر انہیں زندگی کے آخری برسوں میں لگ بھگ گیارہ برسوں تک نظر بند رکھا گیا۔ نظر بندی ایسی کہ خداکی پناہ۔ ان کے دو سگے بھائیوں کا انتقال ہو گیا تو اس نظر بندی کی وجہ سے جنازوں میں شرکت نہ کر سکے۔ ایک داماد کا انتقال بھی اسی نظر بندی کے دوران ہوا، دنیا میں سب سے بڑی جمہوریت نے پھر بھی جنازے میں شرکت سے روک دیا۔ یہی معاملہ بیٹی کے سسر کے انتقال پر رہا۔ مگراس ذاتی کرب اور غم کا کبھی زبان سے اظہار نہ کیا۔ اصل مشن اور مقصد سے جڑے رہے۔ کبھی اکیلے بھی رہ گئے تو چلتے رہے۔ لوگ ملتے گئے کاررواں بنتا گیا۔ ایسا کئی بار ہوا مگر حوصلہ ہارا نہ منزل بدلی۔

شہادت حق کے اسی فریضے کے دوران نظر بندی میں ہی جان جانِ آفریں کے سپرد کر دی۔ ڈری اور سہمی ہوئی بھارتی حکومت نے نہ اہل کشمیر کو نماز جناز ہ میں شریک ہونے دیا اورنہ ہی ان کی وصیت اور خواہش کے مطابق مزار شہدا میں تدفین ہونے دی۔ بلکہ زندگی بھر جبر کا شکار رکھنے والوں نے انتقال کے بعد تدفین تک بھی جبر کا سلسلہ جاری رکھا۔ یوں ایک سیاسی، جمہوری اور پارلیمانی شہرت کا حامل بندوقوں کے نرغے میں زندگی گزار کر بندوقوں کے سائے میں ہی سفر آخرت پر روانہ ہوگیا۔

ان کی صاحبزادی کہتی ہیں ’جس طرح میرے ابا کو ان کی زندگی میں بھارتی فوجی گھسیٹ گھسیٹ کر گاڑی میں ڈال کر لے جاتے تھے۔ ان کی میت کو بھی ہمارے سامنے اسی طرح گھسیٹ کر گاڑی میں ڈال کر لے گئے۔بھارتی ا فواج کو ڈر تھا کہ کرفیو کی پابندیاں توڑ کر جنازے کیلئے اہل کشمیر کا جم غفیر اکٹھا نہ ہو جائے۔ اسی لیے بھارتی افواج سید علی گیلانی کی جبری تدفین چاہتی تھی۔ حیدر پورہ کے قبرستان کو چھاؤنی میں بدل دیا گیا تھا‘۔

ان کے انتقال پر دنیا بھر سے تعزیتی پیغامات موصول ہوئے مگر شہید اسماعیل ھنیہ کا تعزیتی پیغام ہر حوالے سے یادگار ہے۔ یہ ایک شہید کا دوسرے شہید کو خراج تحسین ہے۔ وہ لکھتے ہیں ’ہم اسلامی مزاحمتی تحریک (حماس) نے اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر میں راضی اور اس کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہوئے انتہائی دکھ کیساتھ تحریک آزادی کشمیر کے عظیم قائد سید علی گیلانیؒ سابق چیئرمین حریت کانفرنس جموںو کشمیر کے اس دارفانی سے کوچ کر جانے کی خبر سنی۔ ہم اس موقع پر اللہ تعالیٰ کے حضور مرحوم کی درگزر و مغفرت، بلندء درجات اور جنت الفردوس میں اعلیٰ و ارفع مقام کیلئے دعاگو ہیں ‘۔

29 ستمبر 1929 میں سرزمین کشمیر میں جنم لینے والا یہ سپوت حریت یکم ستمبر 2021 میں اپنی اخروی منزلوں کو پاگیا۔ مگر وہ نوائے حریت آج بھی پورے استدلال و استقلال کیساتھ سنی جا رہی ہے، سمجھی جا رہی ہے کہ نظریے کو کبھی ختم نہیں کیا جا سکتا۔ یہ گواہی تو ابھی چند ہفتے قبل ہی اسرائیلی ا فواج کے سربراہ نے بھی دے دی ہے۔

بشکریہ کشمیر الیوم