فیض کا نامہ اعمال : تحریر نوید چوہدری


جب باڑ ہی کھیت کو کھانے لگے تو پھر رکھوالی کون کرے گا؟ جنرل (ر) فیض حمید نے پاک فوج کے لیے بالکل یہی صورتحال پیدا کر دی تھی۔ منگل کو ہونے والی کور کمانڈرز کانفرنس کے بعد جاری کردہ علامیہ اس لیے بھی زیادہ اہم ہے کہ فیض حمید کی گرفتاری کے بعد ادارے کے مجموعی موقف کا انتظار کیا جا رہا ہے۔ اگرچہ پہلے ہی تاثر تھا کہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ کو حراست میں لینے سے پہلے ضروری مشاورت اور اتفاق رائے حاصل کر لیا گیا ہو گا لیکن پریس ریلیز سامنے آنے کے بعد تو مہر لگ گئی، سب پر واضح کر دیا گیا ہے کہ فوج ایک منظم ادارہ ہے جس کے ہر فرد کی پیشہ ورانہ مہارت اور وفاداری صرف ریاست اور افواج پاکستان کے ساتھ ہے، پاک فوج غیر متزلزل عزم سے ایک مضبوط اور کڑے احتساب کے ذریعے اپنی اقدار کی پاسداری کرتی ہے، جس میں کسی قسم کی جانبداری اور استثنا کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی، فوج میں موجود کڑے احتسابی نظام پر عملدرآمد ادارے کے استحکام کے لیے لازم ہے اور کوئی بھی فرد اس عمل سے بالاتر اور مستثنی نہیں ہو سکتا۔ پاک فوج نے نام لیے بغیر واضح کر دیا ہے کہ جنرل(ر) فیض حمید ہوں یا کوئی اور افسر یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ ریاست کے خلاف اقدامات کر کے بچ سکے۔ یہ اٹل حقیقت ہے کہ پاک فوج اگر پروفیشنل اور انتہائی منظم ادارہ ہے تو اس کی بنیادی وجہ کڑا احتسابی نظام ہے۔ خصوصا جب کوئی ادارے میں چین آف کمانڈ کی خلاف ورزی اور گروہ بندی کے ذریعے ڈسپلن کو توڑنے کی کوشش کرے تو اس کا بچنا یا اسے بچ نکلنے کا موقع دینا خوفناک تباہی مچانے کی اجازت دینے کے مترادف ہوتا ہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ پراجیکٹ عمران صرف پاشا، ظہیر اسلام، فیض حمید کی تخلیق نہیں تھا بلکہ یہ ادارے کا مشترکہ منصوبہ تھا۔ طویل عرصے تک آبیاری کے بعد لانچ کیا گیا تو سامنے موجود تمام حریفوں کی مسلسل بدنامی اور ٹھکائی کا بندوبست بھی ساتھ ہی کر دیا گیا۔ یوں اس کی جڑیں ججوں اور جرنیلوں کے گھروں تک پھیل گئیں۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کی حرص اقتدار، حماقتوں اور گولڈ سمتھ ہاوس کی کرشمہ سازیوں نے نام نہاد مقبولیت کی صورت میں عفریت کھڑا کر دیا۔ جس وقت پراجیکٹ عمران سے جان چھڑانے کا فیصلہ کیا گیا تو یہ بھی ادارے کا ہی فیصلہ تھا لیکن بت سازوں میں سے کچھ کو اپنے فن پارے کے ساتھ عشق ہو گیا۔ فیض حمید سمیت کچھ ایسے بھی تھے جو ترقی کے لالچ میں بہت آگے نکل چکے تھے وہ خود کو شہنشاہ سمجھ بیٹھے تھے۔ فیض حمید دوران ملازمت یا ریٹائرمنٹ کے بعد بھی فوجی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے عمران خان کی سیاسی مدد کرتے رہتے تو ان کے حاضر سروس ساتھی انہیں زیادہ سے زیادہ نرم الفاظ میں ہی سمجھا سکتے تھے۔ فیض حمید اپنے ماتحت افسروں کے ساتھ مل کر ٹاپ سٹی جیسی لوٹ مار کرتے رہتے تب بھی ادارے کے وسیع تر مفاد میں پردہ پوشی کی گنجائش باقی رہنا تھی۔ افغانستان سے دہشت گردوں لا کر بسانے اور جیلوں میں بند تخریب کاروں کو چھڑانے کی خطرناک حرکت بھی ہضم ہو سکتی تھی لیکن فیض حمید نے فوج میں رہتے ہوئے ہی فوج کے خلاف سازشیں شروع کر دی تھیں۔ فیض حمید نے آئی ایس آئی کے ذریعے جو متوازی نیٹ ورک بنایا تھا وہ اتنا مضبوط ہو چکا تھا کہ دوسرے جنرل صاحبان اس کا صحیح ادراک ہی نہ کر سکے یا مصلحتا خاموش رہے۔ فیض نیٹ ورک کے کارندے اتنے منہ زور ہو چکے تھے کہ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد ایک نجی ٹی وی پر ارشد شریف، صابر شاکر اور اسی طرح کے ایک دو اور بلا خوف و خطر پراپیگنڈا کر رہے تھے کہ ایک امریکی شخصیت نے آرمی چیف باجوہ سے راولپنڈی کے ایک خفیہ مقام ملاقات کر کے حکومت کو ہٹانے کا کہا۔ فیض حمید تو سابق جنرل تھے، آئی ایس آئی کے ڈی جی رہ چکے تھے لیکن عدالتی، میڈیائی اور بیورو کریسی کے کارندوں کا عالم یہ تھا کہ وہ ابھی چند روز پہلے تک کسی کو خاطر میں نہیں لا رہے تھے۔ فیض حمید کو اعتماد تھا کہ وہ آئی ایس آئی کے سربراہ کے طور پر ہر طرح کے قومی رازوں سے واقف ہیں اور اوپر سے انہیں امریکی اور مغربی لابیوں کی سپورٹ بھی حاصل ہے اس لیے ان پر کوئی ہاتھ نہیں ڈال سکے گا۔ مفاد پرست جنرل قمر باجوہ اپنے دور میں سب کچھ جانتے ہوئے بھی چپ چاپ تماشا دیکھتے رہے اور اپنی مجرمانہ چشم پوشی سے پاک فوج کی بدنامی میں حصہ دار بنے۔ فوج کی کمان میں تبدیلی کے بعد اگلے آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے بھی غیر معمولی تحمل کا مظاہرہ کیا حتی کہ نو مئی ہو گیا۔ اس واردات کے کافی عرصہ بعد تک سمجھانے کی کوششیں کی جاتی رہیں لیکن جب یہ نوٹ کر لیا گیا کہ فیض حمید فوج میں بغاوت کرانے کے منصوبے سے پیچھے ہٹنے کے لیے پیار کی زبان نہیں سمجھیں گے اس لیے دوسرا کوئی طریقہ باقی نہیں رہا تو ان پر ہاتھ ڈال دیا گیا۔ خرابی کی جڑ تو پکڑی جا چکی، شیطان کی آنت کی طرح پھیلے ہوئے فیض نیٹ ورک کے تمام کارندے اب اپنے بچاو کے ہاتھ پاوں مار رہے ہیں۔ عمران خان جیل میں چیخ و پکار کر رہے ہیں۔ جیل سٹاف میں شامل معاونین دھر لیے گئے۔ جن ججوں کی زبانیں موجودہ فوجی و انٹیلی جنس قیادت کے خلاف شعلے اگل رہی تھیں اب وہ کمزور لہجے میں بے ربط گفتگو کرنا شروع ہو گئے ہیں۔ جعلی ڈگریاں اور دوہری شہریت پھندہ بن رہی ہیں۔ کچھ اور بھی قبضہ گروپوں کی سرپرستی اور کرپشن سکینڈلز میں بھی رگڑے جا سکتے ہیں۔ چند ہفتے پہلے تک لگ رہا تھا کہ فیض حمید نیٹ ورک اپنے ہی ادارے اور نظام کو الٹا کر رکھ دے گا۔ اب نظر آ رہا ہے کہ فیض حمید نیٹ ورک خود کڑے احتساب کی بے رحم موجوں کی زد میں آ چکا ہے۔

بشکریہ روزنامہ نئی بات