اے جی نورانی: علم کا بہتا دریا خاموش ہوگیا……(2) : تحریر افتخار گیلانی


نورانی صاحب بسا اقات بڑے ہی منہ پھٹ اور لاگ لپٹ کے بغیر بات کرنے کے عادی تھے۔ ایک بار دہلی میں مرحوم عبدالغنی لون کی معیت میں ان سے ملنے گیا تھا۔ بات چیت کے دوران لون صاحب نے ان سے چند ذاتی نوعیت کی جانکاری معلوم کرنے کی کوشش کی تو وہ بھڑک گئے۔ تمام آداب وغیرہ کو بالائے طاق رکھ کر ان کو کمرے سے نکل جانے کیلئے کہا۔ ہم خاموشی کے ساتھ چلے گئے۔ ایک ہفتہ کے بعد لون صاحب نے مجھے حریت کے دفتر بلاکر پوچھا کہ کیا نورانی صاحب ابھی دہلی میں ہی ہیں یا چلے گئے ہیں۔ میرا دل بھی ان کے رویہ سے دکھی تھا، اس لئے میں نے اب نورانی صاحب سے ترک تعلق کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ میں نے لون صاحب سے کہا کہ آپ اس بدتمیز اور مغرور شخص سے پھر ملنا چاہتے ہیں۔ وہ اس قابل نہیں ہے، کہ اس کے ساتھ کوئی تعلق رکھا جائے۔ مگر لون صاحب نے نصیحت کی کہ وہ علم کا سمندر ہے، ایسے شخص کے بارے میں ایسی سوچ نہیں رکھنی چاہئے، بلکہ اس کی قدر کرنی چاہئے اور ان کا یہ رویہ دل پر نہیں لینا چاہئے۔ جتنی دیر وہ اپنی محفل میں بیٹھنے دے، سیکھنے کو بہت کچھ ملتا ہے۔ ان کے دفتر سے نکل کر آفس کی طرف جاتے ہوئے میں نے انڈیا انٹرنیشنل سینٹر کے ریسپشن سے معلوم کیا ، تو پتہ چلا کہ نورانی صاحب ابھی کمرے میں ہی ہیں۔ میں نے انٹر کام سے نمبر ملایا، تو نہایت خندہ پیشانی کے ساتھ جواب دیا۔ میں نے کہا کہ لون صاحب ملنا چاہتے ہیں، تو اسی وقت اگلے روز کا نہ صرف وقت دیا ، بلکہ ان کو سلام پہنچانے کیلئے بھی کہا۔ نیشنل کانفرنس کے عبدا لرحیم راتھر اور پروفیسر سیف الدین سوز بھی ان کا بڑا خیال رکھتے تھے۔ کشمیر میں اگر ان کو کسی اور شخص کے ساتھ قربت تھی وہ سابق ڈائریکٹر ٹورازم سلیم بیگ تھے، جو خود ایک وسیع المطالعہ شخص اور اتھارٹی ہیں۔ نورانی صاحب ان کی موجودگی میں جیسے کھلتے تھے۔ شیخ عبداللہ اوران کے دست راست مرزا محمد افضل بیگ سے متعلق کہانیوں اور قصوں کے دفتر کھل جاتے تھے۔ یہ دونوں لیڈران جب بمبئی آتے تھے، توجنوبی بمبئی میں مالابار ہل کے پاس ان کے فلیٹ میں ہی رکتے تھے۔ نورانی صاحب کاکہنا تھا کہ کشمیر کے مسئلہ کے علاوہ جس چیز نے ان کو اس خطے کے ساتھ جوڑ کے رکھا وہ کشمیر کے پکوان یعنی وازوان ہے۔شیخ عبداللہ جب 1975 میں وزارت اعلی کی کرسی پر فائز ہوگئے، تو ان دنوں ہفتے یا پندرہ روز کے بعد بمبئی سے سرینگر براہ راست فلائٹ ہوتی تھی۔ وہ اس دن نورانی کیلئے وازوان کی ڈشز پکوا کر انکو پارسل میں بھیجتے تھے۔ یہ شیخ صاحب کی لاجواب سخاوت تھی، ورنہ وہ کسی کیلئے بھی رواداری نہیں برتنے کے عادی نہیں تھے۔ دہلی میں وہ کشمیری باورچی احد وازہ کے آوٹ لٹ پر وہ ضرور جاتے تھے اور ٹن میں پیک کرکے کھانا اپنے ساتھ لے جاتے تھے۔کھانوں کے شوقین ہونے کے باوجود وہ خود نہایت ہی قلیل خوراک لیتے تھے اور اپنے ساتھ لوگوں کو کھلاکر کر خوش ہوجاتے تھے۔ کشمیر کی انفرادیت کے حوالے سے وہ اتنے حساس تھے، ایک بار انہوں نے کہا کہ دہلی کی نظام الدین بستی میں کشمیری پکوانوں کی ایک دکا ن کھلی ہے اور وہاں ڈنر کیلئے جانا ہے۔ ایک چھوٹی سی دکان تھی اور بیٹھے ہی انہوں نے رستہ، گشتابہ، قورمہ وغیر کا ایک لمبا چوڑ ا آرڈر دیا۔ نظام الدین علاقہ دہلی کا ایک طرح سب قلب ہے اور باہر سے آئے زائرین اور سیاحوں سے بھرا رہتا ہے۔ جنوبی بھارت کی کوئی فیملی بھی اسی دوران ہمارے بغل کی میز پر برا جمان ہوگئی ۔ ظاہر سی بات ہے کہ وہ کشمیری پکوانوں سے نابلد تھے اور مینو سے ان کو کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ انہوں نے باہر چکن کو تندور میں پکتے دیکھا تھا، تو انہوں نے اسی کا آرڈر دیا۔ جب ان کا آرڈر آگیا ، تو نورانی صاحب کو طیش آیا، کہ کشمیر ی ہوٹل میں کیسے کوئی غیر کشمیری ڈش کھانے آسکتا ہے۔ پہلے تو انہوں نے برداشت کیا، پھر ان کی میز پر جاکر ان کو خوب سنائی۔ وہ حیران و پریشان۔ ہوٹل کا منیجر میرے پاس آکر کہنے لگا، ان کو سبنھالو، یہ میرے گاہک بھگا رہے ہیں۔ میں نے اسکو مشورہ دیا کہ اس فیملی کو رستہ یا گوشتابہ کی ایک پلیٹ دے دو، اور ہماری بل میں اس کو جوڑ دینا۔ خیر جب ا ن کی میز پر کشمیری پکوان آگئے، تو ان کا غصہ ٹھنڈا ہوگیا۔ انہوں نے جو لمبا چوڑا آرڈر دیا تھا، وہ بھی ان کو کھلایا۔ کشمیری کھانے ان کی کمزوری تو تھی، مگر انہوں نے کبھی کشمیرمیں شادی وغیرہ کی تقریب میں تازہ اور مستند پکوان جس طرح پروسے جاتے ہیں، سے لطف نہیں اٹھایا تھا۔ 2006میں ان کو میں اپنے ایک کزن کے ولیمہ میں ساتھ لے گیا۔ کشمیر میں محفل میں کھانا زمین پر بیٹھ کر چار آدمی ایک بڑی پلیٹ کے ارد گرد بیٹھتے ہیں۔ گھٹنوں کے درد کی وجہ سے ان کیلئے ایک کرسی اور ٹیبل کا انتظام کرنا پڑا۔ وہاں محفل کے آداب بڑی سختی کے ساتھ نبھائے جاتے ہیں اور باورچی ترتیب کے ساتھ مختلف ڈشز سرو کرتا رہتا ہے۔ چونکہ انکی پہلی ڈش کے ختم ہونے سے پہلے ہی باوچی دوسری ڈش ڈالنے پلیٹ میں ڈالنے کیلئے آتا تھا، تو وہ اسکو کو روک دیتے تھے۔ پوری محفل ہاتھ روکے انتظار کرتی تھی۔ پھر ایک ڈش ان کو زیادہ پسند آگئی، تو انہوں نے وہ دوبار منگوائی اورپارٹی میں سبھی دوسو افراد کوبھی دوسری بار دینے کیلئے کہا۔ اس کی اپنی مقدار ہوتی ہے۔ میرے ماموں، جن کا بھی ابھی حال ہی میں انتقال ہوا، نے حاضردماغی کا مظاہرہ کرتے ہوئے خیمہ کا دوسرا دورازہ کھلواکر باورچی کیلئے محفل میں کھانا پروسنے کیلئے راستہ بنایا اور ترتیب برقرار رکھی۔ پاکستانی صدر پرویز مشرف نے کشمیر پر اپنے چار نکاتی فارمولہ کا اعلان نورانی کے ساتھ فرنٹ لائن جریدہ کیلئے انٹرویو میں ہی کیا۔ اس سے قبل اپنے کئی تحریروں اور ٹریک ٹو میٹنگوں میں نورانی نے اس قضیہ کو زمینی کے بجائے انسانی بنیادوں پر حل کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ اسلام آباد روانگی سے قبل وہ وزیر اعظم من موہن سنگھ سے اکیلے میں ملے تھے اور انٹرویو سے قبل مشرف کے ساتھ دس منٹ ون ٹو ون میٹنگ بھی کی تھی۔ اس لئے بتایا جاتا ہے کہ یہ فارمولہ مشرف کے بجائے بھارت کی طرف سے آیا تھا، بس پاکستانی صدر کے ذریعے اس کو پبلک کرایا گیا۔ یہ انٹرویو بذات خود ایک کہانی بن گیا۔ ان کو بتایا گیا تھا، صدر کے علاوہ تین اور افراد یعنی وزیر خارجہ، سیکرٹری خارجہ اور فوج کے آئی ایس پی آر کے سربراہ بھی انٹرویو کے دوران موجود ہونگے۔ مگر کمرے میں غیر متوقع طور پر چوتھا شخص بھی تھا۔ انہوں نے مشرف سے کہا کہ ان کو بتایا گیا تھا کہ تین افراد موجود ہونگے ، مگر یہاں چار افراد ہیں۔ (جاری ہے) مشرف نے اشارہ سے چوتھے شخص کو باہر جانے کیلئے کہا، جس کے بعد انٹرویو شروع ہوگیا۔ چوتھا شخص، کوئی اور نہیں، جنرل اشفاق پرویز کیانی تھے۔ جو اس وقت کے آئی ایس آئی کے سربراہ تھے اور بعد میں فوج کے سربراہ مقرر ہوئے۔ وہ مشرف فارمولہ کے زبردست حامی تھے۔ اس کی وجہ سے ان کی گیلانی صاحب سے ناچاقی بھی ہوئی اور اپنی تحریروں میں ان کے خلاف سخت الفاظ بھی استعمال کئے۔ ان ہی دنوںفیڈرل ازم پر کشمیر میں ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقد ہو رہی تھی۔ وہ اس میں مدعو تھے ۔ میں بھی ان دنوں سرینگر میں ہی تھا۔اس کانفرنس کے دوران انہوں نے درخواست کی کہ چونکہ وہ سرینگر میں ہیں، اس لئے بطور آداب و اخلاق وہ گیلانی صاحب سے ملنا چاہتے ہیں۔ خیر اپائنٹمنٹ طے ہوئی تو ڈرائنگ روم میں بیٹھتے ہی کہا۔ گیلانی صاحب میں قہوہ پینے اور کباب کھانے یہاں آیا ہوں۔ آپ کے ساتھ بات کرنا تو فضول ہے۔ آپ بھی اس دوران کوئی سیاسی بات نہ کریں ۔ گیلانی صاحب نے مسکرا کر ان سے کہا کہ آپ درویش ہیں، آپ کی کسی بات کاہم برا نہیں مناتے ہیں۔ہم کشمیری درویشوں کا بڑا ادب کرتے ہیں۔ نومبر 2008کو جب پی چدمبرم نے وزارت داخلہ کا قلمدان سنبھالا توا ن کو وزیر اعظم کی طرف سے ہدایت تھی کہ وہ نورانی سے ملیں اور ان سے کشمیر سے سلسلے میں بریفنگ لیں۔ اپنے وزیر ہونے کے زعم میں اس نے اپنے کسی افسر کو نورانی سے رابط کرنے اور ان کو دہلی لانے کیلئے کہا۔ نورانی نے جواب میں کہا کہ وہ وزارت داخلہ کی میزبانی قبول نہیں کرینگے۔ جب ا ن کو اپنے کام سے دہلی آنا ہوگا، تو وہ مطلع کرینگے۔ خیر شاید کئی ماہ بعد وہ دہلی آئے۔ شام کو پانچ بجے کے آس پاس وزارت داخلہ میں مختلف ڈویژنوں کے سربراہان یا ہوم سیکرٹری میڈیا کو بریفنگ دیتے تھے۔ اس لئے دیگر رپورٹر کے ساتھ میں بھی اسوقت وزارت داخلہ کے کوریڈورز میں موجود تھا، کہ ہم نے وزیر کے کمرے سے نورانی صاحب کو نمودار ہوتے ہوئے دیکھا۔ پی چدمبرم ان کو لفٹ تک چھوڑنے ساتھ آیا تھا۔ وزیر کی کوریڈور میں موجودگی سے ہل چل مچ گئی۔ سبھی رپورٹرز یا افسران ان کے ارد گرد جمع ہوگئے۔ لفٹ کے پاس پہنچ کر چدمبرم نے خود ہی بٹن دبایا اور ان کو الوداع کرنے ہی والے تھے ، کہ نورانی صاحب نے لقمہ دیا۔ مسٹر ہوم منسٹر، بہت بہت شکریہ یہ میٹنگ آپ کیلئے اور میرے لئے وقت کا زیاں تھا۔ پریس اور تمام افسران کی موجودگی میں چدمبرم ہکا بکا ہوکر رہ گئے۔ چدمبرم گو کہ بھارت کے بہتر وزیر داخلہ تھے، مگر ان کو زعم تھا کہ وہ سب کچھ جانتے تھے۔ نورانی صاحب ان کو عقل کل کہتے تھے۔ اسی طرح ایک بار شمالی کشمیر کے موجودہ ممبر پارلیمنٹ انجینئر رشید، جو ان دنوں لنگیٹ حلقہ سے ممبر اسمبلی تھے، نے ان کو اپنے حلقہ میں آنے کیلے مدعو کیا۔ لنگیٹ تحصیل کے ایک خوبصورت مقام ریشی واری میں انہوں نے لنچ کا اہتمام کیا تھا۔ سرسبز جنگلوں اور پہاڑی نالوں سے پر اس وادی میں داخل ہوتے ہی تقریبا 30 کلومیٹر تک سڑک سے ملحق سبھی گھروں کی دوسری منزل پر ہمیں فوجی جوان نظر آئے۔ معلوم ہوا کہ گھروں کے مکین تو پہلی منزل پر رہتے ہیں اور دوسر ی منزل فوج کے لئے مخصوص ہے۔ ہمارے آنے قبل فوج کے مقامی بریگیڈ کمانڈر نے جب نورانی صاحب کی آمد کے بارے میں سنا تو اصرار کیا کہ چائے وہ بریگیڈ ہیڈ کوارٹر میں نوش کریں۔ ان کو جب بتایا گیا، تو انہوں نے خشم آلود لہجے میں منع کر دیا۔ لنچ وغیرہ سے فراغت کے بعد دیکھا کہ ریسٹ ہاوس کے باہر آرمی کی گاڑیاں ہیں اور بریگیڈئر صاحب خود ہی ملنے آن پہنچے ہیں۔ سلام وغیرہ کے بعد انہوں نے نورانی صاحب کو یاد دلانے کی کوشش کی کہ وہ ان کے استاد ہیں، کیونکہ جب وہ ملٹری اکیڈیمی لیکچر دینے آئے تھے، تو وہ سامعین میں تھے اور امتحانات کی تیاری کے لئے بھی وہ ان کے کالم اور کتابیں پڑھتے رہے ہیں۔ نورانی صاحب نے انکی طرف دیکھے بغیر کہا کہ جو کچھ میں یہاں دیکھ رہا ہوں، وہ تو میں نے کبھی نہیں پڑھایا۔ چند منٹوں کے بعد ہی بریگیڈئر کو احساس ہوا کہ وہ ناپسندیدہ شخصیت ہیں، اور اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ واپس چلے گئے۔ مگر نورانی صاحب کا موڈ خراب ہو چکا تھا۔ ان کے ساتھ کئی لٹریری میلوں میں بھی جانے کا موقعہ ملا۔ کیرل لٹریری فیسٹیول میں ان کی کتاب Kashmir Dispute پر ایک سیشن تھا۔ مجھے اس کی نظامت کیلئے مد عو کیا گیا تھا۔ اسٹیج پر جب تک وہ رہتے تھے، تو کسی بھی سوال کا برا نہیں مناتے تھے۔ بحث و مباحثہ کو وہ خوب انجوائے کرتے تھے۔ اپنے نام کے ساتھ القاب لگانا بھی پسند نہیں کرتے تھے۔ کشمیر کے ایک لیڈر محمد یوسف تاریگامی سے بس اسلئے خفا تھے کہ اس نے ان کو کسی دن جناب، محترم جیسے لمبے چوڑے القاب سے یاد کیا تھا۔ وہ اس کو چھچھورا پن کہتے تھے۔ ان کی تقریر کے دوران اگر کسی کیمرہ مین نے فلیش لائٹ چلائی یا تقریب کے بعد لوگ ان کے ارد گرد آکر اپنا تعارف کرانے لگے تو انکا موڈ آف ہو جاتا تھا۔ پہلے تو وہ کتاب کے آٹو گراف سے بھی منع کرتے تھے۔ مگر بعد میں پبلشرز کے اصرار پر اور دستوں کے مشورہ کی وجہ سے وہ آٹو گراف دینے لگے تھے۔ اسٹیج سے اترتے ہی ان کو ہجوم سے دور کسی خاموش کارنر میں لے جانا پڑتا تھا، ورنہ کسی نہ کسی کی شامت آنی تھی۔میں نے اس تقریب میں اسٹیج سے کئی بار سامعین کو گوش گزار کروایا کہ جو بھی سوالات ہیں وہ ابھی پوچھیں۔ مگر جب ہم ایک کونے میں لنچ کر رہے تھے، مدھیہ پردیش کی کسی یونیورسٹی کے ایک پروفیسر پہنچے اور اپنا کارڈ دیکر کوئی سوال پوچھا، جو ان پر قہر ٹوٹا، وہ شاید ابھی تک اسکو بھول نہیں پائیں ہونگے۔ حامد انصاری کو 2007میں نائب صدر کے عہدے پر فائز کروانے میں ان کا رول رہا ہے۔ ان دنوں لیفٹ فرنٹ کی حمایت سے کانگریس کی حکومت ٹکی ہوئی تھی۔ جب ایک خاتون پرتیبھا پاٹل کو صدر بنایا گیا تو نائب صدر کیلئے تلاش چل رہی تھی۔ کانگریس نے چند نام تجویز کئی تھے، جیسے ڈاکٹر کرن سنگھ وغیرہ، جن کو لیفٹ فرنٹ نے مسترد کردیا تھا۔ ایک روز جب انڈیا انٹرنیشنل سینٹر میں مقررہ وقت پر میں ان سے ملنے پہنچا، تو دیکھا کہ حامد انصاری، جو ان دنوں قومی اقلیتی کمیشن کے سربراہ تھے، ان کے کمرے سے باہر آرہے تھے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ انصاری صاحب نائب صدر کے عہدے کیلئے موزوں شخص ہیں، اگر کوئی ان کا نام کانگریس یا لیفٹ کے زعما تک پہنچا دے۔ میں چونکہ کانگریس پارٹی کور کرتا تھا، معلوم ہوا تھا وہ کسی پڑھے لکھے سلجھے ہوئے مسلمان امیداوار کو ڈھونڈ رہے ہیں، کیونکہ انہوں نے سائنسدان اے پی جے عبدالکلام کو صدارت کی دوسری ٹرم نہیں دی تھی، اس لئے اسکی بھر پائی کیلئے ان کو ویسا ہی نائب صدر چاہئے تھا۔ میری ملاقات کا وقت ختم ہونے والا تھا کہ انہوں نے کہا کہ چند لمحے اور بیٹھوں۔ کمیونسٹ پارٹی مارکسسٹ کے جنرل سیکرٹری پرکاش کرات کے ملنے کا وقت تھا۔ کرات ، جب ان کے کمرے میں براجمان ہوئے، تو انہوں نے میری طرف اشارہ کرکے کہا کہ افتخار کچھ کہہ رہے تھے۔ مجھے حامد انصاری کے تعلق سے دہرانے کو کہا۔ کرات نے کہا کہ نام تو کانگریس کی طرف سے آنا چاہئے ،ہمارا کام تو ہاں یا نہیں کرنا ہے۔ خیر انہوں نے نورانی صاحب سے کہا کہ سنا کہ آپ کل میڈیم یعنی کانگریس صدر سونیا گاندھی سے مل رہے ہیں، وہاں یہ تجویز دے دیں۔ اگر کانگریس نے یہ نام دیا، تو ہماری پارٹی کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا ہے۔ ایک ہفتے بعد ہی اعلان ہوا کہ حامد انصاری حکمران اتحاد کے نائب صدر کے امیدوار ہیں۔ وہ دس سال اس عہدے پر فائز رہے۔ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کے بارے میں نورانی صاحب کچھ نہیں جانتے تھے۔ وہ ٹائپ رائٹر کا استعمال بھی نہیں جانتے تھے اور اپنے تمام مضامین ہاتھ سے لکھتے تھے۔ اس کا بنیادی تحقیقی مواد بہت سارے مضامین پر اخباری تراشوں پر مشتمل تھا، یہ عادت انہوں نے 1940 کی دہائی میںاسکول سے ہی شروع کی تھی اور ان کی لائبریری میں مختلف موضوعات پر فائلوں میں لاتعداد اخباری تراشے موجود تھے۔ ہاتھ سے لکھنے کے بعد ا ن کا اسٹینو اس کو ٹائپ کرتا تھا اور پھر وہ فیکس یا کورئیر سے اخبار کے دفتر بھیجتے تھے۔ این رام نے ان کو ایک کمپیوٹر تحفہ میں دیا تھا۔ مگر انہوں نے اس کا استعمال کبھی نہیں کیا۔ ہاں ان کا اسٹینو اب ٹائپ رائٹر کے بجائے کمپوٹر پر ٹائپ کرکے پرنٹ آوٹ لیتا تھا۔رائٹنگ میز کا انہوں نے کبھی استعمال نہیں کیا۔ ان کے اسٹڈی روم میں ایک 2 فٹ اونچی چارپائی تھی جس پر بیٹھ کر ٹیک لگائے وہ مضامین لکھتے تھے۔ ایک بار ڈان اخبار کیلئے انہوں نے مضمون لکھا تھا اور دہلی میں کسی کو اسکو ٹائپ کرنے کیلئے ڈھونڈ رہے تھے۔ میں نے کہا کہ میں لیپ ٹاپ ان کے کمرے میں لاکر ٹائپ کرتا ہوں۔ وہ ڈکٹیٹ کر رہے تھے، کیونکہ ان کی لکھائی پڑھنا میرے بس میں نہیں تھا۔ ٹائپ کرنے کے بعد وہ اس کا پرنٹ آوٹ مانگنے لگے۔ میں نے اسکرین پر فاؤنٹ بڑھا کرکے ان کو پڑھوایا اور ڈونگل لگا کر ای میل سے ڈان اخبار کو بھیجا۔ ان کو یقین نہیں ہور ہا تھا۔ انہوںنے فون کرکے اطمینان کیا، اور پھر مجھے جانے کی اجازت دی۔ وقت کے اتنے پابند کہ اگر انہوں نے دس بجے کا وقت ملنے کیلئے دیا ہے، تو اس کے ایک منٹ بعد اگر آپ پہنچے، تو ان کا موڈ خراب ہوتا تھا۔اسکے بعد دیر سے آنے والے تو وہ بلیک لسٹ کرتے تھے۔ جاوید نقوی اور ان کے برادر اکبر سعید نقوی کے ساتھ ان کو خدا واسطے بیر تھا۔ دونوں بھائیوں نے کئی بار ثالثوں کے ذریعے صلح صفائی کی کوشش کی، مگر وہ ان کو معاف کرنے کے لئے تیار نہیں تھے۔ ایک بار سعید بھائی سے ہی پوچھا کہ آخر ان سے کیا خطا سرزد ہوئی ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ تقریبا بیس برس قبل ان کو پرانی دہلی کی کسی گلی میں کسی گمنام ہوٹل میں نورانی صاحب کو لیکر نہاری کھانے جانا تھا۔ بس کچھ ایسا ہوا کہ دماغ سے نکل گیا۔ بس وہ دن اور آج کا دن، انہوں نے ہمیں اپنی ناپسند مخلوق قرار دیکر اپنی زندگی سے خارج کردیا ہے۔ ایک بار رات گئے جب میں آفس سے گھر کی طرف روانہ ہو رہا تھا کہ ان کا ممبئی سے فون آیا، کہ جاوید نقوی کو سلام کہنا اور بتانا کہ آج ڈان میں بہت ہی اچھا آرٹیکل لکھا ہے۔ میں خوش ہوا کہ برف پگل گئی ہے اور کل یہ خوشخبری جاوید نقوی کو سناؤں گا اور باضابطہ ان سے پارٹی کرواؤں گا۔ بیس منٹ بعد جب میں اب گاڑی ڈرائیو کر رہا تھا کہ ان کا پھر فون آیا، اور پوچھنے لگے کہ میں نے انکا مسیج پہنچایا تو نہیں۔ میں گھبرا گیا کہ کیا یہ اتنا ضروری مسیج تھا۔ میں نے کہا کہ شاید وہ سو گئے ہونگے، کل صبح ہی پہنچا دونگا۔ کہنے لگے ۔ نہیں بالکل نہیں، سلام نہیں کہنا، بس یہ کہنا کہ آرٹیکل بہت اچھا تھا۔اسی طرح ایک محفل میں ایک اسکالر جو مسلم ایشوز کے بارے میں قومی اخبارات میں لکھتے تھے، ان کے پاس آکر کہنے لگے، نورانی صاحب آپ سے مل کر بہت خوشی ہوئی، تو انہوں نے جواب دیا، کہ ان کو کوئی خوشی نہیں ہوئی، آپ نے فلاں دن، فلاںاخبار میں اپنے آرٹیکل کی اٹھارہویں لائن میں کیا اناپ شناپ لکھا تھا۔وہ رائٹر اس آرٹیکل کو خود بھول چکا تھا، مگر نورانی صاحب کے ذہن میں گرہ لگا چکا تھا۔ ممبئی کے فیشن ابیل علاقے کے فلیٹ میں وہ اکیلے ہی رہتے تھے۔ انہوں نے شادی نہیں کی تھی۔ خوشونت سنگھ کی زیر ادارت الیسٹریٹڈ ویکلی کے وہ کالم نویس تھے۔ بقول خوشونت سنگھ انہوں نے ایک اور کالم نویس انیس جنگ کے ساتھ ان کی نسبت کی بات چلائی تھی۔ دونوں نے اوبرائے ہوٹل میں ملنے پر رضامندی ظاہرتو کی ، مگر اس عالیشان ہوٹل کے کس ریسٹورنٹ میں ملنا ہے وہ طے نہیں کیا تھا۔ نورانی وقت پر پہنچ کر ایک ریسٹورنٹ میں بیٹھ گئے، انیس جنگ دوسرے ریسٹورنٹ میں برا جمان ہوگئی۔ پندرہ منٹ تک دونوں ایک دوسرے کا انتظار کرکے اٹھ گئے اور دونوں کی ملاقات لفٹ کے پاس ہوئی، اور دونوں کو یقین تھا کہ دوسرا فریق دیر سے آرہا ہے۔ لفٹ کے پاس ان کی جھڑپ ہوئی، تو ہوٹل کے ملازموں نے بیچ بچاؤ کیا ۔ یہ متوقع شادی انجام تک پہنچنے سے قبل ہی ختم ہوگئی۔ دونوں پھر زندگی بھرکنوارے ہی رہے۔ اپنے مضامین اور کتابوں میں وہ حوالہ جات سے اپنے دلائل کی عمارت اتنی مضبوط کھڑی کردیتے تھے، کہ اس کو ہلانا یا اس میں سیندھ لگانا نہایت ہی مشکل امر ہوتا تھا۔ اپنی کتاب ‘آرٹیکل 370: کانسٹی ٹیوشنل ہسٹری آف جموں و کشمیر میں انہوں نے بڑی عرق ریزی سے آرٹیکل 370 کی تدوین اور ان تمام دستاویزات اور اس کے متعلق دیگر ایشوز کا مبسوط احاطہ کیا ہے جس سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ ریاست کو بھارت کے ساتھ مشروط الحاق کے وقت جو ضمانتیں اور آئینی تحفظات فراہم کئے گئے تھے،ان کو کس طرح روندا گیا ہے۔یہ کتاب بی جے پی کے لئے سوہان روح تھی۔ کیونکہ اس میں دستاویزی حوالے سے بتایا گیا ہے کہ جن سنگھ کے بانی شیاما پرساد مکھرجی نے جن کا نام آرٹیکل 370 کی مخالفت کرتے وقت بی جے پی اچھالتی ہے اس کی مکمل حما یت کی تھی۔ بی جے پی اس وقت کے وزیر داخلہ سردار پٹیل کا نام بھی اس پروپیگنڈا کے لئے استعمال کرتی ہے کہ انہوں نے اس مسئلہ پر پنڈت جواہر لعل نہرو کی مخالفت کی تھی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ پٹیل نے بھی اس دفعہ کی مکمل تائید کی تھی۔ اسی طرح اپنی کتا ب IndiaChina Boundary Problem 18461947 : History and Diplomacy میں انہوں نے ثابت کردیا، کہ بھارت اور چین کے درمیان سرحدی تنازع ایک مفروضے کے سوا کچھ نہیں، جس کو بھارتی سفارت کاری نے گزشتہ تین دہائیوں سے فریب اور دھوکہ دہی کے ذریعے بڑی کامیابی سے دنیا کے سامنے پیش کر رکھا ہے۔ اس جھوٹے پروپیگنڈہ کا آغاز کسی اور نے نہیں بلکہ ملک کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے خود کیا تھا۔ 27 اکتوبر 1947 کو جس وقت بھارتی فوجیں کشمیر میں داخل ہوئی، تو ریاست جموں و کشمیر کا رقبہ 82,258 مربع میل دکھایا گیا۔بھارتی وزیر داخلہ سردار پٹیل نے جب ریاستوں سے متعلق ایک وائٹ پیپر جاری کیا، تو اس میں بھی یہی رقبہ دکھایا گیا۔ 1891 میں پہلی مردم شماری کے وقت ریاست کا رقبہ 80,900 مربع میل دکھایا گیا تھا۔ مگر 1911 کی مردم شماری میں رقبہ بڑھا کر 84,258 مربع ریکارڈ کیا گیا۔مردم شماری کے کمشنر کی رائے پر 1941میں اس رقبہ کو گھٹا کر 82,258 مربع میل کردیا گیا۔1951 میں پہلی مردم شماری کے وقت اسی کو دہرایا گیا۔ البتہ 1961 کی مردم شماری میں ریاست کے رقبہ کو بڑھا کر 86,024 مربع میل دکھایا گیا۔ یہ جغرافیہ کہاں سے حاصل ہوا، ایک سیسپنس ہے۔ اس دوران کوئی جنگ بھی نہیں ہوئی تھی۔حیرت کی بات یہ ہے کہ بھارت نے جموں و کشمیر کے رقبہ میں 3,766 مربع میل کا اضافہ 1960 میں پاکستان کے صدر ایوب خان کے ساتھ کراچی میں تاریخی سندھ طاس آبی معاہدہ پر دستخط کرکے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کے وطن لوٹنے کے فورا بعد کیا۔بھارتی خارجہ پالیسی کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ بھارت چاہتا ہے کہ خطے کے ممالک اس کو انکل سمجھیں اور بڑی طاقتیں اسکو بھائی مانیں۔ نریندر مودی کے برسر اقتدار آنے کے بعد یہ سوچ کچھ زیادہ ہی پختہ ہوگئی ہے۔ کتاب ڈسٹرکشن آف بابری مسجد:اے نیشنل ڈس آنر میں بھی انہوں نے کئی حقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کانگریس کے اندرا گاندھی کے دور اقتدارمیں ہی بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر کی تعمیر کی راہ ہموار کرنے کے لئے ویشو ہندو پریشد کے ساتھ ایک ڈیل ہوئی تھی۔گوکہ پریشد نے اندرا گاندھی کی ہلاکت کے بعد اپنی تحریک روک دی مگر راجیو گاندھی نے اس ڈیل کو پھر زندہ کیاتاہم اس سے پہلے وہ مسلمانوں پر کوئی احسان کرنا چاہتے تھے۔اس کیلئے ان کے حواریوں نے ایک مسلم مطلقہ خاتون شاہ بانو کا قضیہ کھڑا کیا اور پارلیمنٹ سے ایک قانون پاس کروایا کہ مسلم پرسنل لا میں عدالت کوئی ترمیم نہیں کر سکتی۔مصنف کے بقول انہوں نے راجیو گاندھی کو مشورہ دیا تھا کہ اس قضیہ کو کھینچنے کا کو ئی فائدہ نہیں ہے، اور اس کو اینگلو محمڈن قانون کے بجائے شرعی قانون کے مطابق حل کیا جاسکتا ہے،مگر وہ مسلمانوںکو سیاسی بیوقوف بنانے پر تلے ہوئے تھے تاکہ پریشد کے ساتھ ڈیل کو آگے بڑھایا جاسکے۔ اور یہی ہوا۔کانگریس کے علاوہ دیگر سیکولر جماعتوں نے جب وہ اتر پردیش میں حکومت کر رہی ہیں،نے بابری مسجد کی مسماری کے ملزمان کے خلاف کارروائی کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔حتی کہ ایک معمولی نوٹیفکیشن تک کا اجرا نہیں کرسکیں جس سے خصوصی عدالت میں ان افراد کے خلاف مقدمہ چلایا جا سکتا۔ معروف صحافی سدھارتھ وردراجن کے مطابق کسی بھی دوسرے ملک میں، نورانی جیسے عوامی دانشور کی ایک قابل احترام قومی خزانہ کے بطور عزت افزائی کی گئی ہوتی۔ حیر ت کی بات یہ ہے کہ خود مسلمان تنظیموں اور دانشورں نے بھی ان سے بے اعتنائی برتی۔ اگر ہندی اخبار دینک بھاسکرکو ان کے کالم شائع کرنے سے کوئی عار نہیں تھا تو اردو کا کوئی اخبار ان کو کیوں شائع نہیں کرتا تھا؟ یہ ایک بڑا سوال ہے، جو اردو اخبارات کے مالکان اور مدیروں کو اپنے ضمیر سے پوچھنا چاہئے۔ حیدر آباد کا سیاست، انقلاب یا راشٹریہ سہارا تو ان کے کالم کے متحمل ہوسکتے تھے۔ مسلم دانشوروں میں ڈاکٹرمنظور عالم واحد شخص ہیں، جنہوں نے ان کو انسٹیٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹیڈیز کی طرف سے لائف ٹائم ایچیومنٹ ایوارڈتفویض کرکے اس ایوارڈ کو رونق بخش دی۔مسلم سیاستدانوں میں اسد الدین اویسی واحد شخصیت ہیں، جو ان سے رابط میں رہے اور آخری وقت وہی ان کاخیال رکھتے تھے۔ پچھلے چار سالوں سے نورانی صاحب علیل تھے۔ گھٹنوں کے درد کی وجہ سے وہ پہلے ہی وہیل چیر پرمحدود ہو گئے تھے۔ چونکہ ان کی اپنی کوئی فیملی نہیں تھی، اس عرصے کے دوران ان کے ہاتھ میں لرزش آگئی تھی۔ وہ کالم لکھ نہیں پا رہے تھے۔ بتا رہے تھے کہ ان کی آمدن اب تقریبا ختم ہو چکی ہے۔ بس اکتوبر میں کتابوں کی رائلٹی آتی ہے اسی کا انتظار رہتا ہے۔ اس دوران وہ باتھ روم میں گر گئے تھے، جس سے ان کی ٹانگ میں فریکچر آگیا تھا۔ اویسی صاحب کا اللہ بھلا کرے کہ انہوں نے ایک ملازم رکھا تھا، جو ان کی دیکھ بھال کرتا تھا۔ مگر وہ خود دار بھی اتنے تھے کہ ان کو کوئی امداد دینا تو اپنے پر کلہاڑی مارنے کے مترادف تھا۔ اس لئے اس ملازم کی تنخواہ ان کی حیدر آباد پر لکھی ہوئی کتاب کی رائلٹی سے دی جاتی تھی۔ اویسی صاحب نے خود ہی اس کتاب کی سینکڑوں کاپیاں خریدی تھیں۔ اس بلند پایہ شخصیت کو الوداع کرتے ہوئے دکھی من سے تحریر کرنا پڑتا ہے کہ ان کی قدر نہیں ہوئی، جس کے وہ حقدار تھے۔ وہ ایک عظیم ورثہ چھوڑ کر گئے ہیں جس کیلئے صدیوں تک ان کا شکریہ اداکیا جائیگا۔ ان کی کتابیں اور نگارشات اس بات کو یقینی بنائیں گی انصاف کے لیے ان کا عزم ان لوگوں کے دلوں اور دماغوں میں زندہ رہے گا جو انکے نظریات کو برقرار رکھنے کے خواہش مند ہیں۔ سیاسی نظریہ سے قطع نظر جو اکیڈیمک کام انہوں نے کشمیر پر کیا، یہ احسان کبھی چکایا نہیں جا سکتا ہے۔ اے جی نورانی سکون سے رہیں۔ آپ کی میراث برقرار ہے۔

بشکریہ روزنامہ 92 نیوز